سیاسی تبدیلی کیا ہے؟ ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو نقلِ اقتدار۔ ایک جماعت کی جگہ دوسری جماعت کی حکومت کا قیام۔ مارشل لاء کے بجائے آئین کی حکمرانی۔
سماجی تبدیلی کیا ہے؟ ایک سماج کی اعتدال سے انتہا پسندی کی طرف مراجعت۔ نظامِ اقدار کا بدل جانا۔ زرعی معاشرے کا صنعتی بن جانا۔ دیہات سے شہروں کو نقل مکانی۔
یہ دو مختلف عمل ہیں۔ بعض سماجی تبدیلیاں وقت کے جبر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جیسے صنعتی انقلاب‘ جس نے سماج کی ہیئت کو بدل ڈالا۔ ایسی تبدیلیاں کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہوتیں۔ لوگوں کو طوعاً و کرہاً انہیں قبول کرنا ہوتا ہے۔ بعض تبدیلیاں مگر شعوری کوشش کا حاصل ہوتی ہیں۔ جیسے ایک سیاسی جماعت اقتدار تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کرتی ہے۔ یا جیسے مسلم سماج کو انتہا پسند بنانے کے لیے شعوری کوشش کی گئی۔ دین کی ایک نئی تعبیر پیش کی گئی۔ لٹریچر تیار ہوا‘ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ یہاں تک کہ بڑی حد تک سماج کی قلبِ ماہیت ہو گئی۔ جو تبدیلی شعوری کاوش کے نتیجے میں آتی ہے‘ اس کے لیے حکمتِ عملی بھی انسان خود بناتے ہیں۔ جیسے سیاسی جماعت ایک پروگرام ترتیب دیتی ہے کہ اسے کیسے عوام کی رائے کو اپنے حق میں بدلنا ہے۔
سیاسی اور سماجی تبدیلیاں انسانی تاریخ کا مستقل حصہ ہیں۔ اپنی بات کو شعوری کوششوں تک محدود رکھتے ہوئے میں اس حکمتِ عملی کا ذکر کروں گا جو انسان بناتے اور اپناتے ہیں۔ جو لوگ انقلاب کے تصور پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ اپنی حکمتِ عملی کی بنیاد موجود نظام سے بغاوت پر رکھتے ہیں۔ نظام سے بغاوت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی سعی و جہد میں اُس سیاسی یا اخلاقی نظام کے پابند نہیں جو پہلے سے رائج ہے۔ غیرمذہبی انقلابی قوتوں کے ہاں اسی لیے کسی نظام کی پابندی کا تصور نہیں ملتا۔ اس کی سب سے اچھی مثال اشتراکیت ہے۔ اشتراکی انقلابی تحریکیں اپنے مقصد کے لیے قتل سمیت ہر طریقے کو روا رکھتی رہی ہیں۔ لینن اور ماؤ نے تو دو اور دو چار کی طرح لکھ دیا کہ انقلاب خون بہائے بغیر نہیں آ سکتا۔ یہ اصلاً سماجی تحریک تھی جس کی انتہا سیاسی تبدیلی پر ہوتی ہے۔ لبرل ازم بھی سماجی تبدیلی کی ایک ایسی تحریک ہے جو مروجہ سماجی اقدار کے خلاف بغاوت ہے۔
اشتراکی تصورِ انقلاب سے متاثر ہو کر یا اس کے جواب میں بعض مسلم اہلِ علم نے 'اسلامی انقلاب‘ کا تصور پیش کیا۔ اشتراکیوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ کسی ضابطۂ اخلاق کے پابند نہ تھے۔ اگر کوئی پابندی تھی بھی تو وہ اس جماعت کے نظم کی تھی جو اس مقصد کے لیے قائم کی گئی۔ اس کے برخلاف اسلام کے نام پر انقلاب کے لیے اٹھنے والے داعیوں کو یہ آزادی میسر نہیں تھی۔ اسلام ایک الہامی دین کے طور پر پہلے سے موجود تھا جس میں اضافے یا کمی کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ اس لیے اسلامی انقلاب کے نام پر برپا ہونے والی کوئی انقلابی تحریک اسلامی اخلاقیات سے بے پروا نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے تبدیلی کا ایک 'منصوص‘ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بتایا کہ اسلامی انقلاب کی حکمتِ عملی رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے ماخوذ ہے اور اس کے سات مراحل ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے مطابق اسلامی انقلاب کی آخری منزل اشتراکی انقلاب کی طرح سیاسی اقتدار ہی ہے۔
اسی لیے مولانا مودودی نے جب اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی قائم کی تو اس کے دستور میں لکھ دیا کہ کوئی خفیہ یا آئین سے ماورا حکمتِ عملی نہیں اپنائی جائے گی۔ انہوں نے عمر بھر اس بات پر پہرا دیا۔ بعد کے ادوار میں اس مقصد کے لیے نئی تحریکیں اٹھیں۔ انہوں نے اشتراکیوں کی طرح انسانوں کے قتلِ عام کو روا رکھا۔ سرحدوں اور اقوام کے مابین موجود معاہدوں کو ماننے سے انکار کیا۔ تاہم اس کے لیے انہیں بھی مذہبی تاویلات کا سہارا لینا پڑا جنہیں اہلِ علم کی اکثریت نے مسترد کر دیا اور انہیں دین میں تحریف قرار دیا۔
