مولانا فضل الرحمن کے تازہ ارشادات نے ایک درِ حیرت کھول دیا ہے۔ مولانا کی قدرتِ کلام میں کسے کلام ہے مگر اس بار معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فصاحت و بلاغت‘ ابلاغ سے زیادہ ابہام کا باعث بنی ہے۔ حامی پریشان ہیں کہ ان کے ماضی کے ارشادات کے سیاق و سباق میں کلامِ تازہ کی کیا تاویل کریں۔ مخالفین کو یہ اندیشہ ہے کہ شاہین جب زیرِ دام آتا دکھائی دے رہا ہے تو اس کے تضاد کو نمایاں کرکے کہیں اسے پھر سے مشتعل نہ کر دیں اور وہ ایک ہی جنبش میں دام سے نکل جائے۔ اگر مولانا سجدہ ٔسہو کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو وہ اس کی فقہی حیثیت پر فروعی سوالات اٹھا کر اسے مشتبہ کیوں بنائیں؟
میں اپنا شمار مولانا کے مداحوں میں کرتا ہوں لیکن میں بھی مخمصے میں مبتلا ہوں۔ مسئلہ تاویل کا ہو تو میں صاحبانِ علم سے رجوع کرتا ہوں۔ ان میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں۔ میں ان کے کلام سے فال تو نہیں نکالتا‘ اس میں معنی تلاش کرتا ہوں۔ درپیش مخمصے سے نکلنے کے لیے میں نے کلیاتِ اقبال کو کھولا تو ایک غزل میرے سامنے تھی۔ آپ بھی اس غزل کا یہ شعر سنیے:
عقل عیار ہے‘ سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
اقبال کے ہاں عقل ایک وِلن ہے‘ جب وہ عشق کے مدِ مقابل ہو۔ عام حالات میں‘ ورنہ وہ عقل کی اہمیت کو سمجھتے اور اسے بیان بھی کرتے ہیں۔ عقل کے وہ ایسے قائل ہیں کہ تفہیمِ مذہب کے باب میں اس کے مطالبے کو قبول کرتے ہوئے مسلمان اہلِ علم سے یہ توقع باندھتے ہیں کہ وہ اس کے لیے ایک عقلی پیرہن تیار کریں۔ فرصت ملے تو ان کا پہلا خطبہ پڑھ لیجیے۔ تاہم‘ اپنے بارے میں اقبال کا یہ کہنا تھا کہ عشق ان کا امام ہے اور عقل خادم۔ ''عشق است امامِ من‘ عقل است غلامِ من‘‘۔ عشق کی یہ برتری اس وجہ سے ہے کہ وہ زاہد ہے‘ نہ ملا ہے اور نہ کوئی دانشور ہے۔ گویا یہ سب عقل کے بندے ہیں اور عقل عیار ہے۔ تفہیمِ اقبال کے اس مرحلے پر میں اقبال کے حوالے سے بھی ایک مخمصے میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ عقل عیار ہے تو مذہب کو عقلی تاویل کی کیا ضرورت؟ یہاں مجنوں کے لیے دوگونہ عذاب ہے۔ چلے تھے اقبال سے مولانا کی عقدہ کشائی کے لیے مدد لینے اور خود اقبال کے بارے میں سوال پیدا ہو گیا۔اقبال فہمی کا مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے کہ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا‘ اگر ڈاکٹر رفیع الدین‘ یوسف حسین خاں اور ڈاکٹر عبداللہ جیسے اقبال شناسوں کی کتابوں نے مدد نہ کی۔ مولانا کی بات مجھے کون سمجھائے گا؟ کسی مرید کی بات تو قابلِ بھروسا نہیں ہو سکتی۔ خود مولانا نے جو شرح فرمائی‘ سچ یہ ہے کہ دل کو نہیں لگی۔
اقبال شناسوں کی طرف مراجعت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اقبال عقل کے منکر نہیں تھے۔ وہ صرف اس کو لاحق ہونے والے عوارض سے اندیشے میں مبتلا رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خبر دار کرنا چاہتے تھے ۔ان کا خیال ہے کہ وہ عقل کا انکار نہیں کرتے مگر تنہا اس پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ یہ چراغِ راہ تو ہے منزل نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو عشق کی منزل سے مختلف۔
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
اب آپ بتائیے حور کے بغیر جنت کون لے گا؟ اقبال بھی ہمارے ذوق آشنا ہیں۔ اس لیے انہوں نے عشق کے حق میں ایک جذباتی دلیل دی ہے۔ اس طرح اقبال کے باب میں پیدا ہونے والے مخمصے کا حل تو ہم نے دریافت کر لیا مگر مولانا کے بیانات کو کیسے سمجھیں؟ وہ عقل کی بات کر رہے ہیں یا عشق کی؟
