جماعت اسلامی کا دھرنا‘ کیا نتیجہ خیز ہو گا؟ دھرنے کی سیاست سے کون متاثر ہوتا ہے؟ حکومت یا عوام؟
'دھرنا‘ ریاضی کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے تہذیبی شعور کا اظہار ہے۔ یوں اس کے کئی رنگ ہیں۔ شوخ اور چنچل۔ تشویشناک اور خوفناک۔ منظم اور سیاسی۔ جس جماعت پر جو رنگ غالب ہے‘دھرنا اسی رنگ میں رنگا ہوا ہو گا۔
پی ٹی آئی کا دھرنا شوخ اور چنچل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ا س کے رنگ بدلتے رہے۔ آخری دنوں میں تو یہ جز وقتی ہو گیا۔ دن میں اسلام آباد کا ڈی چوک ایک اجڑی بستی کا منظر پیش کرتا۔ بے ربط کرسیاں‘ بکھری دریاں‘ شام ڈھلتے ہی قمقمے روشن ہو جاتے۔ بستی نئے سرے سے آباد ہو جاتی۔ دھیرے دھیرے موسیقی کی لہریں اٹھتیں جیسے کسی کو بلا رہی ہوں۔ عشاق انگڑائی لے کر اٹھتے اور اس طرف کا رخ کرتے۔ رنگ بکھرنے لگتے اور جیسے جیسے رات آگے بڑھتی‘رنگوں کی شوخی بھی بڑھتی جاتی۔ فنونِ لطیفہ اور سیاست سے وابستہ فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ یہاں تک کہ رات کے آخری پہر خان صاحب سٹیج پر نمودار ہوتے اور دھرنا اپنے عروج کو پہنچ جاتا۔ آخری دنوں میں تو شرکا کا شمار انگلیوں پر ہوتا لیکن ان کاجوش و خروش پہلے دن والا ہی تھا۔ خان صاحب کی آمد سے زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔ وہ دلوں کو ولولۂ تازہ دیتے اور پہاڑ کی چوٹی پر لوٹ جاتے جہاں بلندیوں اورنظاروں میں گھرا ان کا گھر ہے۔
دن بھردھرنے میں تو خاموشی ہوتی مگر میڈیا کے رضا کار بروئے کار آتے۔ خان صاحب کی ورزش‘ کتے کے ساتھ اٹکھیلیاں‘ ناشتے کے لوازمات میڈیا چینلز براہِ راست دکھاتے اور یوں گھر بیٹھے عامۃ الناس کو دھرنے سے جوڑے رکھتے۔ یہ میلہ تھا‘ سیاسی اجتماع تھا‘ احتجاج تھا اور نئے خدوخال لیے‘ خان صاحب کا سراپا تھا کہ عوام کی نفسیات کا حصہ بن رہا تھا۔ یہ دھرنا نہیں تھا‘ ایک سیاسی کروٹ تھی جس نے دو برس میں چلتے نظام کو تہ وبالا کر دیا۔
فیض آباد نے بھی انہی دنوں ایک دھرنا دیکھا۔ میں اس کی تفصیلات بتانے کی سکت نہیں رکھتا۔ مذہبی ہیجان کو کون الفاظ کا روپ دے سکتا ہے۔ بس اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ جتنے دن یہ دھرنا رہا‘ دلیل اور ہوش کا اس طرف سے گزر نہیں ہوا۔ اوّل تو عقل کے لیے یہ راستہ‘ شاہراہ ممنوع تھا اور اگر وہ اس طرف سے کبھی گزری بھی تو نقاب اوڑھ کر کہ کہیں پہچانی نہ جائے اور اس کا سر قلم نہ ہو جائے۔ یہ دھرنا نظام کی گرتی ہوئی دیواروں کے لیے ایک مؤثر دھکا تھا۔
آج کل جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے۔ اس کا اپنا رنگ ہے۔ مطالبات واضح ہیں۔ اہلِ دھرنا ریاست کے ساتھ تصادم کے موڈ میں نہیں۔ جہاں روکا گیا‘ بیٹھ گئے۔ قیادت کے منہ سے کسی نے کوئی نازیبا الفاظ نہیں سنے۔ عوام کے لیے راستے کھلے ہیں۔ تنظیم ہے اور شائستگی۔ میٹرو بس کو بحال کر دیا گیا ہے‘ اس امید پر اس دھرنے کے شرکا سے نجی اور سرکاری املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ دھرنا مخلوط بھی نہیں۔ خواتین کے لیے ایک الگ جلسے کا اہتمام ہے۔ نماز کے اوقات میں شرکا باجماعت سر بسجود ہوتے ہیں۔ مذہب کا رنگ غالب ہے۔ ترانے ہیں مگر 'شرعی‘۔ موسیقی جماعت اسلامی کے مذہب میں خلافِ شریعت ہے۔ اب تو 'پاسبان‘ کا رنگ بھی دکھائی نہیں دیا۔ اس غیر مخلوط دھرنے میں شوخی ہے اور نہ چنچل پن۔ اسی لیے عام نوجوانوں کے لیے اس میں کوئی کشش نہیں۔ صرف جماعت اسلامی کے ارکان شریک ہیں‘ تاہم پورے سماج میں ان کے لیے ہمدردی ہے۔
میں نے ماضی کے جن دو دھرنوں کا ذکر کیا‘ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ نواز شریف صاحب اقتدار سے محروم ہوئے اور عمران خان صاحب وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہو گئے۔ میں اس بحث سے دانستہ گریز کر رہا ہوں کہ ان کے نتیجے میں ہمارا سیاسی اور مذہبی کلچر کن آفات سے گزرا اور اس کے اثرات کتنے دور رس ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ یہ دھرنے ان مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے جو اُن کے سامنے تھے۔ کیا جماعت اسلامی کا دھرنا بھی نتیجہ خیز ہو گا؟
