بجلی تو عوام پر گر پڑی۔ کیا اب آسمان بھی گرے گا؟ اگر گرے گا تو کس پر؟
بجلی اس لیے گری کہ ہمارے پاس معاشی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس ملک کی سیاسی جماعتیں‘ اہلِ دانش‘ اربابِ اقتدار‘ احتجاج پسند‘ امن پسند‘ مذہبی‘ سیکولر کسی کے پاس معاشی عوارض کے علاج کے لیے کوئی زود اثر نسخہ موجود نہیں۔ ذمہ داری ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی ہے۔ انہیں یہ اقتدار کسی نے دیا نہیں‘ انہوں نے خود مانگا ہے۔ نہ صرف مانگا ہے بلکہ اس کیلئے صبح و شام دستِ طلب پھیلایا ہے۔ گلی گلی آوارگی کی ہے اور گھر گھر دستک دی ہے۔ اگر اب وہ زیرِ عتاب ہیں تو انہیں کسی کو الزام نہیں دینا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اقتدار ملا تو ہم راتوں رات تمام مسائل حل کر دیں گے‘ لیکن یہ تو کہا تھا کہ ہم اس کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ کوشش ہوتی دکھائی دیتی ہے؟ کیا صاحبانِ اقتدار نے کوئی ایسا حل تجویز کیا ہے کہ ایک آدھ سال بعد صورتحال بدل جانے کا امکان ہو؟ کیا کوئی ایسا معاشی ماڈل سامنے آیا ہے جو یہ بتاتا ہو کہ یہ وہ اقدامات ہیں جو اصلاحِ احوال کی نوید ہیں؟ میرے نزدیک ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔
حکومت کے پاس اس وقت صرف ایک معاشی ماڈل ہے: آئی ایم ایف اور دیگر داخلی اور خارجی ذرائع سے سود پر قرض۔ قرض کس طرح واپس کرنا ہے‘ اس کا کوئی حل حکومت کے پاس نہیں‘ سوائے اُس حل کے جو آئی ایم ایف تجویز کر رہا ہے۔ یہ حل ہے ٹیکسوں میں اضافہ اور رعایتوں (Subsidies) کا خاتمہ۔ اس سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اب بجلی پر دی گئی رعایت ختم ہو رہی ہے اور ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو گرانی آسمان کا رخ کر لیتی ہے۔ اور پھر یہ بجلی بن کر عوام پر گرتی ہے۔
عوام کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ احتجاج کریں۔ احتجاج کے اسلوب پر تو کلام ہو سکتا ہے مگر ان کے اس حق میں کوئی کلام نہیں۔ اس مرحلے پر حکومت اور عوام میں مکالمہ ضروری ہے۔ اس مکالمے میں مگر ایک بڑی رکاوٹ حائل ہے۔ یہ ہے اعتماد کا فقدان۔ اگر حکومت اس پر قابو پا سکے تو بامعنی مکالمہ ممکن ہے۔ تقریری صورت میں یکطرفہ ابلاغ اس وقت بے معنی ہے۔ اس سے عوامی اضطراب میں کمی نہیں آئے گی۔ اس لیے حکومت کو مکالمے سے پہلے حائل رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا۔
اگر حکومت یہ تاثر قائم کر سکے کہ آج عوام جس مشکل میں مبتلا ہیں‘ حکمران بھی اسی میں مبتلا ہیں۔ اگر عوام کے لیے لوڈ شیڈنگ ہے تو اربابِ اختیار کے لیے بھی ہے۔ اگر مہنگائی ہے تو حکمران بھی اس سے متاثر ہیں۔ اگر حکومت میں بیٹھے لوگ اپنی نجی اور سرکاری ذمہ داریوں میں فرق کرتے ہوئے عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ نجی سطح پر بھی ان کی زندگی عام آدمی کی طرح بسر ہو رہی ہے تو پھر وہ اعتماد پیدا ہو سکتا ہے جو معنی خیز مکالمے کو ممکن بنا دے۔ امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے روغن(گھی) کا استعمال ترک کر دیا جب مملکت میں قحط پڑا۔ اثرات آپ کے جسم پر ظاہر ہوئے اور آپ کا رنگ خراب ہو گیا۔ اس سے مگر عوام کے ساتھ اعتماد کا وہ رشتہ قائم ہوا کہ ہر مشکل میں عوام اپنے امیر کے ساتھ کھڑے رہے اور ان کی زندگی کے لیے دعا مانگتے رہے۔
عوام کے ساتھ حکمرانوں کو اپنے پروردگار کے ساتھ بھی رشتہ مستحکم کرنا ہو گا۔ ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کا رب اسباب سے ماورا مدد کر سکتا ہے۔ وہی کارساز اور مشکل کشا ہے۔ اگر ہم اس کی طرف متوجہ ہوں تو وہ ہماری دست گیری کرتا اور ہمیں مشکل سے نکالتا ہے۔ خدا کے اس التفات اور توجہ کا مستحق وہی ہوتا ہے جو ایک طرف اسباب کی دنیا میں پوری کوشش کرتا ہے اور دوسری طرف اخلاص کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس اثاثے کے ساتھ ہمارے حکمران خدا کے حضور میں پیش ہوں اور خالی جھولی واپس آئیں۔