اقتدار کی سیاست تو سر تا پا عقل کا کھیل ہے۔ اس میں جذبات کا لحاظ رکھا جائے تو اقتدار کی منزل دور ہو جاتی ہے۔ اقتدار جذبات ہی نہیں‘ اخلاق کی بھی قربانی مانگتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو سیاست میں زیرک آدمی سمجھا گیا ہے۔ ان کی سیاسی بصیرت کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا یہ مقدمہ عقلی بنیادوں پہ ثابت ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو کیا اسے عشق مان لیا جائے؟ ایک سوال مگر پھر کھڑا ہو جائے گا کہ عشق سے سیاست کا کیا تعلق؟
ایک سیانے آدمی سے بات کی تو اس نے کہا: تمہیں یہ مخمصہ دوسرے اہلِ سیاست کے بارے میں کیوں درپیش نہیں؟ کون ہے جس کی سیاست تضادات سے پاک ہے؟ مقتدرہ کے بارے میں کیا تمہیں بدلتے بیانات سنائی نہیں دیتے؟ جو کل حساب مانگتے تھے‘ آج خاموش ہیں یا ان کے وکیل۔ کیا کل کے مخالف آج کے حامی اور کل کے حامی آج کے مخالف نہیں؟ مولانا سر تا پا سیاستدان ہیں۔ جو رعایتیں ہم دوسرے سیاستدانوں کو دیتے ہیں مولانا آخر اس کے مستحق کیوں نہیں؟ یہ سوال ہی میرے سوال کا جواب تھا۔
مجھے تو اس جواب نے مخمصے سے نکال دیا مگر ان سیاسی کارکنوں کا مخمصہ کون دور کرے گا جو صبح و شام اپنے راہ نماؤں کے بیانات میں تطبیق پیدا کرنے پر مجبور ہیں؟ میرا خیال ہے کہ وہ بھی اس سے نکل سکتے ہیں اگر اپنے اپنے سیاسی راہ نماؤں کو مرشد اور امام کے بجائے ایک سیاستدان تصور کریں۔ انہیں وہی کچھ سمجھیں جو وہ ہیں۔ اس طرح وہ اس ذہنی خلفشار سے بچ جائیں گے‘ جس میں وہ اب مبتلا ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جو سیاسی راہ نماؤں کو مرشد اور امام سمجھتے ہیں‘ وہ اکثر ایک کلٹ میں ڈھل جاتے ہیں۔ بدترین شخصی غلامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لیڈر کے تضادات انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں عقل کی عیاری اپنا کام دکھاتی ہے اور وہ ان باتوں کی بھی تاویل کر لیتے ہیں جو عقلِ عام کے نزدیک قابلِ تاویل نہیں ہوتی۔ جہاں کلٹ نہیں بنتا اور لوگ کسی ایک فرد یا خاندان سے وابستگی اختیار کر لیتے ہیں وہاں اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ مفادات ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ اس دلیل پر قائم کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر کی حقیقت سے واقف ہیں لیکن اسے دوسروں سے بہتر سمجھ کر اس سے وابستہ ہیں۔
یہ آخری طبقہ ہے جو کبھی کسی مخمصے میں مبتلا نہیں ہوتا۔ وہ جب اپنے لیڈرکے ہاں تضادات دیکھتا ہے تو ان کی تاویل نہیں کرتا۔ وہ اسے تضاد ہی سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ اقتدار کی سیاست اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے تابع نہیں ہوتی۔ وہ سیاسی لیڈر میں مرشد تلاش نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع ہوتی ہے کہ کل اگر کوئی بہتر آدمی سیاست میں آئے تو وہ اس کے ہمنوا بن جائیں۔ اصل مسئلہ کلٹ کا ہے یا اہلِ مفاد کا۔ ایک کے پاس عقلی بنیاد نہیں ہوتی اور دوسرا اخلاقی اساس سے محروم ہوتا ہے۔
لہٰذا اے مبصرانِ کرام! سیاست میں عشق نہیں ہوتا۔ یہ سب عقل کی کارستانیاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ایک عقل مند سیاستدان ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو بھی عشق کے بجائے سیاست کو عقل کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ اقبال جیسے لوگ بھی سیاست کو عقل ہی کی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ اس لیے وہ عملی سیاست میں دو چار قدم چلنے کے بعد اس سے دستبردار ہو گئے۔ انہوں نے اپنے لیے عشق کا انتخاب کیا اور عشق کا سیاست سے کیا کام! اقبال کے نزدیک عقل اور عشق دونوں منزل تک لے جاتے ہیں مگر دونوں کا جادہ ایک نہیں۔ عقل حیلے سے منزل تک لے جاتی ہے اور عشق اپنی کشش سے کشاں کشاں منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
ہر دو بمنزلے رواں‘ ہر دو امیرِ کارواں
عقل بحیلہ می برد‘ عشق برد کشاں کشاں