کرسمس‘ مسیحیت کو دین ماننے والوں کا مذہبی تہوار ہے۔ ایسے ہی جیسے عیدالفطر یا عید الاضحی اہلِ اسلام کے مذہبی تہوار ہیں۔ اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوئے‘ کیا ہم مل کر ان تہواروں سے وحدتِ آدم اور احترامِ آدمیت کا جوہر کشید کر سکتے ہیں؟ ایبٹ آباد میں بسنے والوں نے زبانِ حال سے اس سوال کا جواب‘ اثبات میں دیا ہے۔
برادرِ عزیز سبوخ سید ایک معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ مذہب کا علم رکھتے ہیں اور پس منظر بھی۔ یہ فکر انہیں بھی کھائے جاتی ہے کہ مذہب جیسی خیر کی قوت سے‘ لوگ شر کیسے کشید کر لیتے ہیں۔ وہ انفرادی سطح پر اس خیر کو نمایاں کرنے کے لیے لگے رہتے ہیں اور اس نوعیت کی کوششوں میں مجھ جیسے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر بھی۔ ایک سال پہلے کچھ دوستوں نے ایک فورم تشکیل دیا جس کا مقصد مذہب کے خیر کو پھیلانا تھا۔ اس فورم نے طے کیا کہ کرسمس اور عید جیسے مواقع کو مذہبی قربت اور سماجی امن کے فروغ کے مواقع میں بدل دینا چاہیے۔ سبوخ سید نے ایبٹ آباد سے اس آغاز کیا اور ایک منفرد تقریب منعقد کر ڈالی۔ یوں کہیے کہ ایک نئی طرح ڈالی۔
مدنی جامع مسجد و مدرسہ ترتیل القرآن کے طلبہ و طالبات نے مسیحی بچوں کو کرسمس لنچ پر مدعو کیا۔ اسلام اور مسیحیت کے مذہبی راہ نما بھی تقریب میں شریک تھے۔ قرآن مجید اور انجیل مقدس کی آیات پڑھی گئیں۔ رسالت مآب سید نا محمدﷺ اور رسالت مآب سیدنا مسیح علیہ السلام کی شان میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے ان پیغمبروں کی تعلیمات بیان کی گئیں۔ مسلمان بچوں نے مسیحی بچوں کو اور مسیحی بچوں نے مسلمان بچوں کو تحائف پیش کیے۔ ایک ساتھ کھانا کھایا۔ مسلمان راہ نماؤں نے مسیحی مہمانوں کا خیرم مقدم کیا اور مسیحی مذہبی راہ نماؤں نے آنے والی عید کی ایسی ہی تقریب کلیسا میں منعقد کرنے کاا علان کیا۔ اس تقریب کے شرکا کے لیے مذہب خوف کی نہیں‘ امن ا ور محبت کی علامت تھا۔
تقریب کے بہت سے شرکا کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ جیسے مولانا سید اکبر علی شاہ‘ مولانا ریاض احمد‘ عامر ہزاروی صاحب‘ وقاص خان سواتی‘ چیئر مین یونین کونسل ولید رزاق‘ کیتھومک چرچ کے فادر ناصر ولیم ذاکر پال‘ میشال جیمز‘ کسٹوفر شاکر۔ سب کے نام لکھنا نہیں‘ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ امن چاہتے ہیں اور مذہب کے نام پر فساد کی ہر کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔
بطور مسلمان‘ جب میں اپنے ہم مذہب لوگوں سے سنتا ہوں کہ 'دنیا آج اسلام کے خوف میں مبتلا ہے اور اسے ختم کرنا چاہتی ہے‘ تو میں حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ یہ بات میرے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے یا باعثِ فخر و انبساط؟ اسلام تو ہر طرح کے خوف سے آزاد کرانے کے لیے آیا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پیغمبر اسلامﷺ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ آپﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں کوئی نیا دین لے کر آیا ہوں۔ یہی کہا کہ میرا دین وہی ہے جو ابراہیم‘ موسیٰ و عیسیٰ علیھم السلام کا تھا۔ ایسے دین سے کسی کو وحشت اور خوف کیسے ہو سکتا ہے؟
بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ اصلاً مذہبی نہیں‘ سماجی مسئلہ ہے۔ مذہبی تنوع‘ اللہ تعالیٰ کی سکیم کا حصہ ہے۔ یہ دنیا اس اصول پر بنائی گئی ہے کہ ہر آدمی آزاد ہے اور یہ آزادی ہی اس کا امتحان ہے۔ جہاں آزادی نہیں‘ وہاں امتحان بھی نہیں۔ آزادی کا مطلب جبر کی نفی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ خالق نے جو آزادی انسانوں کو دے رکھی ہے‘ اس کو بنیادی قدر مان کر ہی سماجی تعلقات کا کوئی قابلِ عمل نظام بنایا جا سکتا ہے۔ ہم جو کچھ اپنے لیے پسند کرتے ہیں‘ وہی دوسرں کے لیے بھی پسند کر نا چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جان و مال کو دوسروں سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو لازم ہے کہ ہم سے بھی کسی کے جان و مال کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ سماج اسی اصول پر زندہ رہ سکتا ہے۔
