ارشد ندیم اور ناہد اسلام‘ کیا ایک ہی تبدیلی کے دو عنوان ہیں؟
آج کل پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ دو نوجوان سب سے زیادہ زیرِ بحث ہیں۔ ارشد نے اولمپکس میں طلائی تمغہ جیت کر پورے ملک کو مدت کے بعد خوش ہونے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ ناہد نے نوجوانوں کی ایک ایسی تحریک کی قیادت کی ہے جس نے فسطائیت زدہ وزیراعظم حسینہ واجد کو اقتدار ہی نہیں‘ ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ارشد ندیم نے پاکستان میں بسنے والوں کو پھر سے ایک قوم بنا دیا ہے۔ ناہد نے بنگلہ دیش کے عوام کو امید دلائی ہے کہ ملک کو ایک نیا نظام دیا جا سکتا ہے جو ان کے حسبِ خواہش ہو۔ کیا یہ مقدمہ درست ہے اور کیا دونوں کا کردار یکساں ہے؟
پہلے ارشد ندیم کی بات کرتے ہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اس کی کامیابی غیرمعمولی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ایک مدت کے بعد حقیقی خوشی کی ایک لہر دیکھی گئی۔ یہ خوشی کچھ دیر کی راحت کا سامان تو کر سکتی ہے مگر فی نفسہٖ ہمیں ایک قوم نہیں بنا سکتی۔ قوم سازی ایک دن میں ہوتی ہے نہ کسی ایک واقعے کے نتیجے میں۔ ایک واقعہ‘ تاہم یہ امکان ضرور رکھتا ہے کہ اسے قوم سازی کے لیے نقطۂ آغاز بنا لیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
ارشد کی کامیابی ایک سماجی عمل کا نتیجہ ہے۔ کھیل ثقافت کا حصہ ہے اور ثقافت اپنے اظہار کے لیے کسی ریاستی نصرت کی محتاج نہیں ہوتی۔ پنجاب کے لوگ صدیوں سے اپنے روایتی کھیل کھیلتے آئے ہیں۔ انہیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑا کہ یہاں مغلوں کی حکمرانی ہے یا انگریزوں کی‘ ہندوستان ایک ملک ہے یا دو۔ اسی طرح‘ اس کا تعلق مذہب سے بھی نہیں ہے۔ اسی پنجاب میں مسلمان‘ ہندو اور سکھ مل کر کبڈی کھیلتے آئے ہیں۔ تعصبات رنگ و نسل کے ہوں یا مذہب کے‘ اپنا اظہار کرتے ہیں مگر ثقافت کا عمل ان سے بے نیاز آگے بڑھتا ہے۔ یہ معاملہ پنجاب کے ساتھ خاص نہیں۔ ہر ثقافت‘ وہ پختون ہو یا بلوچی اور سندھی‘ اسی طرح اپنا اظہار کرتی ہے۔ ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی ماؤں نے بھی جو کچھ کہا‘ وہ دراصل اسی ثقافت سے جڑی ہوئی روایت ہے۔ اس ثقافت میں خوشیاں اور رنج سانجھے ہوتے ہیں۔ ہمارے ادب میں اس کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ دیہات میں سیاسی تبدیلیوں کے اثرات دیر سے سرایت کرتے ہیں۔ جس نسل نے متحدہ ہندوستان دیکھا ہے‘ اس کی سوچ بعد کی نسل سے مختلف ہے۔
ارشد ندیم کی کامیابی ہمیں اس جانب متوجہ کر رہی ہے کہ ثقافت لوگوں کو جمع کرتی ہے اور انہیں قریب لاتی ہے۔ کھیل ڈپلومیسی کا ایک اہم ذریعہ آج سے نہیں‘ صدیوں سے ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگوں میں زندگی کی لہر دوڑے اور وہ لطیف جذبات کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آئیں تو پھر ہمیں کھیل‘ فنونِ لطیفہ اور اس طرح کے مظاہرِ ثقافت کو زندہ کرنا چاہیے۔ وحدت کا یہ کام مذہب بھی سر انجام دیتا ہے جو روحانی بالیدگی کا باعث اور احترامِ انسایت کا علمبردار ہے۔ اس باب میں مذہب اور ثقافت‘ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اس بات کا شعور اسی وقت پیدا ہو گا جب مذہب کو ایک سماجی قوت سمجھا جائے گا نہ کہ سیاسی۔ سیاسی عمل تقسیم کرتا ہے۔ سماجی عمل جوڑتا ہے۔
پاکستان کو متحد اور مضبوط کرنے کے لیے ہمیں سماج کو زندہ کر نا ہو گا۔ اس کا مطلب مقامی ثقافتوں اور فنون اور روایات کو زندہ کرنا ہے۔ 'پاکستان‘ کی پہچان کے لیے ہم نے گمان کیا کہ پہلے سے موجود شناختوں کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک غیر فطری عمل تھا اور اور اس لیے اس کے نتائج بھی نکلے۔ تاریخ کا کوئی سیاسی حوالہ قومی اتحاد کی تلاش میں ہماری زیادہ مدد نہیں کر سکتا۔ یہی غلطی حسینہ واجد نے کی اور خود کو ایک تاریخی واقعے کا اسیر بنا لیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس کا ردِ عمل بھی اسی غلطی کو دہرانے کا سبب بنے گا۔ اس کے لیے ناہد اسلام کے کردار کو سمجھنا ہوگا جو ارشد ندیم سے مختلف ہے۔
