سیاسی عمل کا تسلسل‘ سیاست کی تفہیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے‘ کم لوگ ہی اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ عوام کی اس سادہ لوحی سے اہلِ سیاست کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان کا استحصال کریں۔ لوگوں کو سسٹم کے خلاف بغاوت پر اُبھاریں اور خود نظام کی عطا کردہ سہولتوں سے اپنے لیے تو آسانیاں سمیٹیں۔ عوام کو یہ تاثر دیں کہ وہ ان کے غم میں دبلا ہو رہے ہیں۔
کم لوگ ہیں جو سسٹم کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ انتخابی عمل اس سسٹم کا حصہ ہے۔ سیاسی جماعتیں جب اس میں حصہ لیتی ہیں تو وہ دراصل اس سسٹم کو زبانِ حال سے ماننے کا اقرار کرتی ہیں۔ انتخابی نتائج کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں‘ مگر اس کے باوصف اسمبلیوں کی رکنیت قبول کرتی ہیں۔ جہاں موقع ملتا ہے اقتدار میں بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ پرویز مشرف صاحب کی رخصتی کے بعد یہ عمل اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ 2013ء میں سب شریکِ اقتدار ہوئے۔ 2018ء میں جنہیں شراکتِ اقتدار کا موقع نہ ملا وہ اسمبلیوں میں رہ کر سسٹم کا حصہ رہے۔ اس نظام سے جڑی مراعات سے استفادہ کرتے رہے۔ مثال کے طور پہ قائدِحزب اختلاف کو یہ سسٹم وفاقی وزیر کا درجہ دیتا ہے اور اسے وہ سب سہولتیں میسر ہوتی ہیں جو ایک وزیر کو حاصل ہوتی ہیں۔
یہی نہیں‘ یہ لوگ گرفتار ہوتے ہیں تو ان کے لیے جیل بھی جائے قرار بن جاتے ہیں۔ حکومت ذاتی انتقام پر نہ اُترے تو قانون یا سسٹم ان کے لیے جیل کی زندگی کو آسان بناتا ہے۔ عمران خان صاحب‘ آج جیل میں کس حال میں ہیں‘ سب کو معلوم ہے۔ جیل ظاہر ہے کہ آزاد زندگی کا متبادل نہیں اور نہ ہی یہاں یہ کہنا مقصود ہے۔ یہاں صرف یہ بات واضح کرنی ہے کہ سسٹم کیا ہوتا ہے اور وہ کس طرح اس طبقے کے مفادات کی آب یاری کرتا ہے۔
اس ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں قومی وسائل اور اقتدار کے مراکز پر دسترس رکھتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وسائل اب پی ٹی آئی کے دستِ قدرت میں ہیں‘ اگرچہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ سسٹم کے ظلم کا شکار ہیں۔ یہی معاملہ دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ اس کے ساتھ یہ دیکھیے کہ عدلیہ پر شکایات کے باوجود سب اس سے رجوع کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت کم ہوا ہے کہ کسی نے عدالت کا بائیکاٹ کیا ہو۔ سب بادلِ نخواستہ ہی سہی‘ عدالتی فیصلوں کو مانتے ہیں اور انہیں کہیں نہ کہیں اپنی مرضی کا انصاف بھی مل جاتا ہے۔
اس سسٹم کو ماننے والے جب خود کو اس کا باغی بنا کر پیش کرتے ہیں تو دراصل عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ وہ اس میں اصلاح کی بات کر سکتے ہیں۔ کہیں کمی ہے تو اسے دور کر سکتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔ عوام کو تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم تو اس نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اور سادہ لوح عوام اس کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ بات اس نظام کا حصہ ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔ سسٹم کی قوت دیکھیے کہ وہ اس کا موقع بھی دیتا ہے۔ یہ الگ بات کہ عملاً بغاوت نہیں کرنے دیتا۔
سسٹم سے بغاوت وہ لوگ کرتے ہیں جو انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ انقلاب نام ہے موجود نظام سے انکار کا۔ اس لیے انقلابی جدوجہد سسٹم کا حصہ بن کر نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے نظام سے باہر رہ کربات کی جاتی ہے۔ انقلابی عدالتوں اور قانون کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور نہ ہی خود کو عدالتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وہ نظام سے کسی انصاف کے طالب نہیں ہوتے‘ کیونکہ ان کا نقطہ نظر بھی یہی ہوتا ہے کہ نظام انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ انتخابی عمل کا حصہ بن کر آپ دراصل سسٹم کو قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
