کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس ملک اور ریاست کی باگ خواتین کے ہاتھ میں جا چکی؟
ملک میں ایک خاموش سماجی تبدیلی آ چکی۔ اس وقت سماج اور ریاست کے بڑے فیصلے خواتین کے زیرِ اثر ہو رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کے کایا پلٹ دینے والے فیصلوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے پیچھے خواتین ہیں۔ بظاہر معاملات مردوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن پس منظر میں دماغ خواتین کا ہے۔ قلم منصف نے پکڑ رکھا ہے مگر اس کی روشنائی نسوانی رنگ لیے ہوئے ہے۔ تلوار مرد کے ہاتھ میں ہے‘ فساں مگر عورت ہے۔ یہ تبدیلی کیسے آئی؟
'بااختیارخواتین‘ (Women's empowerment) کی تحریک مغرب میں اٹھی۔ مغربی معاشرے میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ انسانی معاشرہ تاریخی اعتبار سے پدر سرانہ رہا ہے۔ یورپ بھی ایسا ہی تھا۔ وہاں جب سماجی تبدیلی کی تحریکیں اٹھیں تو انہوں نے صدیوں سے قائم معاشرتی تصورات کو بدل ڈالا۔ نئے مقبول تصورات میں ایک تصور‘ مرد اور عورت کی برابری کا بھی تھا۔ اسے پزیرائی ملی اور آج اس کا شمار معاشرے کے متفق علیہ امور میں ہوتا ہے۔ کم از کم نظری سطح پر کوئی عورت کو کمتر کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
مشرق‘ بالخصوص مسلم معاشرے‘ دیکھنے میں آج بھی پدر سرانہ ہیں۔ تاہم‘ اس باب میں اضطراب ہے جو گاہے گاہے سر اٹھاتا ہے۔ اس وقت اسباب زیرِ بحث نہیں اور نہ یہ اس کا محل ہے۔ میں صرف یہ نتیجہ بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے قدیم تصورات معرضِ خطر میں ہیں اور ان میں ایک تصور خواتین کی کم تر حیثیت بھی ہے۔ ہماری مذہبی تعبیرات ہوں یا سماجی روایات‘ سب مرد کی برتری کی قائل ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ نظری سطح پر اس مقدمے کو کوئی بڑا خطرہ در پیش نہیں۔ 'عورت مارچ‘ طرح کی سرگرمیاں سماج کے ظاہری ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر پائیں۔ اس کے باوصف‘ یہ تبدیلی کیسے آئی کہ معاملات خواتین کے ہاتھوں میں چلے گئے؟
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری خواتین نے مردوں سے براہِ راست تصادم سے گریز کرتے ہوئے ایک خاموش مزاحمت (passive resistance) کا فیصلہ کیا ہے۔ حقوقِ نسواں کی تحریکوں نے اگرچہ تصادم کا فلسفہ دیا‘ جس کا ایک مظہر 'عورت مارچ‘ بھی ہے مگر یہاں کی اکثریت نے اسے قبول نہیں کیا۔ یہاں کی خاتون نے مرد سے متصادم ہونے اور اس کی برتری کو چیلنج کیے بغیر‘ خود کو منوانے کی ٹھانی۔ تعلیم اور میڈیا نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔
سماجی تبدیلیوں نے مرد کو یہ باور کروایا کہ وہ تنہا اس قابل نہیں رہا کہ خاندان کی معاشی کفالت کر سکے۔ اسے عورت کی مدد چاہیے۔ عورت اسی وقت اس قابل ہوگی جب ذرائع پیداوار تک اس کی دسترس ہو گی۔ ان ذرائع تک رسائی تعلیم کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ تعلیم نے خواتین کو ذرائع پیداوار ہی تک رسائی نہیں دی‘ ساتھ شعور بھی دیا۔ اس نے سماجی روایات کو چیلنج کیے بغیر‘ مرد کی سوچ پر اثرا نداز ہونے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے لفظ سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ یا سازش تھی۔ الفاظ عرضِ مدعا کے لیے ہوتے ہیں اور ان کا مفہوم سیاق و سباق سے طے ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عورت نے جب یہ محسوس کیا کہ سماجی ڈھانچہ کی گرفت اتنی سخت ہے کہ اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو اس نے حکمت سے ایک راستہ نکالا۔ بالکل پانی کی طرح۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ سامنے پتھر ہے تو اس سے الجھے بغیر‘ اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ ہماری عورت نے بھی یہی کیا۔ اس نے مرد کے ذہن پر اثر انداز ہونے کی راہ اپنائی اور کامیاب رہی۔
