خیال یہ تھا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی پر ایک آدھ مضمون مزید لکھ کر‘ اُس بحث کا اپنی طرف سے خاتمہ کر دوں گا جس کا آغاز برادرم وجاہت مسعود نے کیا تھا۔ برادرم کا خیال مگر کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔
اب وہ اپنی زنبیل سے یہ گوہرِ نایاب بھی نکال لائے ہیں کہ ''پاکستان کا خواب دیکھنے والے اقبال جمہوری بندوبست کے مخالف تھے‘‘۔ گویا اس سلسلۂ بحث کو اب اقبال تک تو دراز کرنا پڑے گا۔ 'ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں‘۔ یہی نہیں‘ لگے ہاتھوں انہوں نے مولانا مودودی کو بھی نمٹا دیا۔ انہوں نے کب کیا کہا اور کس سیاق وسباق میں‘ اب یہ بھی دیکھنا پڑے گا۔ غیب کی تو خدا جانے‘ آثار یہی ہیں کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کے کندھے پر رکھ کر جو بندوق چلائی گئی ہے‘ اس کا نشانہ ہر وہ شخص ہو گا جس نے یہ کہنے یا چاہنے کی جسارت کی کہ پاکستان کے نظامِ ریاست کو اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ گویا یہ سب اب تھانے جائیں گے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
قائداعظم اورمولانا شبیر احمد عثمانی‘ دونوں یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے نام سے وجود میں آنے والی اس مملکت کا نظم‘ اسلام کے راہ نما اصولوں کی روشنی میں قائم ہو۔ تاہم دونوں کی تعبیراتِ ریاست ومذہب مختلف تھیں۔ اس کا سبب دونوں کا پس منظر ہے۔ قائداعظم مروجہ معنوں میں دین کے عالم تھے نہ سکالر۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ وہ اسلام یا علمِ سیاسیات کے مباحث سے ناواقفِ محض تھے۔ جس نے انگلستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے قانون کی تعلیم لی ہو‘ اس کے بارے میں یہ گمان کرنا کم علمی کی دلیل ہے۔ انہوں نے اپنا رجحان واضح کر دیا تھا کہ ان امور میں وہ علامہ اقبال ہی کو اپنا فکری رہنما مانتے تھے۔ جب وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق تشکیلِ مملکت کی بات کرتے ہیں تو ان کے سامنے ایک جدید قومی ریاست ہوتی ہے جو اپنی اداراتی صورت گری کے لیے اسلام سے راہ نمائی چاہتی ہے۔ جمہوریت بھی وہ جس نے اسلام کی درس گاہ میں پرورش پائی ہے۔
دوسری طرف مولانا شبیر احمد عثمانی ایک جید عالمِ دین تھے‘ نہ کہ دو رکعت کے امام جیسے کہ وجاہت صاحب نے تاثر دیا۔ انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ترجمہ قرآن کے حواشی لکھے۔ یہ شہادت ہے کہ علومِ قرآن پر ان کی کیسی نظر تھی۔ انہوں نے حدیث کی معتبر کتاب صحیح مسلم کی نامکمل عربی شرح 'فتح الملہم‘ لکھی جس کی تکمیل مفتی تقی عثمانی صاحب نے کی۔ سید سلیمان ندوی کے بقول‘ احناف پر یہ قرض تھا کہ وہ مسلم کی شرح لکھیں جو مولانا عثمانی نے اتارا۔ مولانا فی الجملہ اسی تعبیرِ دین کے قائل تھے جسے ہم روایتی کہتے ہیں۔ سیاست کے باب میں ان کی آخری منزل بھی خلافتِ اسلامیہ ہی کا قیام تھا۔ تاہم وہ حقیقت پسند تھے۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ اس خواب کی فوری تعبیر موجود نہیں۔ انہوں نے جدید ریاست کے ماڈل کو قبول کرتے ہوئے‘ اس کی اسلامی تشکیل کیلئے مسلم لیگ کی تائید کی۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے کبھی 'مذہبی طبقے کی حکومت‘ کا مطالبہ نہیں کیا۔ وہ ایک ایسے ادارے کے حق میں تھے جو مملکت کے اسلامی تشخص کیلئے کام کرے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ شیخ الاسلام کا منصب‘ جدید مملکت کے نظم کا حصہ ہو۔ ان موضوعات پر انہوں نے بارہا اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن ان کا نقطہ نظر‘ سب سے زیادہ جامعیت کے ساتھ اس تقریر میں سامنے آیا جو انہوں نے قراردادِ مقاصد کی منظوری کے موقع پر دستور ساز اسمبلی میں کی۔ اُن سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے یہ قرارداد پیش کی اور اس پر ایک جامع تقریر کی۔ یہ تقریر بتاتی ہے کہ بانیانِ پاکستان ریاست کے نظری تشخص کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ مولانا عثمانی نے قراردادِ مقصد کی تعبیر کے باب میں‘ اپنا موقف شرح وبسط کے ساتھ سامنے رکھا۔
مولانا عثمانی نے جو کچھ کہا‘ ان میں سے چند نکات میں یہاں نقل کر رہا ہوں۔
1۔ اسلام میں دینی حکومت کے معنی 'پاپائیت‘ یا 'کلیسائی حکومت‘ کے نہیں... اسلامی حکومت سے مراد وہ حکومت ہے جو اسلام کے بتائے ہوئے اعلیٰ اور پاکیزہ اصول پر چلائی جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی اصولی حکومت کو چلانا‘ خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی (جیسے روس کی ا شتراکی حکومت)‘ دراصل انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو ان اصولوں کو مانتے ہوں۔ جو لوگ ان اصولوں کو نہیں مانتے‘ ایسی حکومت نظامِ مملکت میں ان کی خدمات تو ضرور حاصل کر سکتی ہے مگر مملکت کی جنرل پالیسی یا کلیدی انتظام کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتی۔
2۔ اسلام آج کل کی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت اپنے خاص طریقوں سے‘ جو اشتراکی اصولوں سے الگ ہیں‘ جمع شدہ سرمایے کی مناسب تقسیم کا حکم دیتی ہے... اسلامی حکومت شخصی ملکیت کی نفی نہیں کرتی۔ مناسب حد تک راس المال رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ زائد سرمایے کے لیے ملکی بیت المال قائم کرتی ہے۔
3۔ شوریٰ اسلامی حکومت کی اصل ہے... اسلامی حکومت دنیا میں پہلا ادارہ ہے جس نے شہنشاہیت کو ختم کرکے استصوابِ عامہ کا اصول جاری کیا اور بادشاہ کی جگہ (حکومت) عوام کے منتخب کردہ امام (قائدِ حکومت) کو عطا کی... وہ جمہور کی مرضی اور انہی کے ہاتھوں سے سٹیٹ کو اختیارات دلاتا ہے۔
4۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے قلم رو میں بسنے والے غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہیں‘ جان‘ مال‘ آبرو‘ مذہبی آزادی اور عام شہری حقوق کی مکمل حفاظت کرے۔ اگر کوئی طاقت ان کے جان ومال پر دست اندازی کرے تو حکومت اس سے جنگ کرے اور ان پر ایسا بار نہ ڈالے جو ان کے لیے ناقابلِ تحمل ہو۔ جو ملک صلحاً حاصل ہوا ہو‘ وہاں کے غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوں‘ ان کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ پھر غیر مسلموں کے یہ حقوق محض اکثریت کی رحم وکرم پر نہیں بلکہ خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے جس سے کسی وقت انحراف جائز نہیں... ہمارے غیر مسلم دوست بھی اگر ایک مرتبہ تھوڑا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں تو اگلی اور پچھلی سب تلخیاں بھول جائیں گے بلکہ بہت مطمئن رہیں گے۔
اس تقریر سے واضح ہے کہ مولانا فی الجملہ جدید ریاست کے تصور کو درست سمجھتے ہیں۔ تھیوکریسی اور شہنشاہیت کے خلاف ہیں اور جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت‘ دونوں ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ تاہم وہ بعض باتوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں‘ جیسے ان کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو کلیدی عہدے دینے کے حق میں نہیں جبکہ قائداعظم کی رائے اس کے برخلاف ہے۔ اب انسانوں کے درمیان اتنا اختلاف نہ ہو وہ انسان نہ رہیں‘ روبوٹ بن جائیں۔ ہر معاشرے میں ایک وسیع البنیاد اتفاقِ رائے ہوتا ہے۔ جزئیات اور تفصیلات میں اختلاف کا مطلب ورلڈویو کا اختلاف نہیں۔
مولانا شبیر احمد عثمانی پر‘ میری بات مکمل ہوئی۔ شاید میں اس پر مزید اضافہ نہ کروں۔ میں نے صرف یہ کوشش کی ہے کہ کسی تائیدی یا تنقیدی تبصرے کے بغیر‘ امرِ واقعہ بیان کر دوں۔ برادرم وجاہت مسعودکا مقدمہ بھی سامنے آ چکا۔ پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس باب میں قرینِ صواب مؤقف کون سا ہے۔ رہا علامہ اقبال کا جمہوریت مخالف ہونا تو یہ رائے اقبال کے ناقص اور ادھورے مطالعے کا حاصل ہے جوکچھ مذہبی حضرات بھی بیان کرتے رہے ہیں۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ پھر بات ہو گی۔