سپین میں جب مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو ایک بار قحط پڑا۔ یہ سلطان عبدالرحمن الناصر کا دور تھا۔ حالات بہت خراب ہو گئے اور عوام میں اضطراب بڑھنے لگا۔ سلطان نے اپنا نمائندہ خطیبِ شہر قاضی منذر کے پاس بھیجا کہ وہ نمازِ استسقاء کی امامت کرائیں اور خدا سے بارانِ رحمت کی دعا کریں۔ قاضی صاحب نے پوچھا کہ سلطان نے مجھے پیغام بھجوایا ہے تو وہ خود کیا کر رہا ہے؟ قاصد نے کہا: آج سے زیادہ ہم نے انہیں اللہ سے ڈرنے والا نہیں پایا۔ ان کا حال یہ ہے کہ بہت پریشان ہیں۔ تنہائی میں ہیں اور مٹی کے فرش پر سجدے میں پڑے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ وہ اپنے گناہوں کے معترف ہیں اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں: ''اے اللہ! میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔کیا تو میرے گناہوں کی وجہ سے لوگوں کو عذاب دے گا‘ جب کہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے؟‘‘۔
قاضی منذر نے یہ سنا تو ان کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں ہوئے۔ انہوں نے قاصد سے کہا: ''اگر ایسا ہے تو پھر اپنے ساتھ بارش لے کر واپس جاؤ۔ اب بارش ضرور ہو گی۔ جب زمین کا حاکم اس طرح اپنے رب کے حضور میں فریاد اورگریہ کرتا ہے تو آسمان کا حاکم ضرور رحم فرماتا ہے‘‘۔ روایت ہے کہ قاصد واپس پہنچا تو بارش شروع ہو چکی تھی(الکامل فی التاریخ)۔ مولانا وحیدالدین خاں نے ''کتابِ معرفت‘‘ میں یہ واقعہ لکھا تو اس سے ایک نتیجہ نکالا۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے یہ مولانا ہی کے مقدر میں لکھا تھا کہ ان کے قلم سے ایسی عبارتیں نکلیں۔ یہ قلم کسی اور کو عطا نہیں ہوا۔ مولانا نے لکھا: ''زمین پر خشک سالی اس لیے آتی ہے تاکہ آنکھوں کی خوش سالی ختم ہو۔ آسمان پر بادل اس لیے گرجتے ہیں تاکہ لوگوں کے دل خدا کے خوف سے دہلیں۔ گرمی کی شدت اس لیے ہوتی ہے تاکہ لوگ جہنم کی آگ کو یاد کرکے تڑپ اٹھیں‘‘۔
یہ واقعہ ممکن ہے محض حکایت ہو لیکن اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس میں ایک مذہبی آدمی کو کلام نہیں ہو سکتا۔ مولانا وحید الدین خاں نے بھی ایک نتیجہ برآمد کیا ہے جو قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر مشکل اور ہرآسانی ایک بڑے پیغام سے جڑی ہوئی ہے جو آخرت میں جواب دہی کا پیغام ہے۔ مسلمان حکمران ہو یا عام شہری‘ اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے اور اسی احساس میں زندگی گزارتا ہے۔
مسئلہ صرف مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں کا نہیں‘ دہشت گردی کا بھی ہے جو ہر روز ہماری قوم کے جوانوں کو نگل رہی ہے جو اس کے خلاف دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔ آج اربابِ اختیار کے لیے جہاں عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنا لازم ہے وہاں خدا کے ساتھ بھی اعتماد کی وہ فضا پیدا کرنا ضروری ہے جو دعاؤں کی قبولیت کے لیے لازمی شرط ہے۔ اس کے بعد ہی وہ سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے جو مکالمے کے لیے ناگزیر ہے۔
میری تجویز ہے کہ مہنگائی اور بجلی کی قیمت پر ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔ حکومت اُن لوگوں سے تجاویز مانگے جو حکومتی پالیسیوں کے ناقد ہیں اور ان تجاویزکو پارلیمان میں لے جائے جہاں ایک کم مدتی پالیسی بنائی جائے جو ایک سال میں نتائج دے۔ طویل مدتی پالیسی اس کے علاوہ ہو۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ عوام کے مسائل میں تو نہیں مگر ان کے اضطراب میں کمی آئے۔ بصورتِ دیگر آسمان کسی وقت بھی گر سکتا ہے کہ عوام کے لیے اضطراب کو تھامنا مشکل ہو رہا ہے۔