سماجی تبدیلی کے لیے اپنائی گئی حکمتِ عملی سیاسی تبدیلی کے لیے اختیار کیے گئے لائحہ عمل سے مختلف ہوتی ہے۔ سماجی تبدیلی کا ہدف چونکہ انسانی ذہن ہیں‘ اس لیے اس میں ذہن سازی کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا ہدف موجود حکومت کو ہٹانا نہیں ہوتا بلکہ سوچ میں تبدیلی ہوتا ہے جس کا ایک نتیجہ نظمِ سیاسی کا بدل جانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے برخلاف سیاسی تبدیلی کا ہدف مسندِ اقتدار پر موجود گروہ کو ہٹا کر ایک دوسرے گروہ کو اقتدار دلانا ہوتا ہے۔ اس کی حکمتِ عملی‘ ظاہر ہے کہ وہ نہیں ہو سکتی جو سماجی تبدیلی کے لیے متحرک کسی گروہ کی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی تبدیلی کے لیے اقتدار پر براجمان گروہ کے خلاف عوامی سطح پر نفرت اور ناپسندیدگی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے لیے احتجا ج کیا جاتا ہے۔
احتجاج سیاسی تبدیلی کے لیے بعض اوقات سب سے مؤثر ہتھیار ہوتا ہے۔ اس کی اجازت نظام میں ہوتی ہے؛ تاہم یہ احتجاج شترِ بے مہار نہیں ہوتا۔ یہ اس نظام کی بتائی گئی حدود کا پابند ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں سماجی تبدیلی کے بعد سیاسی تبدیلی آئی ہے وہاں عوام کا سیاسی شعور تربیت یافتہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے احتجاج کی حد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں لاکھوں افراد احتجاج کرتے ہیں مگر انسانی زندگی مفلوج ہوتی ہے اور نہ ریاستی و انفرادی املاک کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ وہاں عوام اور ریاست دونوں اپنی اپنی حدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس طرح احتجاج تخریب کا ذریعہ نہیں بنتا۔ جن معاشروں میں کسی شعوری تبدیلی کے بغیر احتجاج ہوتے ہیں وہاں ریاست کا تقدس باقی رہتا ہے اور نہ عام آدمی کی جان و مال کی حرمت کا کسی کو خیال رہتا ہے۔ احتجاج کرنے والے ہر حد کو پھلانگ جاتے ہیں اور جواباً ریاست بھی کسی حد کا خیال نہیں رکھتی۔
جہاں ریاست اور سماج کی باگ باشعور لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہاں سماجی تبدیلی اور سیاسی تبدیلی کے لیے کوشاں گروہ اپنی اپنی حدود سے باخبر ہوتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے علمبردار جانتے ہیں کہ ان کے راستے میں اُس نوعیت کے احتجاج کو کوئی پڑاؤ نہیں ہوتا جس طرح کا احتجاج سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ جو معاشرے شعوری ارتقا کے مراحل سے نہیں گزرے ہوتے وہاں سماجی تبدیلی اور سیاسی تبدیلی کا فرق کم لوگوں کو سمجھ میں آتا ہے۔ اس باب میں نیم خواندہ لوگ سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب سماجی تبدیلی کے حوالے سے احتجاج کی بات ہوتی ہے تو وہ اسے سیاسی تبدیلی سے جوڑ کر خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ میں اسی لیے اس ضرورت پر برسوں سے لکھ رہا ہوں کہ لوگوں کو پہلے سیاسیات اور سماجیات کے مبادیات سے واقف کرایا جائے۔ جسے سماج اور ریاست کا فرق معلوم نہ ہو‘ وہ سماجی اور سیاسی تبدیلی میں فرق کو کیسے جان سکتا ہے؟ اسے پہلے سمجھنا ہو گا کہ وہ سیاسی تبدیلی کا علمبردار ہے یا سماجی تبدیلی کا؟ اس کے بعد ہی اسے احتجاج کا سیاق و سباق سمجھ میں آئے گا۔ ورنہ اسے ہر جگہ تضاد ہی دکھائی دے گا۔
ہمارے ہاں ان مباحث میں بہت خلطِ مبحث ہے۔ یہ سماجی مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں ریاست و سماج کی مبادیات کے بارے میں آگاہی پیدا کریں۔ انہیں اگر دشنام کا سامنا کرنا پڑے تو صبر سے برداشت کریں۔ جب یہ آگاہی پیدا ہو گی تب شعوری تبدیلی آئی گی۔ سیاسی اور سماجی تبدیلی کا فرق واضح ہو گا۔ ورنہ جسے مرشد اور سیاستدان کا فرق معلوم نہیں وہ بھی اس زعم میں مبتلا رہے گا کہ وہ سیاسی شعور سے بہرہ مند ہے۔