انتخابات حسبِ توقع سیاسی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی پارلیمانی جمہوریت ہی کو تبدیلی کا واحد راستہ سمجھا جائے؟
جمہوریت روح ہے جسے ایک جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اتفاق جمہوریت پر ہونا چاہیے‘ اس کی صورت پر بات ہو سکتی ہے۔ پیرہن ایک اضافی بات ہے اگر جسم ڈھانپنے پر اتفاق ہو۔ یہ شلوار قمیص ہو سکتے ہیں اور کوٹ پتلون بھی۔ جمہوریت میں یہ طے ہے کہ اقتدار کی مسند پر وہی بیٹھے گا جسے عوام قیام کا اِذن دیں گے۔ بیٹھنے والا صدر ہو سکتا ہے‘ وزیراعظم کہلوا سکتا ہے یا اسے کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ شرط بس اتنی ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کا نمائندہ ہو۔ جب عوام کی رائے محترم ہے تو پھر مثالی جمہوریت میں حزبِ اختلاف بھی قابلِ احترام ہے کیونکہ عوام نے اسے بھی ووٹ دیا ہے۔ اکثریت کی حکمرانی کا یہ مطلب نہیں کہ اقلیت کے مفادات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ حکومت اس کے حقوق کی بھی ضامن ہوتی ہے۔
جہاں یہ روایت مستحکم ہو‘ وہاں نظام کی صورت اہم نہیں رہتی۔ وہ صدارتی ہو تو بھی عوام کا نمائندہ ہوتا ہے جیسے امریکہ۔ پارلیمانی ہو تو بھی عوام کی نمائندگی کرتا ہے جیسے برطانیہ۔ اسی طرح یہ متناسب نمائندگی کا نظام ہو سکتا ہے جیسے جرمنی۔ اس لیے اصل بات لباس نہیں‘ اس اصول سے وابستگی ہے کہ جسم کا ڈھانپنا لازم ہے۔ جمہوریت یہی ہے کہ عوام کی رائے معتبر ہے‘ قطع نظر اس کی ہیئت کے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہم جمہوریت سے وابستگی کا کوئی حقیقی ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ اس لیے یہاں جو صورت بھی اپنائی جائے گی‘ مسائل ساتھ رہیں گے۔
موجودہ نظام کو ثمر بار بنانے کیلئے ہمیں سماج کو جمہوری بنانا ہو گا۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کا جمہوری ہونا سب سے اہم ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا ہم پارلیمانی جمہوریت کے علاوہ بھی کوئی راستہ اختیار کر سکتے ہیں؟ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن اگر اکثریت اتفاق کر لے تو پارلیمان آئین میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب اس پر کھلا مکالمہ ہونا چاہیے۔
ایک صورت متناسب نمائندگی (Proportional Representation) ہے۔ پاکستان کیلئے میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہتر متبادل ہو سکتا ہے۔ متناسب نمائندگی کیا ہے؟ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ووٹ افرادکے بجائے جماعتوں کو دیے جائیں۔ لوگ (ن) لیگ‘ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی یا جو جماعت انہیں پسند ہو‘ اسے ووٹ دیں۔ یہ ووٹ شمار کیے جائیں۔ جسے جس نسبت سے ووٹ ملیں‘ اسے اسی نسبت سے پارلیمان کی سیٹیں دی جائیں۔ اس کے لیے ایک کم از کم تعداد بھی طے ہو سکتی ہے۔ جیسے پانچ فیصد ووٹوں پر ہی پارلیمان کی رکنیت مل سکے گی۔ اسی طرح حکومت سازی کیلئے بھی کم از کم تعداد متعین ہو سکتی ہے۔اس کے دو فائدے تو ظاہر و باہر ہیں۔ ایک یہ کہ لیڈر افراد کے بجائے سیاسی جماعتوں کی تنظیم پر توجہ دیں گے۔ عام آدمی بھی جماعت سے وابستہ ہو گا۔ پھر جماعتیں اپنے منشور پر محنت کریں گی اور عوام کو افراد کے بجائے کسی نظریے یا پروگرام کی طرف بلایا جائے گا۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ الیکٹ ایبلز سے جان چھوٹ جائے گی۔ وہ سیاسی جماعتوں کو بلیک میل نہیں کر پائیں گے اور جماعتیں باکردار اور باصلاحیت افراد کو پارلیمان کے لیے منتخب کر سکیں گی۔ ہمارے ہاں اگر جمہوریت نتیجہ خیز نہیں تو اس کے دو بڑے اسباب یہی ہیں: کمزور سیاسی جماعتیں اور الیکٹ ایبلز۔
