"KNC" (space) message & send to 7575

سیاسی عصبیت اور عدالتی فیصلے

سیاسی عصبیت کو عدالتی فیصلے ختم نہیں کر سکتے۔ علمِ سیاسیات یہی کہتا ہے مگر اس باب میں ہم ناخواندہ ہیں۔ مطلق اَن پڑھ۔
اگرتلہ سازش مقدمے میں شیخ مجیب الرحمن کو مجرم کہا گیا۔ ان کے حامیوں نے مان کر نہیں دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل ٹھہرایا اور پھانسی چڑھا دیا گیا۔ جو اُن کی عصبیت میں مبتلا تھے‘ انہوں نے تسلیم نہیں کیا۔ ان کی نظر میں وہ بے گناہ ہی رہے۔ وہ تو وہ‘ اب تو خود عدالتِ عظمیٰ نے اس مقدمے کو بحال کر دیا ہے۔ نہیں معلوم‘ عدالتوں کے کتنے فیصلے مشکوک ہوں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ کتنے بے گناہ ان فیصلوں کی روشنی میں زندگی سے گئے۔ مقدمہ مگر دوبارہ کھلا تو صرف بھٹو صاحب کا۔ کیوں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: سیاسی عصبیت۔ آج تو وہ بھی عدالتی فیصلے کو غلط کہہ رہے ہیں جو کل اس کی تائید کر رہے تھے۔ وقت کا جبر یہی ہوتا ہے۔
عصبیت ایک سیاسی عمل ہے۔ اس کے ساتھ 'اچھی‘ یا 'بری‘ کا سابقہ بے معنی ہے۔ یہ کسی فرد یا گروہ کے حق میں پیدا ہو سکتی ہے۔ سیاست اس کے اعتراف کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ ہم اگر چاہیں کہ کسی عدالتی فیصلے یا ریاستی اقدام سے اس عصبیت کو ختم کر دیں تو یہ علمِ سیاسیات سے لاعلمی کی دلیل ہو گی۔ یہ ''لاعلمی‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ بطور مضمون ہمارے ریاستی نصاب کا حصہ بن گئی ہے۔
جمہوریت عوامی فیصلے کے احترام کا نام ہے۔ یہ فیصلہ لازم نہیں کہ درست ہو۔ یہ تباہ کن بھی ہو سکتا ہے جیسے 1970ء میں ہوا۔ جب عوامی رائے جغرافیے کی بنیاد پر منقسم ہوئی تو ملک بھی تقسیم ہو گیا۔ عوام کے جذبات سے کھیلنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ اب تو یہ ایک سائنس بن چکا۔ عوام کی نظربندی ہی نہیں‘ عقل بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ 'پوسٹ ٹرتھ‘ تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جسے سچ باور کرایا جا رہا ہے‘یہ لازم نہیں کہ وہ سچ ہو۔ اس کے باوصف اگر جمہوریت ہے تو پھر ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر‘ عوام کے فیصلے کو تسلیم کر نا ہو گا۔ جمہوریت کا اس کے علاہ کوئی مفہوم نہیں ہو سکتا۔
اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ چند افراد یا کوئی ایک ادارہ عوام کی نسبت بہتر فیصلہ کر سکتا ہے یا یہ اُس کا استحقاق ہے کہ وہ ملک کی سیاسی قیادت کا فیصلہ کرے تواس کی بصیرت کے اعتراف کے باوجود‘ یہ جمہوریت نہیں ہو گی۔ جمہوریت میں عالم اور عامی کی رائے کا ایک وزن ہے۔ پھر یہ کہ پاکستان میں ہم یہ نظام بھی دیکھ چکے جب فیصلے کا حق مخصوص گروہ اور ادارے کو دے دیا گیا۔ ہم تجربہ کر چکے کہ اس سے بھی کوئی بہتر نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ غیرجمہوری تجربات کے نتیجے میں جو متبادل قیادت ملک کو ملی‘ وہ عوامی قیادت سے بدتر ثابت ہوئی۔
کسی سیاسی عصبیت کو ختم کر نے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ حالات کسی ایسی ڈرامائی تبدیلی سے گزریں کہ کسی گروہ یا فرد کو میسر عصبیت ختم ہو جائے۔ کوئی انکشاف یا واقعہ عوام کی سوچ کو تبدیل کر دے۔ دوسری صورت یہ کہ سیاست میں کوئی متبادل قیادت اُبھرے جو پہلے سے موجود عصبیت پر غالب آ جائے۔ اس کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس کی اخلاق اور قانون اجازت دیتے ہوں۔ مثال کے طور پر آگہی کی کوئی ایسی مؤثر مہم جو سوچ کو بدل ڈالے۔ اگر ایسی مہم سے عصبیت پیدا کی جا سکتی تو ختم بھی کی جا سکتی ہے۔ کوئی تیسری صورت میرے علم میں نہیں۔
