خود احتسابی یا دوسروں کا احتساب؟ اصلاح کا دروازہ کون سا ہے؟
مذہب جو اصلاح کا سب سے بڑا عَلم بردار ہے‘ اس کا مقدمہ یہ ہے کہ خود احتسابی ہی سے اصلاح ممکن ہے۔ احتساب کرنے والے اگر آغاز اپنی ذات سے کریں تو یہ عمل نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ جس سماج میں لوگوں کو دوسروں کے احتساب کی فکر رہتی ہو اور اس باب میں وہ خود فراموشی کا شکار ہوں‘ وہ سماج انتقام اور نفرت کا مرکز بن جاتا ہے اور اس کے احوال ابتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم آج اس کی تصویر بن چکے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کے احتساب کا مطالبہ کر رہا ہے اور اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں۔
یہ شاید صرف اسی ملک میں ہوتا ہے کہ ایک آدمی اٹھتا اور آئین کو پامال کرتا ہوا اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔ اس اقدام کے بعد وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس پیش پا افتادہ حقیقت کی طرف کسی کی نگاہ نہیں اٹھتی کہ قانون تو آئین کی فرع ہے۔ جس کے لیے آئین کسی احترام کا مستحق نہیں‘ اس سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے مصلحین‘ اصلاح کے بجائے قوم کو ایک نیا بحران دے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
پیغمبروں کا طریقۂ اصلاح یہ نہیں ہے۔ وہ سب سے پہلے خود مثال بنتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان کیا تو اپنے دعوے کے حق میں کوئی معجزہ پیش نہیں کیا۔ جب آپﷺ نے خود پر ایمان کی دعوت دی تو اس وقت ایک ہی دلیل پیش کی: میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں۔ کیا تم میں عقل نہیں؟ (یونس:16)۔ معجزے تو بعد کے ادوار میں سامنے آئے۔ دوسرے مرحلے میں‘ جو لوگ آپﷺ پر ایمان لائے‘ آپؐ نے سب سے پہلے ان کے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح فرمائی۔ جب ایک جماعت بن گئی تو اللہ تعالیٰ نے بھی دوسروں سے یہ فرمایا کہ تم ایسے ایمان لاؤ جیسے یہ ایمان لائے ہیں (البقرہ: 13)۔
سیدنا مسیحؑ نے بھی لوگوں کو یہی درس دیا کہ اصلاح کا علمبردار بننے کے لیے لازم ہے کہ پہلے اپنی عملی مثال پیش کی جائے۔ بنی اسرائیل کے مصلحین اور مبلغین کا طرزِ عمل بھی یہی تھا کہ دوسروں پر شریعت کے نفاذکے لیے ہر لمحہ کوڑا اٹھائے پھرتے تھے مگر اپنی ذات پر اس کے نفاذ کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی لیے حضرت عیسیٰ ؑ نے انہیں سفیدی پھری قبروں کی مانند قرار دیا۔ ان کے عہد میں جب لوگوں نے بدکرداری کے جرم میں ایک خاتون کو سنگسار کرنا چاہا تو سیدنا مسیحؑ نے فرمایا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔
پاکستان میں اقتدار پر فائز طبقات کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے احتساب کے لیے آئین اور قانون کی لاٹھی اٹھا لیتے ہیں مگر اپنی اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ ہمیشہ اس جماعت سے وابستہ لوگوں کا احتساب ہوتا ہے جو حزبِ اختلاف میں شامل ہو۔ جو حکومتی اتحادی بن جائے‘ وہ احتساب سے بچ جاتا ہے۔ ہم برسوں سے اسی عمل سے گزر رہے ہیں اور ہماری اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اصلاح کا کوئی علمبردار سیاسی ہو یا غیر سیاسی‘ کسی کو کوئی استثنا نہیں ہے۔ جو سب سے بڑا مصلح بنا‘ اس کا طرزِ عمل سب سے زیادہ مایوس کن رہا۔ ہر برسرِ اقتدار گروہ نے کرپشن دوسروں میں تلاش کی اور اپنے دامن کو جھاڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔
آج پھر شور ہے کہ فلاں نے اپنے آئینی کردار سے تجاوز کیا۔ فلاں نے فلاں وقت‘ غیر قانونی قدم اٹھایا۔ آج گزرے ایام کا حساب لیا جا رہا ہے۔ اگر یہ تسلسل برقرار رہا تو احتساب صرف ماضی کا ہو گا۔ کل کا احتساب آج ہو گا اور آج کا احتساب اس وقت ہوگا جب یہ کل میں ڈھل جائے گا۔ میں عرض کر چکا کہ یہ عمل نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ احتساب اسی وقت مؤثر ہو گا جب خود احتسابی سے اس کا آغاز ہو گا۔ نبیﷺ نے جب حجۃ الوداع کے موقع پر سود کے خاتمے کا اعلان فرمایا تو کہا کہ سب سے پہلے وہ اپنے چچا حضرت عباسؓ کے سود کی معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ آیات اور احادیث جو ہم دوسروں کو سناتے ہیں‘ سب سے پہلے ان کا مخاطب ہم خود ہیں اور یہی بات ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ریاست میں کسی کو احتساب کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تو وہ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرے۔ ہر ادارے اور ریاست میں عدالت کا ایک نظام موجود ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ ان کو اپنا کام قانون کے مطابق سرانجام دینا ہے‘ تاہم اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ منصف خود ان جرائم کا مرتکب نہ ہوا ہو جن کا وہ فیصلہ کرنے بیٹھا ہے۔ بصورتِ دیگر ایک فیصلے کا سماج پر جو اخلاقی اثر پڑنا چاہیے‘ وہ نہیں پڑتا۔ جرم کی سزا اس لیے ہوتی ہے کہ آئندہ اس کا دروازہ بند کیا جا سکے۔ گویا سماج اس کا اخلاقی اثر قبول کرے۔ اگر یہ نہ ہو تو عدالتیں کچہری بن جاتی ہیں اور لوگ ا نصاف کی طلب میں برسوں دھکے کھاتے ہیں۔
پاکستان میں احتساب کا ہر عمل مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اس میں انتقام اور ذاتی مفادات کی کار فرمائی دیکھتے ہیں۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو خود احتسابی کو اپنی ترجیح بنائے۔ کوئی آئے جو کہے کہ میں سب سے پہلے اپنے آپ‘ اپنی جماعت‘ اپنے رفقا اور ادارے کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔ پہلے ہمارا احتساب ہو گا‘ اس کے بعد دوسروں کا۔ جس دن کسی نے یہ قدم اٹھا لیا‘ پاکستان کے ریاستی اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتبار قائم ہو جائے گا۔ خلافتِ راشدہ کو 'راشدہ‘ اسی لیے کہا گیا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ قانون نافذ کرتے وقت اپنوں کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔
آج آئین کی حکمرانی کی بات وہی کرے جو خود آئین کا احترام کرتا ہو۔ قانون کی حکمرانی کا عَلم وہی اٹھائے جو قانون کی پاسداری کرتا ہو۔ احتساب وہی کرے جو خود احتسابی پر یقین رکھتا ہو۔ یہ نصیحت ہر فرد کے لیے ہے۔ وہ صاحبِ اقتدار ہے یا صاحبِ قلم۔ خطیبِ منبر ہے یا عاملِ ریاست۔
پاکستان میں ہم نے طویل عرصہ 'اسلام نافذ کرو‘ کی تحریک برپا کیے رکھی۔ مقدمہ یہ تھا کہ اسلام کا نفاذ ریاست کا فریضہ ہے۔ ریاستی اور قانونی سطح پر اسلام نافذ ہو گیا مگر سماج اس کی برکتوں سے محروم رہا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ ہم دوسروں پر اسلام نافذکرنے کا مطالبہ کرتے رہے مگر خود کو اسلام کے احکام کا مخاطب نہیں بنایا۔ آج بطور قوم ہمیں ایک بنیادی سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایک طرف عوام کو مطالبے کی نفسیات سے نکلنا ہو گا اور دوسری طرف ریاست کو ماضی کے بجائے آج سے احتساب کا آغاز کرنا ہو گا۔ سیاسی تبدیلی کا پہلا قدم سماجی تبدیلی ہے۔ ہم پہلا قدم اٹھائے بغیر یہ چاہتے ہیں کہ دوسرا قدم اٹھا لیں۔ یہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
جن ملکوں میں احتساب کا عمل سیاسی عمل سے جدا ہے‘ وہاں ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد قائم ہے۔ ہم اس مرحلے سے ابھی نہیں گزرے۔ ہمارے ریاستی ادارے سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ احتساب کے عمل کی شفافیت اسی وقت قائم ہو گی جب ہم بھی انہیں جدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم نے یہ منزل ابھی سر کرنی ہے۔