سینیٹ میں پرویز مشرف صاحب کے لیے اجتماعی دعائے مغفرت نہ ہو سکی۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے اس سے انکار کر دیا۔کیا یہ اقدام سیاسی سوچ میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے؟
اس واقعے کاتعلق مشرف صاحب کے کل سے نہیں‘ہمارے کل سے ہے۔آنے والے دنوں میں‘اُن کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا‘ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔ان کی مغفرت کا انحصار ہماری دعاؤں پر نہیں‘ ان کے ا عمال پر ہے؛ تاہم مشرف صاحب کی مغفرت ‘اس وقت میرا موضو ع نہیں۔مجھے صرف اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ سینیٹ کا انکار‘ کن سیاسی وسماجی مضمرات کا حامل ہے۔
پرویز مشرف ایک آمر تھے۔وہ بغیر کسی استحقاق کے اقتدار پر قابض ہوئے۔انہوں نے بائیس کروڑ عوام کے اُس عہد کوپامال کیا جسے ہم آئین کہتے ہیں اور جو ریاست کے سب اداروں کے حقوق وفرائض کا بیان ہے۔اسی سے نظمِ اجتماعی قائم ہے۔ اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔یہ نہ ہو تو ہمارا معاشرہ جنگل بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ آئین شکنی کی جو سزا‘خود آئین میں طے کی گئی ہے‘اس سے بڑی سزا ‘ہو نہیں سکتی۔یہ موت ہے۔سزا کا غیر معمولی ہونا جرم کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔اللہ کا قانون یہ کہتا ہے کہ قتل کی سزا موت ہے۔یہی ہمارا قانون بھی کہتا ہے۔یہ سزا اس لیے ہے کہ انسانی جان کی حرمت قائم ہو اور لوگ اس کے بارے میں متنبہ رہیں۔
آئین شکنی پر جب ایک قوم اپنی ناپسندیدگی کااظہار کرتی ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہو تا ہے کہ وہ آئین کے بارے میں کتنی حساس ہے اور اسے سیاسی وسماجی ستحکام کے لیے کتنا اہم سمجھتی ہے۔جب باہمی تعلقات کی حد بندی کے لیے کوئی معاہدہ نہیں رہتا یا کوئی اسے بندوق کے زور پر ختم کر دیتا ہے تو وہ در اصل فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کوطاقتوروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔آئین جب نہیں ہوتا تو بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں رہتے‘آئین جن کی ضمانت دیتا ہے۔جب ضامن ہی نہیں تو ضمانت کیسی؟
آئین شکنی سے بچانے کی ذمہ داری عدالتوں کی ہے۔پرویز مشرف نے نہ صرف آئین پامال کیا بلکہ انہوں نے عدالتِ عظمیٰ کو جج صاحبان کوبھی نکال دیا جب انہوں نے مشرف صاحب کی آئین شکنی کی توثیق نہیں کی۔یہ اپنے جرم پراصرار تھا۔ ریاست اور معاشرے کے پاس اب دو ہی راستے تھے۔ایک یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے۔دوسرا یہ کہ اس کی مزاحمت کی جائے۔آئین شکنی کو قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ سماج کسی اخلاقی یاتہذیبی حساسیت سے محروم ہو گیا ہے۔یہ ممکن ہے کہ کسی سبب سے عوام مزاحمت پر آمادہ نہ ہوں لیکن کم ازکم ان میں یہ حس تو ہونی چاہیے کہ اسے جرم سمجھیں اورکسی آئین شکن کی حمایت نہ کریں۔
بدقسمتی سے اس ریاست اور معاشرے میں ایسے لوگ موجودرہے ہیں جو اس حساسیت سے محروم ہیں۔انہوں نے نہ صرف مشرف صاحب کا ساتھ دیا بلکہ ان کا دفاع بھی کیا۔نوازشریف صاحب نے یہ چاہا کہ انہیں اس آئین شکنی کی سزا ملے اور وہ ان کے معاملے کو عدالت میں لے گئے۔اس کا انجام کیا ہوا؟نوازشریف صاحب کوعبرت کا نشان بنا دیا گیا اور پرویزمشرف کو ملک سے باہر بھیج دیاگیا۔عدالت ان کی راہ دیکھتی رہ گئی۔ایک عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا تو دوسری عدالت نے اسے منسوخ کر دیا۔ سب جانتے ہیں کہ نوازشریف صاحب کا اصل جرم یہی تھا جس کی ان کو سزا ملی۔اگر وہ پرویز مشرف صاحب کے خلاف مقدمہ قائم نہ کرتے تو ابھی تک اقتدار میں ہوتے اور انہیں صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ بھی مل چکا ہوتا۔ان کاانجام بتا رہا ہے کہ ہمارے طاقتور حلقے آئین کے معاملے میں کتنے حساس ہیں۔
میں اس بات سے بے خبر نہیں کہ سیاست حقیقت پسندی کا تقاضاکرتی ہے۔اس لیے جب کوئی اقتدار بالفعل قائم ہو اور وہ جبر کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو‘اس کو ختم کر نا آسان نہیں ہوتا۔مزاحمت کی کامیابی کا امکان نہ ہو توعوام کے جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔تاہم یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے‘ سیاسی طور پر مزاحمت کرے۔جو لوگ بغیر کسی استحقاق کے‘ا قتدار تک پہنچ جائیں‘انہیں نکال باہر کرنے کے لیے ان سے مذاکرات بھی کیے جاتے ہیں۔اس بات کا تعلق سیاسی حکمتِ عملی سے ہے۔
پرویز مشرف صاحب کا معاملہ تو یہ ہوا کہ ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے بعد بھی کوئی انہیں ہاتھ لگانے کی جرأت نہ کر سکا۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ طاقتور حلقے ان کے دفاع میں کھڑے ہوگئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ تادمِ مرگ ان کا تحفظ کیا گیا اورآئین پر ان کی ذات کو ترجیح دی گئی۔اس سے اندازہ ہوا کہ ہمارے طاقتور حلقے آئین کو کیا اہمیت دیتے ہیں اور ان کے نزدیک عہد اور عمرانی معاہدے کی کیا حیثیت ہے۔
اس پس منظر میں سینیٹ کے ا رکان نے جو کیا‘یہ دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری مقننہ کا ایوانِ بالا‘ آئین کو مقدس سمجھتا ہے اور کسی آئین شکنی کو نظر انداز کرنے پر آمادہ نہیں۔یہ آئین شکنی کے خلاف احتجاج کا مہذب انداز ہے۔کوئی شخصی حیثیت میں ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا چاہے تو ‘اس کا حق رکھتا ہے۔ اس سے کسی نے منع نہیں کیا۔تاہم سینیٹ نے اجتماعی طور پر یہ بتایا ہے کہ ایک آئین شکن کے لیے اس کے جذبات کیا ہیں؟
ان باتوں کی اہمیت علامتی ہوتی۔ قیادت کے منصب پر فائز لوگ جب کوئی کام علامتی سطح پربھی کرتے ہیں تو یہ دراصل سماج کو کسی معاملے کی سنگینی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔نبی ﷺ نے ایک بار ایک قرض دار کا جنازہ پڑھنے سے انکار دیا۔بطورِ قائد‘آپ دراصل سماج کو اس بارے میں حساس بنانا چاہتے تھے کہ قرض کی ادائیگی کتنی اہم ہے۔ ہمارے ہاں اب یہ روایت بن چکی کہ ہر جنازے پر مرنے والے کے لواحقین اعلان کرتے ہیں کہ متوفی کے ذمہ کوئی قرض تھا تواسے ہم ادا کریں گے۔گویا یہ اعلان ہے کہ جنازے کی دعا مشروط ہے۔
سینیٹ کا طرزِ عمل اس بات کااظہار ہے کہ وہ آدمی ہماری نظر میں ناپسندیدہ ہے جو آئین شکن ہے۔اس علامتی اظہارسے‘امید ہے کہ اس کاشعور عام ہو گا۔معاشرے میں کسی برے کام کی شناعت واضح کرنے کے لیے قانون کے ساتھ سماجی رویہ بھی ایک کردار ادا کرتا ہے۔صدر کلنٹن کے سیاسی مستقبل کے لیے مونیکا کا قصہ اگرفیصلہ کن ثابت ہوا تو اس کا سبب قانون نہیں تھا‘سماج کی حساسیت تھی۔ہماری سینیٹ نے اس کوبیان کیا ہے۔
رہا مشرف صاحب کی مغفرت کا معاملہ تو ہر آدمی آزاد ہے ۔وہ چاہے تو ان کے لیے دعا کر سکتا ہے۔کسی کی مغفرت کے لیے ہم یہی کر سکتے ہیں۔ہماری اجتماعی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم سماج کو بعض اقدار کے بارے میں حساس بنائیں۔ایسی اقدار جن سے ایک سماجی نظم قائم رہتا ہے۔ سینیٹ نے آئین کے معاملے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیاہے‘اللہ کرے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے عمومی طرزِ عمل میں بھی پیدا ہو اور کوئی اقتدار کے لیے سرِ عام یا پسِ پردہ ساز باز نہ کرے۔اور اگر کرے تو سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