کیا اخلاقیات کا تعلق صرف مالی امور کے ساتھ ہے؟ کرپٹ کیا وہی ہوتا ہے جو مالیاتی معاملات میں بدعنوانی کا مرتکب ہو؟ کیا اخلاقیات کا تصور جنسی رویے تک محدود ہے؟
ہمارے اخلاقی تصورات فی الجملہ ہمارے شخصی اور گروہوں مفادات کے اسیر ہیں۔ اخلاقیات کی فلسفیانہ بحث سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ کسی مکانی قید کے ساتھ بھی ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ مشرقی اخلاقیات ہیں یا مغربی۔ ہم زندگی کے ہر اس مسئلے کو اخلاقیات کے دائرے سے خارج کر دیتے ہیں جس سے ہماری ذات متاثر ہوتی ہو یا ہمارے مفادات۔ میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں جب میں اخلاقیات کے اُن علم برداروں کی تحریریں پڑھتا ہوں جن کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ کبھی لوگوں کے نجی معاملات میں جھانک کر اور کبھی کسی ٹی وی اشتہار میں دوربین لگاکر فحاشی کے مظاہر تلاش کرتے ہیں۔ کبھی کسی فلم کو فحش قرار دے کر اس کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ جب ان کی اپنی ممدوح شخصیت‘ فحاشی کی اُس تعریف کی زد میں آتی ہے جو اُن کے اپنے فکری ٹکسال میں ڈھلی ہوتی ہے تو اس کی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ پھر انہیں زمین ہلتی دکھائی دیتی ہے نہ آسمان گرتا نظر آتا ہے۔ کائنات کا یہ نظم‘ ان کے خیال میں قائم نہیں رہنا چاہیے جب معاملہ کسی دوسری شخصیت سے متعلق ہو۔
اخلاقیات کی فلسفیانہ بحث کیا ہے؟ ایک مؤقف یہ ہے کہ اخلاقیات ایک خاص سماجی پس منظر میں جنم لیتے اور موضوعی (subjective) ہوتے ہیں۔ اخلاقیات پر زمان و مکان کی قید بھی اسی فلسفے کی فرع ہے۔ جیسے مشرقی اخلاقیات‘ مغربی اخلاقیات۔ پاکستان میں ایک محدود طبقہ ایسا ہے جسے ہم لبرل کہتے ہیں‘ وہ اخلاقیات کو اسی نظر سے دیکھتا ہے۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اخلاقی اصول عالمگیراور معروضی (objective) ہوتے ہیں۔ الہامی مذاہب اس کے علمبردار ہیں۔
لبرل اخلاقیات میں‘ فرد کی شخصی آزادی بنیادی قدر ہے۔ اگر یہ آزادی دوسرے کے لیے جبر یا ظلم کا باعث نہیں بنتی تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کا سب سے اہم اور متنازع اطلاق جنسی تعلقات پر کیا جاتا ہے۔ اگر دو افراد ایسا تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر معاشرہ کوئی قدغن لگا سکتا ہے نہ ریاست۔ یہ دو افراد‘ مرد اور عورت‘ دونوں مرد یا دونوں عورتیں ہو سکتی ہیں۔
لبرل اخلاقیات میں بھی تاہم‘ اخلاقیات کا دہرا پیمانہ قابلِ قبول نہیں۔ ایک شخص اخلاقیات کے جس تصور کا مبلغ ہے‘ اگر اس پر عامل نہیں ہے تو اس کی یہ تبلیغ قابلِ قبو ل نہیں‘ بالخصوص اس وقت جب وہ کسی قائدانہ منصب پر فائز ہو۔ مثال کے طور پر اگر وہ سماجی سطح پر آزادانہ جنسی تعلقات کو جائز سمجھتا اور پھر خود اس پر عمل پیرا ہے تو لبرل اخلاقیات میں اس رویے پر کوئی 'اخلاقی‘ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ایک فرد سماج میں مذہبی اخلاقیات کا پرچار کرتا ہے‘ جس میں نکاح ہی جنسی تعلق کا واحد راستہ ہے اور نجی زندگی میں اس کے برخلاف رویہ اپنائے ہوئے ہے تو یہ لبرل اخلاقیات میں بھی قابلِ قبول نہیں۔
مذہب کے اخلاقی تصورات جوہری طور پر لبرل تصورات سے مختلف ہیں۔ مذہب انسان کی مطلق آزادی کا قائل نہیں۔ وہ اسے ان اخلاقی اقدار کا پابند بناتا ہے جس کا احساس اس کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے اور اللہ کے پیغمبر جن کی یاد دہانی کراتے رہے ہیں۔ ان میں ذاتی اور سماجی یا جنسی اور مالیاتی اخلاقیات کی تقسیم نہیں۔ تاہم‘ مذہب ان تصورات کو جبراً انسان پر نافذ نہیں کرتا اِلّا یہ کہ اخلاقیات سے اس کا انحراف سماجی ڈھانچے کو خطرات سے دوچار کر دے۔ اس کے لیے وہ ریاست کو تعزیری اقدام کا حق دیتا ہے۔ یہ کام دنیا کی ہر ریاست اپنے اپنے اخلاقی نظام کی بقا کے لیے کرتی آئی ہے۔
ہم کس اخلاقی نظام کو مانتے ہیں؟ مذہبی یا اخلاقی؟ ہمارا ایک اقلیتی گروہ لبرل اخلاقیات کو مانتا ہے ا ور ایک مذہبی اخلاقیات کو۔ اکثریت اخلاقیات کے ایک خود ساختہ نظام کو مانتی ہے۔ سیاست ہو یا نجی معاملات‘ ہمارے اپنے اخلاقی تصورات ہیں جو ہم نے اپنا رکھے ہیں اور ان کا تعین ہمارا ضمیر یا فلسفۂ اخلاق نہیں‘ ہمارے مفادات اور تعصبات کرتے ہیں۔ ہمارا پورا سماج اس کا گواہ ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات کا دائرہ مالی امور تک محدود ہے۔ غیر مالیاتی یا جنسی تعلقات میں کوئی کیا کرتا ہے‘ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ لیڈر ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ روپے پیسے کے معاملے میں کرپٹ ہے یا نہیں۔ ان کے سامنے اگر لیڈر کی کوئی ایسی بات آئے جو غیر مالی امور میں اسے کرپٹ ثابت کرتی ہو تو یہ بات ان کے لیے اہم نہیں ہوتی۔
ایک گروہ وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ اصل اخلاقیات تو جنسی ہیں۔ ایک آدمی کاروبار اور سیاست میں اگرکرپشن اور مالیاتی بے قاعدگی کی شہرت رکھتا ہے لیکن ذاتی طور پر 'مذہبی‘ ہے۔ نماز پڑھتا دکھائی دیتا ہے‘ روزے رکھتا ہے۔ گھر کا ماحول روایتی ہے۔ رشتوں کا احترام کرتا ہے۔ جنسی معاملات میں اس کی شہرت پلے بوائے کی نہیں ہے تو اس کو 'اخلاقی‘ طور پر بہتر آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مالیاتی کرپشن یا قانون کی پامالی‘ انہیں پریشان نہیں کرتی۔ ایسے افراد کو لیڈر ماننے میں بھی انہیں کچھ مانع نہیں ہوتا۔
یہ رویے اخلاقی ابہام کا اظہار ہیں۔ اس کا محرک دراصل شخصی مفادات اور تعصبات ہیں۔ ہم اگر اپنے اندر جھانکیں تو بہت آسانی سے جان سکتے ہیں کہ ہمارے خیالات کو کہاں سے تحریک مل رہی ہے؟ ہم اپنے ان رویوں کے لیے دلائل تلاش کرتے ہیں اور ان پر مطمئن ہو جانا چاہتے ہیں۔ ایک معروف لیڈر کے بارے میں جب یہ خبر پھیلی کہ وہ شراب پیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: 'شراب پیتا ہوں‘ غریبوں کا خون تو نہیں پیتا‘۔ یہ دلیل ان کے متاثرین کے اطمینان کے لیے کافی تھی۔
ہم میں سے کوئی مثالی نہیں مگر ہمیں اس کا احساس ہمیشہ رہنا چاہیے کہ ہمیں اخلاقی طور پر خیر کی طرف بڑھنا ہے۔ اس کے لیے پہلی منزل اخلاقی تصورات کا ابہام سے پاک ہونا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم ان پر پوری طرح عمل نہ کر سکیں لیکن ہم پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز اخلاقی ہے اور کیا غیراخلاقی؟ اس کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ جسے میں اپنے لیے روا رکھتا ہوں‘ کیا اسے دوسروں کے لیے بھی جائز سمجھتا ہوں؟ جو میرے لیے اخلاقاً درست ہے‘ کیا میری بیوی کے لیے بھی درست ہے؟ نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ وہ شخص برباد ہوا جس کا آج‘ اس کے گزرے کل سے بہتر نہیں۔ یہ اخلاقی ارتقا کا درس ہے۔ ہم اپنے اخلاقی تصورات کو کسی مفاد‘ محبت‘ نفرت‘ تعصب یا ردِ عمل کا یرغمال نہیں بنا سکتے۔ یہ ممکن ہے کہ آج کوئی جذبہ ہم پر غالب آ جائے لیکن کم از کم اس بارے میں متنبہ رہنا ضروری ہے۔
آج بعض لیڈروں کی نجی سرگرمیاں زیرِ بحث ہیں جو خفیہ ذرائع سامنے لا رہے ہیں۔ کسی کا خیال یہ ہے کہ اصل مجرم وہ ہیں جو ایسی ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ انہیں اس سے بحث نہیں کہ جس کے بارے میں جو سامنے لایا گیا ہے‘ اس کی اخلاقی ساکھ اب کیا رہی ہے۔ کچھ اس سوال سے صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ جو لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکتے ہیں‘ انہیں یہ حق کس قانون اور اخلاق کے تحت حاصل ہے؟ ان کی ساری توجہ 'سرگرمیوں‘ پر ہے۔ غور کیجیے تو یہ دونوں رویے‘ ہمارے مفادات اور تعصبات سے آلودہ ہیں۔ ہم عام لوگوں سے تو کسی نے نہیں پوچھا۔ نہ ریکارڈ کرنے والے نے نہ 'سرگرم‘ نے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہم جو رائے اپنائیں گے‘ کیا ہم داخلی طور پر اس سے مطمئن ہیں؟