بند کمروں کی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں‘ وہ کیسی ہی شفاف کیوں نہ ہو‘ عوامی سوچ نہیں بدل سکتی۔ عوام کو قائل کر نے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ جبر عوامی ہمدردی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر ریاست کے خیال میں‘ عوام میں مقبول کسی سیاستدان کا حکمران بننا‘ ملک و قوم کے لیے مضر ہے تو ریاست کو چاہیے کہ عوام کے سامنے اس کے ثبوت رکھے۔ اگر یہ ثبوت کوئی قانونی وزن رکھتے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر یہ ثبوت ایسے ہوں کہ عقلِ عام کے لیے ان سے انکار ممکن نہ رہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو محض تاثر سے عوام کو قائل کرنا مشکل ہو گا۔ تاریخ یہ ہے کہ مقبول سیاسی راہ نماؤں کے خلاف ریاست کی کوئی مہم کامیاب نہیں رہی۔
پاکستان کی تاریخ میں جب غیرسیاسی قوتوں نے سیاسی فیصلے کیے تو انہوں نے علمِ سیاست سے عدم واقفیت کا مظاہرہ کیا۔ ضیاء الحق صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ بطور آمر حکومت کریں اور جمہوریت کے چکر میں نہ پڑیں۔ آمریت کو کوئی سندِ جواز نہیں دے سکتا مگر یہ ایک طرزِ حکمرانی ہے جو دنیا میں موجود رہا ہے۔ آمر اگر عوام کی خوشحالی کا سامان پیدا کر دے اور ان کے زندگی کو آسان بنا دے تو وقتی طور پر ایک مستحکم حکومت قائم ہو سکتی ہے۔
ضیاء الحق صاحب غالباً اپنی اخلاقی کمزوری کا ادراک رکھتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ آمریت کوئی جائز طرزِ حکمرانی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے اس میں جمہوریت کا پیوند لگانے کی کوشش کی۔ انتخابات کرائے مگر غیر جمہوری۔ دوسری طرف سیاسی عمل کو‘ سیاسی جماعتوں کے بغیر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ سیاسی جماعتوں کے خلا کو انہوں نے مذہبی اور لسانی گروہوں سے پُر کرنا چاہا۔ آمریت میں جمہوریت کا پیوند‘ سیاسیات سے بے خبری کا مظاہرہ تھا۔ انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ سیاسی جماعتوں کے بغیر سیاسی عمل مضحکہ خیز ہے۔ پھر یہ کہ اگر سیاسی عصبیت کو لسانی یا مسلکی عصبیت سے بدل دیا جائے گا تو مختلف زبانیں بولنے والوں اور مسالک کے پیروکاروں کو متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
سیاسی افکار خلا میں وجود نہیں آتے۔ یہ انسان کے اجتماعی تجربات کا حاصل ہیں۔ ابنِ خلدون نے اپنے مقدمے میں عصبیت کا جو تصور دیا‘ وہ انہی تجربات کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ریاست عصبیت ہی سے مستحکم ہوتی ہے۔ محض طاقت اور جبر سے کوئی سیاسی نظم قائم نہیں رہ سکتا‘ اگر عوام اسے دل سے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوں۔ جمہوریت دراصل اسی سیاسی تصور کا جدید ظہور ہے۔ جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کو عوام کا اعتماد حاصل ہو۔
پاکستان مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہماری ریاست کو نئے تجربات کرنے کے بجائے‘ ان تجربات کا مطالعہ کرنا ہو گا جو ماضی میں کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالعہ عبرت کے لیے ہونا چاہیے۔ مقصد ماضی کی غلطیوں سے گریز ہو۔ اقتدار کی سیاست کے اپنے مسائل ہیں مگر سب فریقوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں ان کا مفاد ریاست کے مفاد سے متصادم ہے اور کہاں انہوں نے اپنے قدم روک لینے ہیں۔ 1970ء میں ایک مقام آیا تھا جب ریاست اور اقتدار کی سیاست کے تین کرداروں‘ یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے مفادات متصادم ہو گئے تھے۔ افسوس کہ تینوں میں سے کسی کے قدم پیچھے نہیں ہٹے۔
ان سابقہ تجربات کے نتائج تو ہمارے سامنے ہیں۔ ریاست اگر ماضی کی کسی غلطی کی تلافی کرنا چاہتی ہے تو یہ کسی دوسری سابقہ غلطی کو دہرا کر نہیں ہو سکتا۔ شیخ مجیب الرحمن کو جب سیاسی عصبیت حاصل ہو گئی تھی تو اس کے بعد اس کے ساتھ سیاسی طریقے ہی سے معاملہ کیا جا سکتا تھا۔ آج ریاست کو اپنی غلطی کی تلافی ضرور کرنی چاہیے مگر سیاسی طریقے سے۔ سیاسی طریقے‘ سیاسیات اور سماجیات کا علم ہی سکھا سکتا ہے۔ جیسے ابنِ خلدون نے ہمیں ایک بات سکھائی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں