یہ فکرو فلسفہ ہو یا مذہب و سیاست‘ سماج میں ان کے اعلیٰ مظاہر کے ادراک کی صلاحیت ختم ہو جائے تو پست فکری کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ پھر ہر شعبۂ حیات کی قیادت کم تر لوگوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ انجامِ کار یہ ہے کہ معاشرہ تخلیقی قوت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جہاں تخلیق نہ ہو وہاں ارتقا نہیں ہوتا۔
چند سال پہلے ایک کم سن سوشل میڈیا پر نمودار ہوا جو اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا تھا۔ روایتی مذہبی بیانیہ‘ قدرتِ کلام کے ساتھ۔ معاشرے نے قیادت کے منصب پر فائز کر دیا۔ یونیورسٹیوں میں بحیثیت رول ماڈل بلایا جانے لگا کہ نئی نسل اس سے سیکھے اور ویسا بننے کی کوشش کرے۔ ایک مذہبی مبلغ مقبول ہوئے جنہوں نے اپنے مواعظ میں صحتِ روایات کو ہمیشہ نظر انداز کیا اور مذہب کو اس طرح پیش کیا کہ اسے جگ ہنسائی کا موضوع بنا دیا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ بھی یونیورسٹیوں میں خطاب فرما رہے ہیں اور نئی نسل کو بطور چارہ ان کے سامنے پھینک دیا گیا ہے۔
اسی طرح موٹیویشنل سپیکرز ہیں۔ افسانے‘ کہانیاں اور طلاقتِ لسانی کے سوا ان کے کھیسے میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بھی یونیورسٹیوں میں بلائے جاتے ہیں۔ کبھی کسی نے تجزیہ کیا یہ سب مل کر نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ ندرتِ فکر؟ نئی سوچ؟ اخلاقی بلندی؟ آدمی سوچتا ہے: یونیورسٹی انتظامیہ کی فکری سطح کیا ہے؟ وہ اپنے طالب علموں میں کس طرح کا ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ وہ کس طرح کی ذہن سازی کر رہے ہیں؟ ایک یونیورسٹی کس لیے ہوتی ہے؟
اخبارات میں ایسے کرداروں کے انٹر ویو چھپتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر یہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سوال میڈیا کے ذمہ داران سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اس معاشرے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بہت کچھ تفریح کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن کچھ وقت سنجیدہ مباحث کے لیے بھی وقف ہونا چاہیے۔ یہ محض ایک کالم یا ایک ٹی وی پروگرام کا معاملہ نہیں کہ خانہ پری کرنی اور ایک گھنٹہ سکرین پر رونق لگانی ہے۔ اس کے نتائج نکلتے ہیں اور وہ نکل رہے ہیں۔
میں اپنے کالم پر کیے جانے والے تبصرے دیکھتا ہوں۔ اکثر وہ کالم کے موضوع سے غیرمتعلق‘ سطحی اور پست فکری کے مظاہر کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ یہ عرفِ عام میں پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ رائے کا غلط یا صحیح ہونا ایک طرف‘ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی بات کیسے کہی جاتی ہے؟ تنقید کا مطلب کیا ہے؟ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ تنقید کے لیے کسی کالم کا پڑھنا پہلی اور سمجھنا دوسری شرط ہے۔ دشنام اور گالیوں کو بھی شمار کر لیں تو فکری افلاس کے ساتھ اخلاقی افلاس بھی ظاہر و باہر ہے۔
یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ جن کی اکثریت یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل اور اس میڈیا کی تربیت یافتہ ہے۔ جب جامعات میں ایسے لوگ ان کے رول ماڈل ہوں گے اور مذہب و معاشرے کے بارے میں اس سطح کی تعلیم دی جائے گی تو اس کے یہی مظاہر سامنے آئیں گے۔ اگر مذہب کے نام پر حوروں کی قد و قامت زیرِ بحث رہے گی تو اخلاقی محاسن کیسے پیدا ہوں گے جو مذہب کا اصل ہدف ہیں؟ نئی نسل کیسے جانے گی کہ جھوٹ گھڑنا اور پھیلانا کس سطح کا اخلاقی جرم ہے؟ بدگمانی کو مذہب کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اگر ان میں فلسفہ و کلام اور سماجی علوم کے مباحث اعلیٰ سطح پرسمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو وہ کیسے جانیں گے کہ کسی تحریر پر نقد کے آداب کیا ہیں؟ استدلال کیا ہوتا ہے۔ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ سے کیا مراد ہے؟
چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ٹی وی چینل سے ایک پروگرام کا آغاز کیا۔ ڈائریکٹر صاحب سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے اچھے اینکر کے اوصاف بتائے۔ ایک صفت یہ بتائی کہ اس کے اٹھائے ہوئے سوالات پر ناظرین کہیں 'یہ سوال تو ہمارے ذہن میں تھا‘۔ میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک اس کی ایک نشانی اور بھی ہے۔ وہ ایسے سوالات اٹھائے جن کو سن کر ناظرین کے سامنے زیرِ بحث مسئلے کے نئے پہلو آئیں اور وہ یہ سوچیں 'ہمارا ذہن تو اس طرف نہیں گیا تھا‘۔ یوں ان کا فکری افق وسیع ہو۔ میڈیا کا کام صرف سوچ ہی نہیں‘ زبان و بیان کے حوالے سے بھی عوام کی ذہنی سطح کو بلند کرنا ہے۔
نظامِ تعلیم اور میڈیا ذہن سازی کے دو ادارے ہیں۔ اگر یہ عوام کی ذہنی سطح کی بلندی کو اپنے مقاصد میں شامل نہیں کریں گے تو پھر جو لوگ ابھر کر سامنے آئیں گے‘ ان کی ذہنی سطح بلند نہیں ہوگی۔ جب معاملاتِ زندگی ان کے ہاتھ میں ہوں گے تو معاشرے کی عموی فکری سطح پست ہو جائے گی۔ ایسے معاشرے ترقی کی راہ پر چند قدم نہیں چل سکتے۔ پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
چند دن پہلے مجھے اتفاق سے یو ٹیوب پر مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تقریر کا ایک حصہ سننے کو ملا۔ یہ مولانا حسین احمد مدنی کی یاد میں ایک تعزیتی جلسے سے مولانا کا خطاب تھا۔ گفتگو کے دوران مولانا نے ایک جملہ کہا جس نے مجھے جکڑ لیا۔ انہوں نے حالات پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ''جاہلوں میں مذہبی پاگل پن پیدا ہو جائے تو اس کی کوئی حد نہیں رہتی‘‘۔ آپ مجھے موجودہ سیاست دانوں میں سے کسی ایک کا نام بتائیے جو سماج کی اس درجے کی تفہیم رکھتا ہو۔ پھر اس جملے کو موجودہ حالات پر منطبق کرکے اس کی معنویت کو محسوس کریں۔ لیڈر کی ذہنی سطح جب یہ ہوگی تو پھر کارکنوں میں بھی فکری اور اخلاقی رفعت پیدا ہوگی۔ لیڈر صرف سیاست میں نہیں ہوتے۔ ہر وہ ادارہ اور شخص لیڈر ہے‘ لوگ جس کے پیچھے چلتے ہیں۔ جو رائے سازی اور ذہن سازی کرتا ہے۔ یہ علما بھی ہیں اور میڈیا بھی۔ استاد بھی اور نظامِ تعلیم بنانے والے بھی۔ اس معاشرے پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے جہاں نوجوانوں کو بیس پچیس ہزار ماہانہ دے کر سوشل میڈیا پر بٹھا دیا جائے کہ سیاسی مخالفین کو گالیاں دیں۔ اختلافی بات کہنے اور لکھنے والوں پر دشنام بھیجیں۔ ایسے نوجوان اعلیٰ اخلاق کا مظہر کیسے بن سکتے ہیں؟ سوچنا یہ ہے کہ جو نوجوانوں کو یہ کام سونپتے ہیں‘ وہ ان کے دوست ہیں یا دشمن؟
یہ سیاسی لیڈر ہو یا مذہبی پیشوا‘ کوئی گیت ہو یا تحریر‘ اعلیٰ سطح کے مظاہر اور فن پاروں کا ادراک رکھنے والے بہت کم ہیں۔ تیسرے اور چوتھے درجے کے مظاہر ہی کی تحسین ہوتی اور وہی عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ ایک اقلیت یقیناموجود رہتی ہے جو مذہب و سماج اور اخلاقیات کے مباحث کو اعلیٰ سطح پر سمجھتی اور ان کی قدر دانی کرتی ہے۔ غلبہ پست فکری ہی کا ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ جن اداروں اور افراد کا کام یہ تھا کہ وہ اس سطح کو بلند کریں‘ وہ خود فکری رفعت سے محروم ہیں۔ تعلیمی اداروں کی مثال اس لیے دی ہے کہ یہ وہ ٹکسال ہیں جہاں شخصیتیں ڈھلتی ہیں۔ اسی طرح میڈیا سے لوگ بات کرنا سیکھتے ہیں۔ اخباری کالم پڑھ کر لوگ یہ جانتے ہیں کہ بات کہنے کا ڈھنگ کیا ہونا چاہیے۔ تنقید بری چیز نہیں ہے۔ اگر یہ اعلیٰ سطح کی ہو تو اس سے نئے زاویہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں۔ ذہن کے بند دریچے کھلتے ہیں جہاں سے تازہ افکار کی ہوا آتی ہے۔ اگر ہم یہی سیکھ جائیں کہ تنقید کیا ہوتی ہے تو ہمارا آدھا راستہ طے ہو جائے۔ ورنہ یہ فکری اور اخلاقی انحطاط اس سماج کو لے ڈوبے گا۔ ریاست پہلے ہی خطرات کی زد میں ہے۔