سماجی امن کے لیے اکثریت کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے۔ ہم مغرب میں جب اسلامو فوبیا کی بات کرتے ہیں تو دراصل اس نفسیاتی مرض کا ذکر کرتے ہیں جو اکثریت میں اسلام کے بارے میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس نے مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کیا جو اقلیت میں ہیں۔ پاکستان میں ہم مسلمانوں کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ ہماری اقلیتیں بھی مسلم اکثریت کی وجہ سے کسی خوف میں مبتلا تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ بات ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہونی چاہیے۔ ایک مسیحی‘ ہندو یا کسی دوسرے مذہب کا بچہ‘ سکول جاتے ہوئے اپنے مسلم ہم جماعتوں سے کسی خوف میں تو مبتلا نہیں ہوتا؟ ہمیں اس سوال کا جواب اپنے بچوں سے لینا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی تعلیم و تربیت کرتے رہنا چاہیے۔
یہ سکول انتظامیہ اور اساتذہ کا فرض بھی ہے کہ تعلیمی ماحول کو مذہبی تعصبات سے پاک رکھیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بچوں کو مذہبی تعلیم نہ دی جائے۔ مکرر عرض ہے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں‘ سماجی رویے سے ہے اور ہمیں اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ عصبیت مذہبی ہو یا لسانی و علاقائی‘ ایک حقیقت ہے۔ ہمارا کام اس عصبیت کو تعصب میں بدلنے سے روکنا ہے۔ پنجابی یا پختون یکجہتی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دونوں اپنے اپنے ثقافتی یا لسانی پس منظر سے اعلانِ برأت کر دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگوں کو نسلی بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ کے امتیاز میں مبتلا نہ کرے۔ مذہبی ہم آہنگی بھی یہی ہے کہ اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھیے لیکن اسے سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کا سبب نہ بننے دیں۔ ہر کسی کو آزادی کے ساتھ جینے دیں تاکہ کوئی دوسرے کے خوف میں مبتلا نہ ہو۔ اس کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہونا چاہیے جہاں ہمارا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے۔ مدرسہ ترتیل القرآن کے طلبہ و طالبات نے جو کوشش کی ہے‘ کیا اچھا ہو کہ ایک روایت میں بدل جائے۔
اس فورم نے ایک تقریب مال روڈ لاہور کے ایک چرچ میں بھی منعقد کی۔ برادرم حنیف قمر اور رانا کامران نے اس کا اہتمام کیا۔ صحافت سے وابستہ یہ نوجوان بھی ایک پُرامن معاشرے کا خواب دیکھتے اور اسے حقیقت بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ فورم کے رکن صاحب زادہ امانت رسول‘ بشپ سبسیٹن فرانسس شا‘ کالم نگار ایثار رانا‘ ڈاکٹر سعید الٰہی سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب کی نوعیت ذہنی ہم آہنگی پر ایک سیمینار کی تھی۔ اس موقع پر بھی تحائف کا تبادلہ ہوا اور فاصلوں میں کمی آئی۔
ریاست کو بدلنے کی بہت کوشش ہو چکی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ 'مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی‘۔ سیاست میں شخصی اور گروہی مفادات کے سوا کچھ نہیں رہا۔ کوئی آدرش ہے نہ خواب۔ ریاست کا وجود ایک حقیقت ہے‘ اس سے مفر ممکن نہیں۔ اسی لیے سیاست کو موضوع بنانا پڑتا ہے۔ ورنہ امید کا کوئی چراغ اگر روشن ہو سکتا ہے تو وہ سماج کی کسی گلی یا چوراہے ہی میں ہو گا۔ یہاں سے ہر کوئی گزرتا ہے۔ عامی بھی خاص بھی۔ کیا معلوم اس روشنی سے کسی کے دل میں اجالا ہو جائے۔ دل روشن ہو جائے تو انسان روشن ہو جاتا ہے۔ ریاست کو تو ہم روشن نہیں کر سکے۔ چلیے! نئی نسل کے دل میں محبت‘ ایثار اور بھائی چارے کے چراغ جلاتے ہیں۔ 'یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘۔