ہمارا شاعرکیا اس عہد کا شہرآشوب لکھ رہا ہے؟ ادیب کا قلم‘ کیا زخمِ جاں کے لہو سے تر ہے؟
یہ سوال علم و ادب کی مجالس میں اسی وقت اٹھتا ہے جب اس کا جواب نفی میں ہو۔ ادب جب خود اس سوال کا جواب بن جائے تو ایسے سوالات بے معنی ہو جا تے ہیں۔ 1940ء کی دہائی میں جو ادب سامنے آیا اور جس کا تسلسل ہمیں 1960ء کی دہائی تک ملتا ہے‘ اس کا بڑا حصہ ان المیوں کی بنیاد پر تخلیق ہوا جن سے اس خطے اور اس کے مکینوں کا سامنا رہا۔ ابتدا میں نئی سرحدوں کا وجود میں آنا حوالہ بنا لیکن ادیب کی بات سرحدوں سے بے نیاز ہو کر سنی گئی۔ اس کا ایک سبب شاید ترقی پسند ادب کی تحریک تھی جو نظریاتی تقسیم پر تو یقین رکھتی تھی مگر جغرافیائی سرحدوں پر نہیں۔ منٹو اور قرۃ العین۔ ن م راشد اور فیض‘ ان کو ماورائے سرحد پڑھا گیا۔
جغرافیہ جب قومی تشخص کا حوالہ بنا تو ادیب نے بھی نئی سرحد وں کے اندر رہ کر سوچنا شروع کیا۔ 'پاکستانی ادب‘ کی تحریک اٹھی اور اس نے نظریے اور مسائل کو ایک سرحد کے دائرے میں سمجھنا اور بیان کر نا شروع کیا۔ اس نے 'ہمارے مسائل‘ کی تفہیمِ نو کی اور اس سے مراد پاکستانی مسائل ٹھہرے۔ یہ فطری تھا‘ اگرچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ قائم ہے کہ ادب اور شاعری کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ بات درست ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ادب کی سرحد ہو نہ ہو‘ ادیب اور شاعر کی ایک سرحد ہوتی ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک دائرے میں رہ کر سوچے۔ یہ دائرہ اس کی شناخت ہے اور اس کی بقا کا لازمہ بھی۔
اس پس منظر میں جب شہرآشوب کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد پاکستان کی کہانی ہے۔ کیا ہمارا ادیب پاکستان پر گزرنے والے صدموں کا ادراک رکھتا ہے؟ کیا اسے احساس ہے کہ آج اس کی سرحدوں کے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ اگر ادیب اور شاعر ان سوالات کے جواب دے رہا ہوتا تویہ سوال بے معنی تھے۔ مجھ پر ان سوالات کی معنویت ثابت ہے۔ گویا میرے نزدیک ادب اپنے عہد کے مسائل سے لاتعلق ہے۔
یہ کسی مستند ناقد کا فرمان نہیں‘ ایک عام قاری کی رائے ہے‘ جو شخصی ہے۔ شخصی رائے مطالعے کی کمی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور کوئی چاہے تو اسے غیرمعتبر قرار دے سکتا ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ شہر آشوب بیان کرنے کی ذمہ داری‘ اب ایک عرصے سے الیکٹرانک میڈیا کو سونپ دی گئی ہے یا اس نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ لے لی ہے۔ اب ایک ٹی وی شوکا میزبان دانش کی علامت ہے‘ ریاست کی نظر میں اور سماج کی نگاہ میں بھی۔ وزارتِ اطلاعات جب دانشوروں کی فہرست بناتی ہے تو ایک ٹی وی چینل سے شروع کرتی اور ایک دوسرے چینل پر ختم کر دیتی ہے۔ سماج کی سطح پر کسی تقریب میں جب دانشور کو بلانے کی ضرورت پڑتی ہے تو لوگ ٹی وی سکرین سے ناموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ٹی وی اینکر شہر آشوب بیان تو کرتا ہے مگر اس کا تعریف 'کرنٹ افیئرز‘ سے ماخوذ ہے جن کی زندگی 24گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
کیا یہ شاعر اور ادیب کی نا اہلی ہے کہ اس نے اپنے گھر کو خالی کر دیا جہاں ایک 'دیو‘ نے آ بسیرا کیا یا یہ تاریخ کا جبر ہے؟ اس سوال کا جواب اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں۔ میں صرف امرِ واقعہ کو بیان کر رہا ہوں۔ میں خود کو صرف اسی سوال تک محدود رکھنا چاہتا ہوں جو کالم کی ابتدا میں اٹھایا گیا۔ کالم میں ایک مسئلہ اپنے عموم کی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ استثنا نہیں پایا جاتا۔ اس موضوع کی طرف مجھے ایسے ہی ایک استثنا نے متوجہ کیا۔ یہ جناب جلیل عالی کی ایک نظم ہے جو 9مئی کے حادثے پر لکھی گئی۔
9مئی کو پیش آنے والے واقعات نے قومی وجود پر ابھرنے والی ان لہروں کو نمایاں کیا ہے جو پے در پے آنے والے زلزلوں کی طرح‘ اس زمین پر اَنمٹ نفوش چھوڑ گئی ہیں۔ اس بار تو ان لہروں نے فی الواقع سونامی کا روپ دھار لیا۔ وہ سونامی جس کی 'بشارت‘ برسوں سے دی جا رہی تھی۔ ادیب پر لازم تھا کہ اس حادثے کو موضوع بناتا۔ شاعر اس کا مرثیہ لکھتا۔ یہ حادثہ مگر اس طرح ادیب کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا جس قدر اس کی سنگینی تقاضا کرتی تھی۔
جلیل عالی کے لیے لیکن ممکن نہیں تھا کہ اس کو نظر انداز کرتے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کی نظم اور غزل دونوں اس حادثے کے اثر میں ہیں۔ موجود شاعروں میں مجھے افتخار عارف‘ جلیل عالی اور اظہار الحق زیادہ پسند ہیں۔ اظہار صاحب کا نیا شعری مجموعہ 'اے آسماں نیچے اُتر‘ میرے سر ہانے رکھا ہے۔ ایک من پسند مشروب کی طرح میں ہر رات اس کے چند گھونٹ پی لیتا ہوں اور اس کوشش میں ہوں کہ یہ ختم نہ ہونے پائے۔ دعا یہ بھی ہے کہ جب ختم ہو تو اس وقت تک اظہار صاحب کا فن کا کوئی نیا معجزہ سامنے آ چکا ہو۔ یہ حضرات مجھے صرف اس لیے نہیں پسند کہ ان کا شعر‘ فنی محاسن کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ خوبی تو اپنی جگہ کہ ہر کوئی اس کا معترف ہے‘ مجھے اس لیے زیادہ اچھے لگتے ہیں کہ ان کا فن میرے اجتماعی وجود سے کبھی الگ نہیں ہوتا۔ اس کے دکھوں کو محسوس کرتا ہے۔
9مئی کے حادثے کو جناب جلیل عالی نے منظوم کیا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ تمہید میں نے یہ نظم سنانے کے لیے باندھی ہے۔ یہ ایک بے ساختہ اظہار ہے۔ ایسا اظہار جو دل اور قلم کے درمیان فاصلوں کا قائل نہیں۔ یہ نظم دیکھیے:
''بہت رویا!/ بہت رویا!!/ یہ دل روتا رہا برسوں تلک/ ڈھاکہ کے گرنے پر/ مگر اب کے تو/ فرطِ غیظ میں پاگل/ کسی کے ورغلائے/ اپنے ہی بچوں کے ہاتھوں سے/ گرا ڈالے گئے/ سارے نشاں اپنی وفاؤں کے/ جلا ڈالے گئے/ سب بادباں روشن اناؤں کے/ بجھا ڈالے گئے تارے/ سبھی شُبھ کہکشاؤں کے/ میں اس ہونی کے انگاروں پہ استادہ/ خلاؤں کے اُدھر/ کس لازماں میں گھورتا جاتا ہوں/ باہر ہی نہیں/ اندر سے بھی بدصورتا جاتا ہوں/ اک گمبھیر سکتے میں ہوں/ اپنے آپ میں واپس نہیں آتا/ مجھے مارو/ خبر دارو! مجھے مارو/ زیاں کارو! مجھے مارو/ مرے پیارو! مجھے مارو/ مجھے رونا نہیں آتا‘‘
جلیل عالی کی ایک تازہ غزل کے دو شعر دیکھیے:
اپنے سالار سے کتنا بھی ہوں نالاں لیکن
تیر دشمن کی کماں کا تو نہیں بن سکتا
جس نے پالا ہے مجھے‘ چھوڑ کر اس دھرتی کو
میں کسی اور جہاں کا تو نہیں بن سکتا
اور یہ شعر؛
ساماں بہم ہے کیسی تباہی کا شہر میں
سوچیں ذرا تو سانس اکھڑتا ہے خوف سے
یہ ہے وہ شہر آشوب جو نہیں لکھا جا رہا۔ اور اگر کہیں لکھا بھی جا رہا ہے تو اس طرح نہیں کہ اس کی بازگشت گلی بازار میں سنائی دے۔ ادیب اور شاعر کو اپنی قومی ذمہ داری ادا کر نی ہے۔ میڈیا ان کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں چلے جائیں تو عقابوں کو ضرور سوچنا چاہیے۔