آج عید ہے۔ عیدالفطر۔
خوشیوں کا مہکتا استعارہ۔ مذہبی تقدس کی چادر اوڑھے‘ رمضان کی یادوں سے سرشار‘ جس میں اعتکاف جیسی یادِ خدا سے معمور تنہائیاں بھی ہیں اور افطار جیسے سماجی تعلقات سے مملو اجتماعات بھی۔ ایسے دلربا اور حسین موقع کو تلخ سیاسی مباحث کی نذر کر دینا خوش ذوقی نہیں ہے۔ میری طرف سے سب اہلِ اسلام کو عید مبارک‘ بالخصوص انہیں جنہیں سیاسی امور میں مجھ سے اتفاق نہیں۔ مبارک باد کی قبولیت کے لیے اتفاق کوئی شرط نہیں۔
میری نسل کے لیے عید ماضی کی ایک کسک ہے۔ میں شاید اس سے کبھی نجات نہ پا سکوں۔ میں ایسا چاہتا بھی نہیں۔ یہ کسک اس ہلکی آنچ کی طرح ہے جو جلاتی تو ہے لیکن ایک لذت آمیز احساس کے ساتھ۔ آدمی راکھ ہو جاتا ہے مگر 'چوں مرگ آید تبسم برلب اوست‘ کی تصویر بن جاتا ہے۔ آتی تو موت ہے مگر مسکراہٹوں کے جلو میں۔ میری نسل کے لیے عید کیا تھی‘ یہ آج سوچا تو جا سکتا ہے‘ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس وصال کا اعلان تھا جس کی خواہش سال بھر ہجر کی انگیٹھی پر چڑھی ابلتی رہتی تھی۔ اس وصل میں ماں کی ممتا‘ باپ کی شفقت اور محبوب کی تڑپ سمیت‘ نہیں معلوم کتنے جذبات کی تسکین کا سامان تھا۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ خوشی کے اس موقع پر یادوں کی راکھ کریدنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ جس میں نہ جانے حسرتوں کی کتنی چنگاریاں چھپی ہوئی ہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ مری نسل کے لیے عید جس طرح کا موقع تھا‘ اب صرف اس کی یاد باقی ہے جو علی الصبح انگلی پکڑتی اور سارا دن ہم قدم رہتی ہے۔ کسی لمحے اپنی موجودگی سے بے نیاز نہیں ہونے دیتی۔ ہاتھ جھٹکیں بھی تو پھر سے تھام لیتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ بچے اس کے وجود سے بے خبر رہیں۔ میری یہ یادیں ان کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتیں۔ میں ان کو شریک بھی نہیں کر سکتا کہ نئی نسل کا شاکلہ میری نسل سے مختلف ہے۔
سماج بدلا تو سب کچھ بدل گیا۔ تہوار بھی وہ نہیں رہے۔ ارتقا کا چلن یہی ہے۔ تہوار کا حسن روایت میں ہے۔ اس کا تعلق ماضی کے ساتھ ہے‘ چاہے اس نے مذہب کی کوکھ سے جنم لیا ہو یا رواج کی گود میں پلا ہو۔ مذہب اور رواج ایک سطح تک پہنچ کرمتحجر ہو جاتے ہیں۔ وہ ارتقا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کی بقا اسی میں ہے۔ رواج‘ رواج نہیں بن سکتا اگر اسے ایک خاص صورت میں محفوظ نہ رکھا جائے۔ مذہب‘ مذہب نہیں رہتا اگر ٹھوس کے بجائے مائع بن جائے اور ہر ظرف کو‘ مکان کا ہو یا زمان کا‘ اختیار کر لے۔
اجتہاد کے نام پر اگر مذہب کے جوہر کو باقی نہ رکھا جائے تو مذہب تحلیل ہو جائے۔ اجتہاد ایک تخلیقی عمل بن جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ اجتہاد ایک انسانی عمل ہے اور انسان مذہب کا خالق نہیں ہو سکتا۔ اجتہاد مذہب کو تخلیق نہیں کرتا‘ اسے ازسرِ نو زندہ کرتا ہے۔ مذہب کا جوہر نظری ہی نہیں‘ وجودی بھی ہے۔ اجتہاد سے عید کی ہیئت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ وہی دو خطبے اور دو رکعت نماز۔ عیدالفطر رمضان سے جدا ہو سکتی ہے نہ عید الاضحیٰ قربانی سے۔ عید الفطر کواس جذبے سے بے نیاز ہو کر سمجھا نہیں جا سکتا جسے رمضان کی شب و روز نشو ونما دیتے ہیں۔ عید الاضحی حج اور خدا کے اس وعدے سے جڑی رہے گی جو اس نے اپنے صالح بندوں ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام کے ساتھ کیا تھا اور جس کے مطابق اسماعیل کی قربانی کو ذبحِ عظیم سے بدل دیا تھا۔ یہ قیامت تک ایسے ہی رہیں گے۔ اجتہاد انہیں بدل نہیں سکتا۔ یوں سمجھیے کہ مذہب نے وقت کو متحجر کر دیا ہے۔
