حکمران طبقے کا رہن سہن کیسا ہونا چاہیے؟ اگر شخصی اور خاندانی اعتبار سے وہ تونگر اور آسودہ حال ہوں تو کیا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ ان کا اسلوبِ حیات طبقۂ امرا کا نمائندہ ہو؟
ہمارے سامنے دو ماڈل ہیں۔ ایک قدیم اور ایک جدید۔ قدیم وہ ہے جو خلافتِ راشدہ یا عمر بن عبدالعزیزؒ کے ادوار میں لوگوں نے بچشمِ سر دیکھا۔ اس کے علاوہ بھی مثالیں ہیں مگر شاذو نادر۔ دورِ حاضر میں دو مثالیں مسلم دنیا کی ہیں اور بے شمار مغربی دنیا کی۔ مسلمانوں میں جناب آیت اللہ خمینی اگرچہ رسمی حکمران نہیں تھے مگر ان کی حیثیت اس سے کہیں بلند تر تھی۔ دوسری مثال طالبان کی ہے۔ یہ سب لوگ سادہ زندگی گزاتے رہے ہیں یا اب گزار رہے ہیں۔ ان کا معیارِ زندگی ایک عام آدمی جیسا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومتی ایوان نسبتاً پُرشکوہ ہیں مگر ذاتی زندگی میں وہ عام آدمی سے مختلف نہیں۔
دوسرا ماڈل بادشاہوں کا ہے یا بعض جمہوری حکمرانوں کا بھی۔ یہ پُرتعیش اور وسائل کی فراوانی بلکہ ضیاع کا ایک تکلیف دہ منظر پیش کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکمران ایک مختلف مخلوق ہیں اور صنفی اعتبار ہی سے‘ وہ عوام سے جدا ہیں۔ مسلمان حکمران اس میں شامل ہیں۔ ان میں بعض شخصی حوالوں سے اچھے لوگ بھی ہیں جیسے ملائیشیا کے مہاتیر محمد تھے یا ترکیہ کے طیب اردوان ہیں۔ رہن سہن ان کا مگر امیرانہ رہا۔ مغرب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ برطانیہ کا وزیراعظم عام شہری کی طرح رہتا ہے مگر بادشاہ‘ بادشاہوں کی طرح۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقے کی طرف سے مسلمانوں کے درخشاں ماضی کا حوالہ دیا جاتا ہے اور جدید پڑھا لکھا طبقہ مغربی حکمرانوں کی مثال پیش کرتے ہوئے اپنے حکمران طبقے پر تنقید کرتا ہے۔ ان کا پُرتعیش اندازِ زندگی اور ہٹو بچو کی صدائیں عوام کو غصہ دلاتی ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ عام آ دمی کو نانِ جویں میسر نہیں اور حکمران طبقہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس جلتی پر تیل ڈالا جب جھوٹی سچی کہانیاں پھیلا کر اس مقدمے کو مزید مستحکم کیا کہ حکمران عوام سے مختلف اور لاتعلق ہیں۔ حکومت میں بیٹھے لوگوں کے برانڈڈ کپڑوں اور گھڑیوں کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں اور عوام میں اشتعال پیدا کیا جا تا ہے۔ اس صورتِ حال کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم حکمران طبقے سے مراد صرف ان سیاسی نمائندوں کو لیتے ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حکمران طبقے میں ان کے ساتھ سول اور ملٹری بیورو کریسی اور ان کے ساتھ عدلیہ بھی شامل ہے۔ یہ سب ریاست کے ستون شمار ہوتے ہیں‘ اس لیے حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ اس لیے تعریف ہو یا تنقید‘ اس کا ہدف اس سارے طبقے کو ہونا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ سیاستدان براہِ راست عوام کی نماندگی کرتے ہیں لیکن قانون سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی میں اہلِ سیاست کو اس طرح مطعون کیا گیا کہ دوسرے طبقات پر نظر نہیں پڑی۔ اس حوالے سے لازم ہے کہ توازن قائم ہو۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان کے حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ اس میں حکمران طبقے‘ بالخصوص اہم ذمہ داریوں پر فائز لوگوں کی زندگیاں مسلسل خطرات میں گھری رہتی ہیں۔ دہشت گردی کی لہر نے اس کو مشکل بنا دیا ہے کہ وہ سائیکل پر گھر سے نکلیں اور دفتر جائیں۔ دہشت گرد اگر ایک اہم شخصیت کو نشانہ بنا لیں تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ یہ مقصد عوام میں خوف پھیلانا اور ریاست کو کمزور کرنا ہے۔ ریاست کبھی کمزوری کا تاثر نہیں دے سکتی۔ اس لیے ان لوگوں کو محفوظ رکھنا ریاست کی مجبوری ہے۔ اگر آج کوئی وزیراعظم یہ چاہے کہ وہ پروٹوکول کے بغیر زندگی گزارے تو نظام اسے اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ لہٰذا خصوصی پروٹوکول ایک مجبوری ہے۔ اسے عیاشی نہیں سمجھنا چاہیے۔ تاہم اس میں مبالغہ بھی کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے جہاں ایک یا دو گاڑیوں سے حفاظت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے وہاں زیادہ کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ہیں جنہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا لیکن وہ غیر ضروری اہتمام کرتے ہیں۔ اس کو بھی ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ایک حکمران اگر ذاتی حیثیت میں آسودہ حال ہے تو بھی ان کا رہن سہن اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ ان کی شخصیت کپڑوں‘ گھڑیوں اور زیورات کی نمائش کرتی دکھائی نہیں دینی چاہیے۔ ماڈل اور لیڈر میں فرق ہونا چاہیے۔ لیڈر کی پہچان کپڑے اور جوتے نہ ہوں‘ اس کا کردار اور کارکردگی ہو۔ اس معاملے میں بھارت کے سیاستدانوں کی تقلید کی جانی چاہیے۔ ان کا رہن سہن‘ کپڑے ‘ گاڑی ہمیشہ عوامی ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔ کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق کسی طبقۂ امرا سے ہے۔ ان کو دیکھ کر عوام کویہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ کوئی دوسری مخلوق ہیں اور ان کے لیڈر دوسری۔
چوتھی بات یہ کہ یہ اوسط معیارِ زندگی کیا ہے؟ اس کا کوئی معروضی جواب ممکن نہیں۔ عمومی مشاہدے کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تین سے چار کمروں کا مکان جس میں دو اے سی ہوں اور ساتھ ہی یو پی ایس کی سہولت بھی میسر ہو۔ اسی طرح دو گاڑیاں‘ جن میں سے ایک ذاتی اور دوسری سرکاری ہو سکتی ہے۔ اربابِ حکومت اسی معیار کی زندگی گزاریں۔ تاہم سرکاری ذمہ داریوں کے لیے وہ سرکاری انفراسٹرکچر استعمال کر سکتے ہیں؛ جیسے کسی باہر کے مہمان سے ملنا ہے یا سرکاری امور کے لیے وزیراعظم ہائوس یا وزارت کے دفاتر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ پچاس فیصد کے قریب آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ بہت مثالی حل ہو گا کہ حکمران بھی ویسی ہی زندگی گزاریں۔ اس لیے ان حالات میں یہ تجویز کر نا غیر حقیقی ہو گا کہ وہ اس سے کم تر طرزِ زندگی اپنائیں۔ تاہم یہ مطالبہ کہ ان کا اسلوبِ زندگی اوسط درجے کا ہو‘ قابلِ عمل ہے۔ جو سیاستدان یا افسر سرکاری ذمہ داری ادا نہیں کر رہا‘ وہ جائز ذرائع سے کوئی انداز اختیار کر سکتا ہے۔ قانوناً یا اخلاقاً اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عام آدمی کے معیار پر رہے۔ تاہم حکومتی عہدیدار کو اس کا اہتمام کر نا چاہیے۔
اسلام میں اور جدید سیاسی روایات میں بھی حکومت عوام کی خدمت کا ادارہ ہے۔ یہ ذمہ داری ہے۔ جدید سیاسی نظریہ حکمرانوں کو عوام کے سامنے اور اسلام عوام کے ساتھ خدا کے سامنے بھی ان کو جواب دہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے ایک مسلم حکمران کی ذمہ داری دُہری ہے۔ ہماری روایت میں جو لوگ اس بات کا شعور رکھتے تھے‘ وہ اسی لیے ایسی ذمہ داریوں سے بھاگتے تھے۔ ہم اس مثالی دور کی طرف تو نہیں لوٹ سکتے‘ اس لیے ہمیں وہ انداز تو ضرور اپنانے چاہئیں جو ممکن ہیں۔
جب تک پاکستان کے حالات پُرامن نہیں ہو جاتے‘ حفاظت کا اہتمام ضروری ہے۔ اس لیے اس پروٹوکول پر اعتراض شاید مناسب نہ ہو۔ لیکن غیر ضروری زنجیریں ضرور توڑی جا سکتی ہیں۔ اگر عوام اور حکمرانوں میں اعتماد پیدا ہو جائے تو ملک عدم استحکام سے نکل سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کم سے کم اقدام ہے جو کیا جانا چاہیے۔ میں بار ہا یہ عرض کر چکا کہ کسی کے پاس مسائل کا فوری حل موجود نہیں ہے۔ مسلسل قرض خود کو دلدل میں دھکیلنا ہے۔ قرض کی واپسی کا علاج ٹیکسوں کی بھرمار نہیں‘ اخراجات میں کمی ہے۔ اگر حکمران سادہ طرزِ زندگی اپنائیں تو عوام کو بھی ا س پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے وسائل محدود ہیں لیکن سماج کی اخلاقی قوت بہت ہے۔ ہمیں خود کو بچانے کے لیے اس قوت کو بروئے کار لانا ہو گا۔