میں یہ بات بارہا دہرا چکا کہ جمہوریت کے بعد انقلاب کے تمام امکانات ختم ہو گئے۔ اس بحث کو پاکستان تک محدود رکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت انقلابی نہیں۔ اس معیار پر اگر کوئی پورا اُترتا ہے تو وہ تحریکِ طالبان پاکستان ہے۔ وہ برملا آئینِ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے تحت قائم ہونے والے اداروں کو۔ تاریخ میں جھانکیں تو اشتراکی تحریکیں انقلابی تھیں۔ چی گویرا ہوں‘ یاسر عرفات ہوں یا فیدل کاسترو‘ یہ سب انقلابی تھے۔ انہوں نے مسلح جدوجہد کی‘ جو انقلابی تحریکوں کا امتیاز ہے۔ ہم ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ صحیح معنوں میں انقلابی تھے۔
سسٹم میں ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کم ازکم سانس لینے کی اجازت ضرور دیتا ہے۔ اس سے دم نہیں گھٹتا۔ یہی خصوصیت انقلاب کا دروازہ بند کرتی ہے۔ اچھا سسٹم شخصی آزادی کا دائرہ بڑھاتا چلا جاتا ہے جس سے انقلاب کے امکانات معدوم سے معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ 2024ء کے انتخابات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ صحیح یا غلط سے قطع نظر‘ اگر آپ اپنی بات کا ابلاغ کر سکتے اور عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ووٹ سے حسبِ منشا نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے انقلابی بننے کی کوشش کی تو اسے شدید تنظیمی اور سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی رہ کر جدوجہد کی اور سسٹم کو تسلیم کیا تو ایک صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی میں بھی دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ اگر وہ 9 مئی کے طرزِ عمل پر اصرار کرتی تو اس کی مشکلات بڑھ جاتیں۔
سیاست کا یہی وہ نکتہ ہے‘ جو اب عوام کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ عوام کو اپنی سطح پر سسٹم سے ہم آہنگ ہونا ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر احتجاج کرنا ہے تو سسٹم کی طے کردہ حدود میں ہی کرنا ہو گا۔ اگر آزادیٔ رائے کا حق استعمال کرنا ہے تو سسٹم کو سامنے رکھتے ہوئے۔ غلامی کی زنجیر کو توڑنے کا خیال ایک رومانوی تصور ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مطلق آزادی دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔ انسان مذہبی‘ اخلاقی‘ سماجی اور قانونی ضوابط کا پابند رہ کر ہی جیتا ہے۔ اسی طرح ایک سسٹم بین الاقوامی سطح پر بھی قائم ہے جس کو سب مانتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی عوام کو آگاہ رہنا چاہیے۔ جب ہم امریکی غلامی سے آزادی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم بین الاقوامی نظام کا حصہ ہیں۔ ہم نے عالمی مالیاتی اداروں سے معاملہ کرنا ہے۔ ان اداروں پر امریکی تسلط امرِ واقعہ ہے۔ اس کے اعتراف کے بعد ہی ان سے بات ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت یہ بات جانتی ہے اور ہر سیاستدان بھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انتخابات میں دھاندلی کی شکایت بھی امریکہ سے کرتے ہیں۔ یہ شکایت بتا رہی ہے کہ آپ اس عالمی نظام کو تسلیم کر رہے ہیں جو اس وقت بین الاقوامی سطح پر نافذ ہے۔ آپ اس سے شکایت تو کر سکتے ہیں‘ بغاوت نہیں۔
عوام اگر سسٹم سے واقف ہوں گے تو ان کا استحصال مشکل ہو جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ میڈیا سمیت دیگر ابلاغی ادارے اس باب میں عوام کی راہنمائی کریں تاکہ اہلِ سیاست ان کا استحصال نہ کر سکیں۔ اسی کا نام سیاسی شعور ہے۔ سیاسی شعور کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ شخصیت پرستی کے حصار سے آزاد کرتا ہے۔