ناہد اسلام حسینہ واجد کی فسطائیت کا ردِ عمل ہے۔ یہ ایک وقتی سیاسی عمل ہے۔ بنگلہ دیش اس طرح کی تبدیلیوں سے گزرتا آیا ہے۔ اس سے بنگالی متحد نہیں ہوئے۔ حسینہ واجد کی سیاسی عصبیت ختم نہیں ہو گئی۔ ان کے حق میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے لیے بھی سڑکوں پہ نکلے ہیں۔ ردِ عمل میں عوامی لیگ سے وابستہ افراد بھی تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ اس وقت وہاں جو عبوری نظام قائم ہوا ہے‘ اس کی آئینی حیثیت واضح نہیں۔ ملک کو آنے والے دنوں میں ایک بڑے آئینی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے حلقے میں ہم جو ردِ عمل دیکھ رہے ہیں‘ وہ قابلِ فہم ہے۔ جماعت سب سے زیادہ حسینہ واجد کے ریاستی جبر کا شکار بنی۔ اس کے لیے اس جبر سے نجات ہی بڑی کامیابی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج وہ عوامی تائید سے تنہا حکومت بھی بنا سکتی ہے۔ رہی سماجی تبدیلی تو میں بنگلہ دیش میں اس کا کوئی امکان نہیں دیکھ رہا۔
پاکستان میں جو لوگ سیاسی تبدیلی کی راہ دیکھ رہے ہیں‘ جیسے تحریک انصاف‘ تو ان کے لیے بنگلہ دیش کا ماڈل قابلِ تقلید ہو سکتا ہے۔ تاہم انہیں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ہو گی کہ یہاں ان کا سامنا کسی سیاسی جماعت سے نہیں‘ ریاست سے ہو گا۔ ریاست کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں فتح کسی کی نہیں ہوتی۔ کسی دوسری سیاسی قوت کے لیے اس ماڈل میں کچھ نہیں رکھا۔ سیاسی تحریکوں سے نظام نہیں بدلتے۔ تحریک پاکستان نظام نہیں‘ جغرافیہ بدلنے کی تحریک تھی۔ جغرافیہ بدل گیا‘ تحریک کامیاب ہو گئی۔ وہ جذبہ البتہ قابلِ تقلید ہے جس نے تقسیم کے بعد ایک نظام کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ جذبۂ عمل ہے جو بُرے حالات میں امید کا چراغ بن جاتا ہے۔
پاکستان کو ارشد ندیم ماڈل کی ضرورت ہے۔ نوجوان زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔ ریاست کا کام ان شعبوں کا تعین نہیں‘ نوجوانوں کو ان کے حسبِ صلاحیت سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس سے ایک تو ان میں مثبت اندازِ فکر پیدا ہو گا اور وہ کسی ردِ عمل کا شکار ہونے کے بجائے اپنی تعمیر میں جُت جائیں گے۔دوسرے اس سے سماج مضبوط ہو گا‘ مثبت مسابقت کا جذبہ پیدا ہو گا اور ریاست چاہے تو اس سے سفارتی فوائد بھی حاصل کر سکتی ہے۔ ارشد اور نیرج کی دوستی نے پنجاب کے دو حصوں کو قریب کیا ہے۔ اگر پنجاب میں قرب پیدا ہو تو سرحدوں پہ جنگ کے سائے چھٹ سکتے ہیں۔ اسی ماڈل کو ہم شمال مغربی سرحد پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کے مابین بھی موجود ثقافتی رشتوں کو سفارت کاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ سرحد بھی محفوظ ہو۔
سیاست ہم میں کچھ اس طرح سے رچ بس گئی ہے کہ سماج کی اہمیت ہماری نظر سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ بابر اعظم ہوں یا ارشد ندیم‘ ہر کامیابی پر ہمارے صحافی ان سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ آپ سیاست میں کب آ رہے ہیں؟ نوجوانوں کو آج سیاست میں جھونکنے کے بجائے انہیں اپنی تعمیر کا راستہ دکھانا چاہیے۔ وہ مختلف میدانوں میں اتنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور سیاست سے دور رہیں۔ جن میں سیاست کا ذوق ہے‘ وہ ضرور سیاست میں حصہ لیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے ارشد ندیم ماڈل ہی مناسب ہے۔ ہمیں ناہد اسلام ماڈل کی ضرورت نہیں۔