جماعت اسلامی کے مطالبات اخلاقاً درست ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ مطالبات تسلیم کیے جا سکتے ہیں؟ میں نے نعیم الرحمن صاحب کی گفتگو سنی۔ اُن کے بعض مطالبات قابلِ عمل ہیں۔ جیسے حکمران طبقہ اپنا معیارِ زندگی کم کرے۔ مفت بجلی کی رعایت کا خاتمہ کیا جائے۔ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں۔ آئی پی پیز کا آڈٹ کرایا جائے۔ یہ وہ مطالبات ہیں جنہیں پورا کرنا حکومت کے بس میں ہے۔
رہی یہ بات کہ حکومت آئی پی پیز سے جو معاہدے کرتی آئی ہے‘ کیا انہیں یکطرفہ طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے اگر جماعت اسلامی اس پر حکومت کو کوئی حکمتِ عملی تجویز دے سکے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ایسے یکطرفہ معاہدے کیوں کیے گئے جن میں صرف ایک فریق کے مفادات سامنے رہے۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ اس پر حیرت کا اظہار ضرور کیا جا سکتا ہے مگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس وقت راستہ دکھانا پڑے گا کہ موجودہ حکومت اس شکنجے سے کیسے نکلے؟ اللہ کرے کہ مذاکرات کے دوسرے دور میں کوئی قابلِ عمل حل سامنے آ جائے۔
اس ضمن میں دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ دھرنے‘ کیا ہمارے مسائل کا حل ہیں؟ اس سے حکومت پر کتنا اثر ہو گا؟ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ دھرنوں سے حکومت کو زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی متاثر ہوتا ہے تو وہ عام آدمی ہے۔ اس کے لیے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ہمارا آجر مزاجاً ظالم ہے۔ اسے کسی کی مجبوریوں کا خیال نہیں ہوتا۔ غیر معمولی حالات میں بھی کارکن اگر تاخیر سے پہنچے تو اس کی تنخواہ کٹ جاتی ہے۔ پھر یہ کہ احتجاج کا کیا یہی اسلوب باقی ہے؟ ایک دھرنا راولپنڈی‘ اسلام آباد میں جاری ہے اور دوسرا بلوچستان میں۔ کراچی تو ہے ہی دھروں کا شہر۔ کیا کوئی ملک اس طرح آگے بڑھ سکتا ہے؟ اس سوال پر ضرور غور ہونا چاہیے۔ اہلِ سیاست کو احتجاج کی ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے جو عوام کو متاثر نہ کرے۔
جماعت اسلامی کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پھر کیا ہو گا؟ کارکن کتنے دن یہاں بیٹھے رہیں گے؟ میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ راولپنڈی شدید بارش کی زد میں ہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ مری روڈ جہاں یہ لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں‘ اس شدید بارش میں ان کا کیا بنے گا؟ اس سوال کا جواب جماعت کی قیادت کو دینا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی کارکن کا سب سے زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب‘ طاہر القادری صاحب اور دوسروں کو جو کنٹینر میسر تھے‘ عام کارکن ان سہولتوں سے محروم تھا۔ امیر جماعت اسلامی اگر عام آدمی کی طرح رہیں تو بھی یہ مسئلے کا حل نہیں۔ عام کارکن کی مشکلات تو اسی طرح رہیں گی۔
نعیم الرحمن صاحب جب امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے تو میں نے اسی کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کی احتجاج پسند طبیعت جماعت کے کارکن کے مزاج پر اثر انداز ہو گی۔ یہ عمران خان صاحب کا طریقہ ہے کہ کارکن کو ہمیشہ مضطرب رکھا جائے تاکہ اسے یہ مہلت ہی نہ ملے کہ وہ جنون سے باہر آ سکے۔ اگر جماعت اسلامی بھی اسی روش کو اپنائے گی تو یہ ایک المیہ ہو گا۔ نعیم الرحمن صاحب کو سوچنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ کیا کریں گے۔ جماعت کا کارکن عام آدمی ہے۔ وہ دھرنے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ اس سے مالی اعانت بھی لیں اور حکومت کی لاٹھیوں کے سامنے بھی کھڑا کر دیں‘ یہ حکمتِ عملی اخلاقاً محلِ نظر ہے۔