کیا بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی کوئی انقلاب ہے؟
کیا پاکستان میں ویسی ہی کسی تبدیلی کا کوئی امکان ہے؟
یہ دنیا ایک عبرت کدہ ہے۔ یہاں برپا ہونے والا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ ان واقعات کے آئینے میں اپنے پروردگار کی ہستی سے لے کر اپنے مستقبل تک‘ ہم ہر چیز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ الہامی ادب ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے۔ ابنِ خلدون اور ٹوئن بی جیسے لوگ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ اس عبرت کدے سے اسباق کو چنتے اور ان کے لیے جمع کر دیتے ہیں جو خود ان تک رسائی کی استعداد نہیں رکھتے۔ بنگلہ دیش کے واقعات کو بھی کل اسی طرح دیکھا جائے گا۔
بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی کوئی انقلاب نہیں۔ یہ ریاستی جبر اور فسطائیت کے خلاف عوامی ردِ عمل ہے جس کے اظہارکا راستہ اسی نظام میں موجود تھا۔ حسینہ واجد نے اس راستے کو بند کرنا چاہا‘ انتخابی عمل کو بدعنوان بنایا‘ عدالتوں کو پابند کیا‘ مخالفین کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیلا۔ کسی نے بولنا چاہا تو اس کی زبان کاٹ ڈالی۔ یہ باتیں جب ناقابلِ برداشت ہو گئیں تو عوام کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
کوئی کہہ سکتا ہے اسی کا نام تو انقلاب ہے۔ میرا کہنا ہو گا کہ یہ ایک جزوی تبدیلی ہے۔ ایک فرد وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے اترا ہے۔ نظام اپنی جگہ قائم ہے جس نے اسے نکلنے کا راستہ دیا ہے۔ یہی نظام اس منصب پر کسی نئے کو لے آئے گا۔ انقلاب میں ایسا نہیں ہوتا۔ انقلاب زمین کو آسمان سے بدل دیتا ہے۔ ایک نظام کی جگہ دوسرا نظام لے لیتا ہے۔ ایران میں جو کچھ ہوا‘ اس کو انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب آتا ہے تو وقت کے دو ادوار کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ انقلاب میں جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ روس کے زار واپس آئے نہ ایران کے پہلوی۔
بنگلہ دیش میں یہ امکان موجود ہے کہ حسینہ پھر واپس آ جائیں۔ عدالتیں وہی ہیں اور فوج بھی وہی۔ اس نظام کا محض ایک پرزہ تبدیل ہوا ہے۔ مجموعی طور پر یہ نظام وہی ہے۔ اس لیے یہ کسی طور انقلاب نہیں ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ یہ نظام کے اندر تبدیلی کا راستہ دیتی ہے جو تبدیلی کو پُرامن بنا دیتی ہے۔ حسینہ واجد صاحبہ جیسے لوگ جب اس نظام کا حصہ بنتے ہیں تو وہ اس تبدیلی کے عمل کو انسانی لہو سے رنگین کر دیتے ہیں۔ یہی غلطی بھٹو صاحب نے پاکستان میں کی۔ نظام نے ان کو بحران سے نکلنے کا ایک پُرامن راستہ دیا تھا۔ وہ حسینہ واجد کی طرح ایک دوسری راہ پر چل نکلے۔ نتیجتاً بہت سے بے گناہ مارے گئے‘ ملک مارشل لاء کی گرفت میں چلا گیا اور وہ خود پھانسی چڑھ گئے۔ حسینہ واجد کا جانا ٹھہر گیا تھا۔ افسوس کہ انہوں نے جاتے جاتے چار سو افراد کی جان لے لی۔
اب آئیے‘ دوسرے سوال کی طرف۔ بنگلہ دیش میں یہ تبدیلی اس لیے ممکن ہوئی کہ فوج عوام کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ایک سطح پر عدلیہ بھی‘ جب سپریم کورٹ نے کوٹے کے معاملے میں حکومتی فیصلے کو معطل کر دیا۔ فیصلہ کن کردار فوج کا تھا۔ اگر فوج حسینہ واجد کا ساتھ دیتی تو میرا خیال ہے‘ مزید خون خرابہ ہوتا لیکن ان کا اقتدار کچھ وقت کیلئے بچ جاتا۔ یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ فوج مستقل میں اپنے کسی ایجنڈے پر چلتی ہے یا عوام کے ساتھ کھڑی رہتی ہے؟
پاکستان میں اس وقت جو کشمکش جاری ہے اس میں ریاستی ادارے فریق ہیں۔ ایک سیاسی جماعت عدلیہ پر جانبداری کا الزام دھرتی ہے اور دوسری فوج پر۔ عوامی مقبولیت اور اقتدار کے حقیقی مرکز میں تصادم ہے۔ فوج اور عوام کا ایک بڑا طبقہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہے۔ اس لیے پاکستان کے حالات کو بنگلہ دیش سے سرِ دست کوئی نسبت نہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ضرور ہے لیکن ریاست عوام سے براہِ راست متصادم نہیں۔ پارلیمان موجود ہے۔ میڈیا بڑی حد تک آزاد ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جلسے اور دھرنے کی اجازت ہے۔ یہاں تو حکومت کو عدالت سے شکایت ہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس لیے یہاں اس تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان نہیں جو بنگلہ دیش میں آئی ہے۔
ایک فرق مزاج کا بھی ہے۔ پاکستان کی شہری آبادی نے 9 مئی کو اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا جس طرح بنگلہ دیش کے طلبہ و طالبات نے کیا۔ یہ احتجاج ایک دن ہی جاری رہ سکتا تھا۔ اس کا ہدف ریاستی ادارے تھے۔ یہ احتجاج اسی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔پاکستان کے مسائل بھی بنگلہ دیش سے مختلف ہیں۔ بنگلہ دیش کی 90 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ وہاں دینی مدارس کا ایک بڑا نظام ہے۔ تبلیغی جماعت کے غیرمعمولی اثرات ہیں۔ اس کے باوصف ریاستی سطح پر اسے ان نظریاتی مسائل کا سامنا نہیں جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ اسی طرح وہاں اداروں میں مفادات کا وہ تصادم نہیں جو یہاں ہے۔ معیشت کے مسائل اس سے مستزاد ہیں۔ اس لیے ہمیں جو حکمتِ عملی چاہیے‘ یہ وہ نہیں ہو سکتی جو بنگلہ دیش میں اپنائی گئی ہے۔
بعض لوگ دھرنوں سے یہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ ان کے ذریعے پاکستان میں بھی وہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ اس خیال کو حقیقت بنانے کی کوشش کریں گے اور ملک کو ایک نئے بحران میں مبتلا کر دیں گے۔ اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھا گیا تھا کہ پاکستان ترکی بن سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستان‘ پاکستان ہے۔ ہمیں جو حکمتِ عملی اپنانی ہے‘ اسے مقامی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کرنا ہو گا۔
حکمتِ عملی کے باب میں ہمارے مذہبی طبقات میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ منصوص معاملہ ہے۔ یعنی یہ دین میں طے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حکمتِ عملی ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمیں اگر اصلاح کا کوئی کام کرنا ہے تو مقامی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک لائحہ عمل بنانا ہے۔ اللہ کے ہر نبی کی حکمتِ عملی اسی کا درس ہے۔ سیدنا مسیحؑ کے پیشِ نظر بنی اسرائیل کا معاشرہ تھا۔ سیدنا محمدﷺ کے سامنے عرب کی معاشرت تھی۔ بنی اسرائیل کا مسئلہ شریعت نہیں اخلاقی زوال تھا‘ شریعتِ موسوی کو تو وہ مان رہے تھے۔ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اخلاقی ابتری کو موضوع بنایا۔ اہلِ عرب کا مسئلہ بت پرستی تھا۔ سیدنا محمدﷺ نے توحید سے اپنی بات کا آغاز کیا۔
بنگلہ دیش کی تبدیلی کے ساتھ ہمیں بھارت میں آنے والی تبدیلی کو بھی سمجھنا ہو گا۔ وہاں جمہوری عمل نے مودی صاحب کے پر کاٹ دیے۔ اب ان کا وہ طنطنہ باقی نہیں رہا جو پہلے تھا۔ اگر بنگلہ دیش میں الیکشن کمیشن آزاد ہوتا‘ عدالت حکومتی جبر کے سامنے کھڑی ہو جاتی تو وہاں تبدیلی کیلئے سینکڑوں لوگوں کو جان نہ دینا پڑتی۔ بھارت میں آنے والی تبدیلی پُرامن ہے۔ بنگلہ دیش کی خون آشام۔ ہمیں بھارت کی مثال کو اپنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اداروں کی مضبوطی اسی وقت آئے گی جب وہ اپنے آئینی دائرے کا لحاظ رکھیں گے۔
بنگلہ دیش میں کل کیا ہو گا‘ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ شیخ مجیب الرحمن ڈاکٹرائن ایک الگ موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ بات ہو گی۔ مجھے صرف اپنے ہم وطنوں کو تنبیہ کرنی ہے کہ ہمیں اپنے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے مسائل سے نمٹنا ہے۔ انقلاب نہ بنگلہ دیش میں آیا ہے نہ پاکستان میں آئے گا۔ تبدیلی آسکتی ہے لیکن ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ یہ پُرامن ہو۔ پُرامن تبدیلی کیلئے ایک شرط یہ ہے کہ طاقت اور اقتدار جبر سے دور رہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ عوام سیاسی طور پر باشعور ہوں اور یہ ذمہ داری سیاسی اور فکری قیادت کی ہے کہ وہ انہیں باشعور بنائے۔