مثالی حل کالم میں بیان کیے جا سکتے ہیں۔ اقتدار کی سیاست مگر کبھی مثالی نہیں ہوتی۔
محرم کے ایام ہیں اور سید ناحسینؓ کی پُرملال یادوں سے فضا سوگوار ہے۔ سیاست مثالی ہوتی تو کربلا کاحادثہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ نہ ہوتا۔ کربلا ہی نہیں جنگِ جمل اور جنگِ صفین بھی نہ ہوتیں۔ تقدیس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کے معروضی جائزے سے بچ جاتے ہیں۔ ''دونوں کا مؤقف درست تھا۔ یہ چند فتنہ پرور تھے جنہوں نے لڑا دیا‘‘۔ ہم یہ کہتے ہوئے اپنا دامن بچا لیتے ہیں۔ اغیار کی معروضیت اگر تاریخ سے آنکھیں چار کرنے پر مجبور کرے تو 'اجتہادی غلطی‘ کی تنگ گلی سے نکل جاتے ہیں۔ کچھ جری لوگوں نے غلط اور صحیح کی قید لگانا چاہی تو امت میں وہ انتشار پیدا ہوا کہ الامان و الحفیظ۔
ہمیں سیدنا حسینؓ سے محبت ہے کہ آلِ پیغمبر میں سے ہیں۔ نبیﷺ کی گود میں بچپن گزارا اور سیدہ فاطمہؓ کے آغوشِ تربیت میں پلے بڑھے۔ کیا سعادت ہے جو اُن کے نصیب میں لکھی گئی۔ ان کے مقام اور فضائل سے ان کے معاصرین اور معاندین‘ سب واقف تھے۔ سیدنا معاویہؓ کی ایک وصیت طبری نے نقل کی ہے جو انہوں نے سیدناحسینؓ کے بارے میں اپنے بیٹے یزید کو کی تھی: ''اہلِ عراق انہیں تمہارے مقابلے میں لاکر رہیں گے... تم ان پر قابو پا لو تو درگزر سے کام لینا۔ وہ قرابت دار ہیں‘ بڑا حق رکھتے اور رسول اللہﷺ کے عزیز ہیں‘‘۔ اس کے باوجود سیدنا حسینؓ شہید کر دیے گئے۔
نواسۂ رسول کے ذکر سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں۔ نواسۂ صدیقِ اکبر عبداللہ ابن زبیرؓ کا ذکر مگر کم ہوتا ہے۔ انہوں نے یزید کو حکمران ماننے سے انکار کیا اور اپنی متبادل حکومت قائم کی۔ وہ چند برس کم و بیش تمام مسلم دنیا اور سات برس حجاز و عراق کے حکمران رہے۔ جس علاقے پر اُن کا اقتدار بالفعل قائم تھا‘ وہ اس سے زیادہ تھا جو بنو امیہ کے زیرِ نگیں تھا۔ انہیں بھی شہید کر دیا گیا۔ یہ نواسۂ رسول ہوں یا نواسۂ ابوبکررضی اللہ عنہما‘ ان کے لہو سے کسی غیر نے نہیں‘ اپنوں ہی نے ہاتھ تر کیے۔ اگر سیاست کے دامن میں مثالی حل ہوتے تو تاریخ ان واقعات اور حادثات سے خالی ہوتی۔
یہ جدید دور ہے جس نے ایک ایسا حل دریافت کر لیا ہے جس سے انتقالِ اقتدار کے لیے کسی کے خون میں ہاتھ رنگنا لازم نہیں رہا۔ یہ جمہوریت ہے۔ اس کے باوصف اقتدار کا کھیل ایسا ہے کہ بے نظیر بھٹو جلسۂ عام میں قتل ہو جاتی ہیں اور گولی ٹرمپ کے کان کو چھُو کر گزر جاتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا ہو یا ترقی پذیر‘ اقتدار کا کھیل اسی طرح کھیلا جاتا ہے۔ بے رحم حقیقتیں قدم قدم پر اخلاقیات سے مزاحم ہوتی ہیں اور تاریخ یہی ہے کہ فتح اسی کے لیے ہے جو ان حقائق سے ہم آہنگ اور ہم قدم ہو جاتا ہے۔
آج ہم بھی اپنے عہد کے کربلا میں کھڑے ہیں۔ مثالی حل پیش کیے جا رہے ہیں مگر میرا تاریخی شعور یہ کہتا ہے کہ یہ حل صرف اہلِ تجزیہ کی نوکِ زبان پر ہیں یا صریرِ خامہ میں۔ اقتدار کے مراکز میں یہ حل زیرِ بحث ہی نہیں۔ تاریخ کی کتابیں ممکن ہے بعض نے پڑھ رکھی ہوں مگر یہ تاریخ خوانی پر نہیں‘ تاریخ سازی پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر تاریخ خواں ہوتے تو کسی یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہوتے یا کسی اخبار کے کالم نگار ہوتے‘ ایوانِ اقتدار میں نہ ہوتے۔ انہوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا‘ تاریخ کو سکھانا ہے۔ انہوں نے وہی کرنا ہے‘ اقتدار کی سیاست جس کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس انوکھی لاڈلی کے مطالبات بھی انوکھے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی باپ کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور کبھی بھائی کا سر چاہتی ہے۔
اب کیا ہو گا؟ جو اقتدار میں ہیں وہ اقتدار بچانے کی کوشش کریں گے۔ جو اقتدار سے باہر ہیں وہ انہیں ایوانِ اقتدار سے نکالنے اور اپنے لیے جگہ بنانے کی سعی کریں گے۔ اگر یہ کھینچا تانی سیاست کے روایتی حریفوں تک محدود رہتی تو اس کشمکش کے باوجود نظام قائم رکھا جا سکتا تھا۔ جیسے ترقی یافتہ دنیا میں ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں بھی ہو جاتی ہیں مگر سماج کا امن باقی رہتا ہے۔ معیشت کو منظم کرنے والی قوتیں اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ ریاست اور حکومت کی سرحدیں جدا رہتی ہیں۔
ہمارا معاملہ دنیا سے الگ ہے۔ یہاں رسہ کشی سیاست کے روایتی حریفوں میں نہیں ریاست کے ستونوں میں ہے۔ اس کشمکش میں کسی کی فتح ہو یا کسی کی شکست‘ کمزور ریاست ہی ہوگی۔ ایک عمارت تین ستونوں پر کھڑی ہے۔ اگر تینوں یا دو ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں اور اس تصادم کے نتیجے میں کوئی ایک ستون گر جائے تو نقصان عمارت ہی کا ہونا ہے۔ انقلاب کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ عمارت کا گر جانا ہی کامیابی ہے۔ فرسودہ عمارت گرے گی تو نئی تعمیر ہو گی۔ ہمارے اہلِ دانش اس کو تیزاب کے ساتھ غسل سے تعبیر کرتے ہیں۔ 'انقلابی‘ خوش ہیں کہ یہ ستون ایک ایک کر کے گریں گے تو جہانِ نو پیدا ہو گا۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ قوموں کو 'انقلاب‘ کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ معاملہ مگر صرف اہلِ انقلاب کا نہیں۔ سسٹم کے پجاری بھی 'ارتقا‘ پر آمادہ نہیں۔ وہ 'سٹیٹس کو‘ کو اس طرح قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ اقتدار کے مرکز پر ان کا قبضہ برقرار رہے۔ اس صورت میں کیا ہوگا؟
مراکزِ اقتدار پر قابض جب اپنے اپنے دائروں میں قید ہو جائیں۔ بالفاظِ دیگر ایک ستون دوسرے کو گرانے لگ جائے تو پھر فیصلہ تاریخی عوامل کرتے ہیں جن کی باگ وقت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ پھر وہی معیشت کی صورت گری کرتے ہیں۔ کسی ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ معاشی عمل کو اپنی گرفت میں رکھ سکے اگر وہ استحکام سے محروم ہو جائے۔ ریاست کے ستون جب ٹکرانے لگیں تو استحکام خواب بن جاتا ہے۔ پھر افراطِ زر قابو میں ہوتی ہے نہ مہنگائی۔
ان تاریخی عوامل میں ایک عامل عالمگیر سیاسی نظام بھی ہے۔ وہ اپنے مفادات کے تحت ایک گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیتا ہے‘ اگر اس کی مکمل تباہی اس کے فائدے میں نہ ہو۔ وہ کسی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیتا ہے اگر اسے کسی سماجی افراتفری کا اندیشہ ہو جس کا ہدف یہ عالمگیر نظام بن سکتا ہے۔ اگرموجودہ حالات میں بھی آئی ایم ایف ہمیں قرض دینے پر آمادہ ہے تو اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ نظام کی اس کمزوری کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ فیصلہ سازی پر وہ عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جو اس کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ پھر ہماری معاشی فیصلے آئی ایم ایف کے دفاتر میں ہوتے ہیں۔
کوئی قوم اگر ایسی صورتحال سے دوچار ہو جائے تو اسے کسی بڑے لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے یا کسی ایسے ادارے کی جو اس کی بکھرتی قوت کو مجتمع کر سکے۔ ماضی میں ہمارے عسکری ادارے تھے جو سنگین معاملات کوسنبھال لیتے تھے کہ عوام کو اُن پر اعتماد تھا۔ اب مفادات نے سب کو بازیچہ اطفال بنا دیا ہے۔ شدید دھوپ ہے اور کوئی سائبان نہیں۔
اہلِ دانش کی مجبور ی ہے کہ مثالی حل پیش کریں۔ آئیڈیل ازم کم ازکم کالموں میں تو زندہ رہے۔ اقتدار کی سیاست مگر جن کے ہاتھ میں ہے وہ اصلاح نہیں‘ فتح و شکست کے حوالے سے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ آثار یہی ہیں کہ یہ روش آج بھی قائم ہے۔ کالم نگار کے اطمینان کے لیے یہی بہت ہے کہ میں نے فلاں وقت میں یہ لکھا اور کہا تھا۔ اقتدار کی سیاست کے مگر کان نہیں ہوتے۔ ہوتے تو وہ ناصح اورکالم نگار کی سنتی اور تاریخ میں کربلا جیسے حادثے نہ ہوتے۔