تعلیم کے ساتھ‘ میڈیا دوسرا عامل تھا جو اس کی سوچ پر اثر انداز ہوا۔ خواتین کی حق تلفی‘ ڈرامے ہی کا نہیں‘ ٹی وی مذاکروں کا بھی موضوع رہا۔ ہماری خواتین کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ٹی وی ڈرامہ ہے۔ اس سے سماجی تبدیلی کا عمل آگے بڑھا۔ ان ڈراموں سے صرف حقوق ہی کے باب میں آگاہی پیدا نہیں ہوئی‘ اس جبر سے نکلنے کے طریقے بھی معلوم ہوئے۔ خواتین نے جانا کہ تصادم ہی واحد راستہ نہیں ہے۔
خواتین نے پہلے مرحلے میں خاندانی امورکو متاثر کرنا شروع کیا۔ جب وہ معاشی عمل میں شریک ہوئیں تو پھر انہیں فیصلہ سازی سے دور رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔ اب گھر کے فیصلوں میں اس کی مرضی شامل ہو گئی جو پہلے نہیں تھی۔ یہ بات یہاں رکی نہیں۔ اس نے جب اپنی یہ حیثیت منوا لی کہ وہ بھی ایک رائے رکھتی ہے تو پھر اس نے قومی معاملات میں پیش رفت شروع کی۔اس نے مردوں کی سیاسی آراء کو متاثر کرنا شروع کیا۔اس کا سب سے بڑا مظہر تحریکِ انصاف کے لیے خواتین کی حمایت ہے۔
یہ معلوم ہے کہ عمران خان صاحب خواتین اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ نوجوانوں میں بھی کم از کم پچاس فیصد خواتین ہیں۔ خواتین میں ان کی مقبولیت کے اسباب‘ میرے نزدیک نفسیاتی زیاد ہ ہیں۔ اس کا گہرا تعلق ہماری سماجی بُنت سے ہے جس میں خواتین کی نفسیات کی تفہیم بہت کم ہے۔ یہ سماجی نفسیات کا موضوع ہے اور سنجیدہ مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اس وقت مجھے سبب سے نہیں‘ نتیجے سے غرض ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ خواتین میں خان صاحب بہت مقبول ہیں۔ خواتین پھر بچوں پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔
سماجی تبدیلی کا یہ عمل زیادہ تر متوسط طبقے میں ہو رہا ہے۔ خان صاحب کے جلسوں میں شریک زیادہ تر خواتین کا تعلق آسودہ حال یا مڈل کلاس سے ہے۔ یہ طبقہ چونکہ تعداد میں سب سے زیادہ ہوتا ہے‘ اس لیے سماجی تبدیلی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان خواتین نے دوسری جماعتوں کی طرف کیوں رخ نہیں کیا؟ میں اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس کا زیادہ تر تعلق نسوانی نفسیات سے ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ خواتین میں اتبی مقبول نہیں تھیں حالانکہ وہ 'بااختیار خاتون‘ کی سب سے بہتر مثال تھیں۔ یہ مشاہدہ بھی میری بات کی تائید کرتا ہے۔ (ن) لیگ میں بھی اس وقت سب سے با اثر لیڈر ایک خاتون ہے۔
میں اس موضوع کو غلط یا صحیح کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔ سیاست بھی حوالہ نہیں ہے۔ میرا زاویۂ نظر سماجی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ خواتین آج سماجی اور سیاسی معاملات پر فیصلہ کن دسترس حاصل کر چکی ہیں۔ ہماری عورت نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اس نے تصادم میں پڑنے کے بجائے‘ اپنی حیثیت کو ایک دوسرے طریقے سے منوانا ہے اور وہ اس میں کامیاب ہے۔ آج لوگ اہم قومی فیصلوں کے پس منظر میں کسی خاتون کو کارفرما دیکھتے ہیں تو یہ اسی سماجی تبدیلی کی نشاندہی ہے۔
اس میں یہ سبق ہے کہ ہر کام زور اور تصادم سے نہیں ہوتا۔ یہ تبدیلی انقلابی نظریات کی نفی ہے جن میں تصادم کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ سماجی تبدیلی خاموشی سے آتی ہے۔ اس میں تدریجاً آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ہمارے سماجی ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے‘ خواتین نے معاشرے اور ریاست پر اثر انداز ہونا سیکھ لیا ہے۔ بظاہر مرد کی حاکمیت قائم ہے لیکن درحقیقت ختم ہو چکی ہے۔ وہ بہادر شاہ ظفر کی طرح خرقہ پہنے گھوم رہا ہے جسے وہ شاہی لباس سمجھتا ہے۔ اسے شاید معلوم نہیں کہ اقتدار کی باگ ایسٹ انڈیا کمپنی کو منتقل ہو چکی۔
مرد اگر اس تبدیلی کو شعوری سطح پر قبول کر لے تو اس کی بہت سی غلط فہمیوں اور ذہنی الجھنوںکا ازالہ ہو جائے۔ پھر وہ خود بھی بہتر فیصلے کر سکے گا۔