ایک محترم قاری نے سوشل میڈیا کی افادیت پر توجہ دلائی کہ تحریکِ انصاف نے اس کو انتخابی مہم کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کیا جس سے الیکشن کے اخراجات میں کروڑوں روپے کی کمی آئی۔ یہ اہم بات ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ (ن) لیگ نے اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ یہ سرا سر فضول خرچی تھی۔ اس سے کہیں کم وسائل سے کہیں زیادہ مؤثر مہم چلائی جا سکتی تھی۔ جب سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے ساتھ میدان میں ہوں گی تو اس سے انتخابی اخراجات بھی بہت کم ہو جائیں گے اور باصلاحیت افراد کے لیے آگے آنے کے امکانات بڑھ جا ئیں گے جو وسائل کی کمی کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دور میں متناسب نمائندگی کی حامی تھی۔ جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعتوں کے لیے‘ جن کے امیدواروں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اس میدان میں دوسری جماعتوں کا مقابلہ کر سکیں‘ متناسب نمائندگی ہی موزوں ہے۔ تحریکِ انصاف کو بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے جو ایک فردکے گرد جمع ہونے والا گروہ ہے۔ روایتی طور پر پارلیمانی نظام پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ جیسی جماعتوں کے لیے پسندیدہ ہو سکتا ہے جن کا انحصار الیکٹ ایبلز پر رہا ہے۔ اگر یہ نظام آ جائے تو یہ جماعتیں بھی اپنے انداز بدلنے پر مجبور ہوں گی۔
پارلیمانی نظام پاکستان کو سیاسی استحکام دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ ہمارے ہاں ہر انتخابات کا نتیجہ عدم استحکام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ انتخابات کی شفافیت بھی استحکام کی ضمانت نہیں۔ ایسا ہوتا تو 1970ء کے انتخابات کا نتیجہ استحکام ہوتا جنہیں ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات مانا گیا ہے۔ پھر یہ کہ پارلیمانی نظام میں بعض اوقات کم ووٹوں کے ساتھ ایک جماعت زیادہ نشستیں لے جاتی ہے۔ یوں اکثریت اقتدار سے محروم رہ جاتی ہے۔ متناسب نمائندگی میں اس کا مداوا ہو جائے گا جب نشستوں کا تعین ووٹرز کی تعداد کی نسبت سے ہو گا۔پارلیمانی نظام میں اکثر جیتنے اور ہارنے والوں میں چند سو یا چند ہزار ووٹوں کا فرق ہوتا ہے۔ ایک لاکھ دس ہزار ووٹ لینے والا جیت جاتا ہے اور ایک لاکھ پانچ ہزار والا ہار جاتا ہے۔ کیا اتنی بڑی تعداد کو نمائندگی سے محروم رکھنا جمہوریت ہے؟ متناسب نمائندگی میں سب کے ووٹ شمار ہوں گے۔ ان کے ووٹ ان کی جماعت کے کھاتے میں جائیں گے اور یوں ان کے ووٹ ضائع نہیں ہوں گے۔ وفاق کی مضبوطی کیلئے یہ قانون بھی بنایا جا سکتا ہے کہ حکومت سازی کے لیے ہر صوبے سے ایک خاص تناسب میں ووٹ لینا ضروری ہیں۔ اس سے نظام چھوٹی چھوٹی علاقائی جماعتوں کا یرغمال نہیں بنے گا۔ اس کے ساتھ بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا لازم ہے۔ اس سے مقامی مسائل کے حل کیلئے اقتدار نچلی سطح کو منتقل ہو جائے گا اور قومی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہو جائیں گی۔
پاکستان میں سیاسی استحکام کیلئے اب متبادل راستوں کو تلاش کرنا ہو گا۔ متناسب نمائندگی کے اصول کو حسبِ حال بنایا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں پر کچھ ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں بہتر لوگ اسمبلیوں تک پہنچیں۔ جمہوری اصولوں پر کاربند جماعتوں کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں رضا کارانہ طور پر اس پر آمادہ نہیں۔ موروثی سیاست کا راستہ بھی جمہوری روایات کی پاس داری ہی سے روکا جا سکتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں بھی اگرچہ عوام کا ووٹ ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود موروثیت کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اسی طرح اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی بھی ضروری ہے جو بلدیاتی اداروں کے قیام سے ممکن ہے۔
2024ء کے انتخابی نتائج دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پارلیمانی نظام کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ابھی تک میڈیا میں یہ سوال بہت کم زیرِ بحث آیا ہے کہ موجودہ نظام کیوں نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ صرف انتخابات کی شفافیت زیرِ بحث رہی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس نظام کی تعمیر ہی میں خرابی کی صورت مضمر ہے۔ اس کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ اس پر بحث ہو اور متناسب نمائندگی جیسے متبادل زیرِ غور آئیں۔