مذہب کی حفاظت پروردگار خود کرتا ہے۔ رواج انسانی تعامل سے بنتے ہیں اور ان کو باقی رکھنے کے لیے انسانوں کو خود پہرا دینا پڑتا ہے۔ انسانی کاوش سے جڑے تہوار اور رواج‘ ہمیشہ ارتقا کی آندھیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ماضی میں تبدیلی کا عمل قدرے سست تھا۔ یوں رواج صدیوں تک زندہ رہتے تھے۔ اب تبدیلی اتنی شتابی سے آتی ہے کہ رواج کا لفظ ہی قصۂ ماضی بنتا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں‘ انسانی معاشرے میں‘ اس کا مظہر تلاش کرنا شاید ممکن نہ رہے۔ یہ لفظ‘ سماج سے رخصت ہو کر لغت کی تحویل میں چلا جائے۔ جس اسم کا مسمیٰ نہ ہو‘ اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔
رواج‘ یہ خیال ہوتا ہے کہ میری نسل کا مسئلہ ہے۔ نئی نسل کے لیے یہ بے معنی ہو چکا۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگ عید کے دن گھر سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں کہ دنیاوی مفاد اس کا متقاضی ہوتا ہے۔ انہیں اس کا کچھ ملال بھی نہیں ہوتا۔ ان کے لیے دنیا کے ساتھ ہم قدم ہونا زیادہ اہم ہے۔ عید کے دن ایئر پورٹس پر اسی طرح ہجوم ہوتا ہے جس طرح عام دنوں میں۔ یہ میرا آنکھوں دیکھا ہے کہ عید کے دنوں میں لاری کا اڈا ویران ہو جاتا تھا۔ موت جیسا کوئی المیہ اگر سفر کو ناگزیر بنا دے تو سواری میسر نہیں ہوتی تھی۔ آج منظر بدل چکا۔ سوار کم ہیں نہ سواریاں۔
رواج اس لیے باقی نہیں رہتے کہ انسان کی تخلیق ہیں۔ انسان بدلتا ہے اور اب تو بہت تیزی کے ساتھ۔ روایت سے اس کا ناتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ختم ہو چکا تو اس میں شاید مبالغہ نہ ہو۔ رسوم و رواج کو سماج کا قرار باقی رکھتا ہے۔ سماج اگر بے قرار ہے تو رواج میں قرار کہاں؟ عید میں اب وہی کچھ باقی ہے جس کا تعلق مذہب سے ہے۔ اس کا رواجی پہلو قصۂ پارینہ بن چکا۔ رواج کے مٹنے کی کسک بھی میرے ساتھ مٹنے والی ہے۔
صرف رسم و رواج اور تہوار ہی نہیں‘ بہت کچھ معرضِ خطر میں ہے۔ جیسے ملک سے محبت۔ ملک تو خیر ایک مصنوعی وجود ہے‘ اس لیے اس سے تعلقِ خاطر کا ختم ہونا قابلِ فہم ہے‘ یہاں وطن سے محبت بھی ختم ہو رہی ہے‘ جو فطری ہے۔ نئی نسل اب ایک بین الاقوامی برادری کی رکن ہے۔ سرحدیں‘ اس کے لیے بے معنی ہیں۔ وہ ان پرندوں کی طرح ہے جو رزق کی تلاش میں سائبیریا سے چلتے‘ ہمالیہ کی چوٹیوں کو چھوتے اور کراچی کے ساحل پر جا اترتے ہیں۔ کتنے ہیں جو سرِ راہ دم توڑ دیتے ہیں‘ ان نوجوانوں کی طرح جو رزق کے لیے کشتیوں میں سوار ہوتے اور سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ پرندوں سے بھی کمزور ہیں کہ اُن کے دل میں وطن کی طرف لوٹنے کا خیال تو زندہ رہتا ہے۔ موسم کے تیور بدلتے ہیں تو یہ واپسی کے لیے پر تولنے لگتے ہیں۔
جو کسی الہامی سکیم کو نہیں مانتے‘ انہیں مذہب کی اس سماجی خدمت کا تو ضرور اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے انسان کو ماضی سے جوڑ رکھا ہے۔ یہ گزرے دنوں کے ساتھ انسان کا واحد زندہ رابطہ ہو گا۔ ماضی تو اب کتب خانوں اور عجائب خانوں کا رزق بننے والا ہے۔ تہوار اور رسم و رواج کے نشانات‘ پریم چند کے افسانوں میں ملیں گے یا آثارِ قدیمہ کے ریکارڈ میں۔
بارِ دگر معافی کا درخواست گزار ہوں کہ خوشی کے اس موقع پر‘ پانے کے بجائے‘ کھونے کے احساس میں گم ہو گیا۔ مجھے معذور جانتے ہوئے معاف کیجیے کہ ماضی کے چراغوںکا دھواں‘ انتظار حسین کی آپ بیتی ہی سے نہیں‘ میری داستانِ حیات سے بھی اُٹھ رہا ہے۔ میری تجزیائی غلطیاں ہوں کہ دوستوں کی فروگزاشتیں‘ سب سے در گزر کرتے ہوئے‘ سب سے گلے ملنے کے اس موقع کو غنیمت جانیں کہ نہ جانے کب یہ رواج بھی طاقِ نسیاں کی نذر ہو جائے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ معانقہ بدعت ہے۔اگراس رواج کا مذہب سے تعلق ختم ہو گیا توگلے ملنے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