وقت کے بہاؤ کی سمت کیا وہی ہے جو ہمیں دکھائی دے رہی ہے؟
تعصبات اور خواہشات وہ حجاب ہیں جو منظر اور آنکھ کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ جو آنکھوں کے سامنے ہے‘ اسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ پھر خواہشیں ہیں جو سراب بن جاتی ہیں اور نگاہیں تمناؤں کا بحرِ بے کراں بہتا دیکھتی ہیں۔ حقیقت ان دونوں کے پیچھے گم ہو جاتی ہے۔ یہ سمجھنے میں بعض اوقات عمر نکل جاتی ہے کہ خواہش کو واقعہ بنانے کے لیے پہلے حقیقت پسند ہونا پڑتا ہے۔ تعصب کے پردے چاک کرنا پڑتے ہیں۔
نوجوانوں سے میں کبھی پُرامید نہیں تھا۔ مستثنیات اپنی جگہ مگر استثنا کو استقرا سے عموم نہیں بنایا جا سکتا۔ جوانی اچانک نمودار ہونے والی شے نہیں ہے۔ یہ بچپن اور لڑکپن ہیں جو اسے غذا دیتے‘ اپنی گود میں کھلاتے اور ایک تن آور درخت بنا دیتے ہیں۔ گھر‘ درس گاہ‘ محلہ‘ سماج‘ ریاست‘ کتنے ادارے ہیں جن کے اثرات جمع ہوتے ہیں تو ایک نوجوان تیار ہوتا ہے۔ نوجوان ان سب کے ہنر کا مشترکہ شاہکار ہے۔ ان اداروں کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ یہ اپنی ناکامی پر خود گواہ ہیں۔ بے ثمری کا حاصل اُمید کا استعارہ کیسے ہو سکتا ہے؟
چند دن پہلے ایک یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات سے مکالمہ ہوا تو ایک بار پھر اس خیال کی تصدیق ہوئی۔ ایک صاحب نے کہا: ''فلسطین میں مسلمان مر رہے ہیں‘ ہم نے یہ ایٹم بم آخر کس دن کے لیے بنایا تھا؟ اگر یہ آ ج نہ چلا تو پھر کب چلے گا؟‘‘ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ ایک صاحب نے جب جمہوریت کے تن پر موجود بچی کھچی چولی بھی اتارنے کی کوشش کی تو شرکا کا جو ش وخروش دیدنی تھا۔ جیسے ہرکوئی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بے چین ہے۔ جہاں سے شعور کے چشمے پھوٹنا تھے‘ وہاں جذبات کے سمندر موجزن ہیں۔ نوجوانوں کے حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے والے ملتے ہیں تو ہوشربا داستانیں سناتے ہیں۔ 'نہ زندگی نہ محبت‘ نہ معرفت نہ نگاہ‘۔ اس ویرانے میں اُمید کا گلاب کیسے کھل سکتا ہے؟
آ نے والے کئی برس‘ اس قوم کی تقدیر اسی نسل نے لکھنی ہے۔ قلم اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ میں بتا سکتا ہوں کہ دیوارِ فردا پہ کیا لکھا ہے۔ جو آج نہیں پڑھ سکتے‘ کل پڑھ لیں گے۔ میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں‘ وہ دہرا نہیں سکتا۔ صرف اپنی تشویش کا اظہار کر سکتا ہوں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو اور قوم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے؟ یہ مشورہ تو ظاہر ہے کہ نہیں دیا جا سکتا۔ وقت کے اس بہاؤ کے سامنے بند باندھنے کی مقدور بھر کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اصل ہدف مگر وہ نسل ہونی چاہیے جو اب بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھ رہی ہے۔ ساری توانائیاں اب اس کی شخصیت سازی پر صرف کر دینی چاہئیں۔ اگر ہم یہ کر پائے تو دس پندرہ برس بعد ممکن ہے کہ ہم ایک نئے پاکستان کی اُمید کو زندہ کر سکیں۔
شخصیت دو عناصر سے بنتی ہے: علم اور اخلاق۔ علم سے ذہنی اُفق روشن ہوتے ہیں اور اخلاق سے رویوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ علم سے انفس و آفاق کے حقائق بے نقاب ہوتے ہیں اور اخلاق سے سماج کی تعمیر ہوتی ہے۔ وہ سماج جس میں امن ہو‘ ایک دوسرے کا احترام ہو‘ لوگ خیر خواہی کی رسی سے بندھے ہوں اور انسانی صلاحیتوں کی نشو ونما کے مواقع فراواں ہوں۔ مذہب خیر کی قوت بن کر نمودار ہو اور سائنس کی کوکھ سے انسان دوست ایجادات جنم لیں۔ مذہب و سائنس باہم متصادم نہ ہوں بلکہ ہم قدم چلتے ہوئے انسان کی اخلاقی پاکیزگی اور ذہنی بالیدگی کا سبب بنیں۔ جذبات اورعقل ہم آہنگ ہوں۔ جذبات مہمیز بنیں اور عقل چراغِ راہ۔
جب عقل چراغِ راہ نہیں بنتی اور جذبات کوقیادت سونپ دی جاتی ہے تو راہ نما بھوکے بھیڑیوں کو ہانک کر بستی میں لے آتے ہیں جو نہتے اور کمزور شہریوں پر پل پڑتے ہیں۔ پھر یہ راہ نما دنیا سے عرض گزار ہوتے ہیں کہ ہمیں ان بھیڑیوں سے بچاؤ۔ بھیڑیے پیٹ بھرنے کے بعد لوٹ جائیں تو یہ راہ نما کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ کیا آج کے فلسطین کی کہانی ایسے راہ نمائوں اور بھیڑیوں کی کہانی نہیں؟ جب کوئی قوم اپنی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دیتی اور عقل کو قید کر دیتی ہے تو وہ دوست اور نادان دوست میں تمیز نہیں کر سکتی۔ ایسی قوم کی تاریخ المیوں سے بھر جاتی ہے اور اس کے دانشور مرثیہ نگاری کو قومی فرض سمجھ لیتے ہیں۔ پھر پاکستان کا نوجوان اپنی ریاست کو مجرم سمجھتا ہے جو ایٹم بم ہونے کے باجود اسے اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کرتی۔
نئی نسل اسی فکری سانچے میں ڈھلی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ ریاست کا بندوبست ایک سادہ عمل ہے۔ اسلام کا نفاذ چند قوانین کے اعلان سے ہو جاتا ہے۔ سود کو بیک جنبشِ قلم ختم کیا جا سکتا ہے۔ کوئی نیک سیرت حکمران آجائے توکرپشن کا خاتمہ دنوں کا معاملہ ہے۔ اس وقت کیا اہلِ سیاست اور کیا اہلِ دانش‘ سب اسی خیال کی آبیاری کر رہے ہیں۔ دانشور انقلاب کی دستک سن اور سنا رہے ہیں۔ کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ انقلاب انسانی تاریخ کا ایک پڑاؤ تھا جو بیسویں صدی میں آیا تھا۔ انسانیت کا قافلہ اس سے کہیں آگے نکل چکا۔
آج اسی سوچ (Mindset) کی حکمرانی ہے۔ نئی نسل اس کو اپنا چکی۔ اگر کوئی آواز نوجوانوں کو اس سے نکال کر علم اور اخلاق کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے تو وہ تالیوں کے شور میں دب جاتی ہے۔ان تالیوں کی گونج روز افزوں ہے۔اس لیے میرا کہنا ہے کہ اس نسل کو تو کچھ سنانا مشکل ہو گیا ہے۔ہم اسے چھوڑ تو نہیں سکتے مگر اس سے کوئی امید بھی وابستہ نہیں کر سکتے۔ المیہ یہ ہے کہ بظاہر جو قوتیں متصادم دکھائی دیتی ہیں ان کی سوچ اور طرزِ عمل میں اب فرق برائے نام رہ گیا ہے۔ آج اختلاف سوچ یا خیال کا نہیں‘ مفادات کا ہے۔ جذبات کا علاج جذبات سے کیا جا رہا ہے۔ علم اور اخلاق کسی کا مسئلہ نہیں۔
علم اور اخلاق کی آواز اب ایک اقلیتی صدا ہے۔ یہ ایک درماندہ راہرو کی صدائے کربناک ہے لیکن یہی آوازِ رحیلِ کارواں ہے۔ قومیں علم اور اخلاق سے تعمیر ہوتی ہیں۔ یہ بات اگر سمجھائی جا سکتی ہے تو اُس نسل کو‘جو جوانی کی دہلیز سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ اگرچہ شخصیت سازی کا کام بچپن میں مکمل ہو جاتا ہے مگر اس نسل کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مگر مشقت اٹھانا پڑے گی۔ تعلیم کے نظام کو نئے خطوط پر استوار کرنا پڑے گا۔ نصاب کے ساتھ تعلیمی اداروں کا ماحول بھی بدلنا پڑے گا۔ غیررسمی تعلیم‘ جو میڈیا اور دوسرے سماجی اداروں کی طرف سے مل رہی ہے‘ اسے بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہنگامی سطح پر کام کرنا ہو گا۔ کوئی حرج نہیں اگر ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کاا علان کر دیا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تعلیم سے مراد سوچ (Mindset) کی تبدیلی ہے۔ سوچ کی تبدیلی صرف کمپیوٹر کے استعمال سے نہیں آتی۔ اس کے لیے ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ ریاست اور سماج کو ان نئی کلیوں کی فکر کرنی چاہیے جنہوں نے ابھی کھلنا اور چمن کو مہکانا ہے۔ نوجوانوں نے جو بننا تھا‘ بن گئے۔ انہوں نے اپنے لیے ایک راہ اختیار کر لی ہے۔ سماج کو اب ا گلی نسل پر نگاہ رکھنا ہوگی۔
یہاں تک لکھ چکا تو ذہن کے پردے پر ایک سوال اُبھرا: میں یہ باتیں کس کو سنا رہا ہوں؟ میرا مخاطب کون ہے؟ میں نے چشمِ تصور سے چاروں طرف دیکھا تو کوئی دکھائی نہیں دیا۔ ہاں‘ تالیوں کی گونج تھی جس میں مجھے اپنی آواز دبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تو کیا یہ خود کلامی تھی؟ یا پھر ایک معذرت جسے کل کسی بڑی عدالت میں ایک عذر کے طور پر پیش کیا جا سکے؟