ہم احتجاج کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ایک اور سوال کا جواب لازم ہے: ہم احتجاج کس کے خلاف کرتے ہیں؟ مجھے معاف کیجیے کہ اس سے بھی پہلے ایک اور سوال جواب طلب ہے: ہمارے احتجاج سے کون ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے؟
آخری سوال کا جواب سب سے پہلے۔ یہ عام آدمی ہے جو احتجاج سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ دو دن پہلے میں شام کو اسلام آباد سے گھر کے لیے نکلا‘ جو راولپنڈی میں ہے‘ تو معلوم ہوا کہ شہر میں چار گروہ احتجاج کر رہے ہیں۔ دونوں شہروں کو ملانے والی مرکزی سڑکیں گاڑیوں سے اَٹی پڑی تھیں۔ میں نے ہوشیاری دکھائی اور ایک ایسا راستہ تلاش کیا جو کم استعمال ہوتا ہے۔ اس طرف کا رُخ کیا تو معلوم ہوا کہ اس شہر میں مجھ سے زیادہ ہوشیار لوگ بھی ہیں اور وہ بہت زیادہ ہیں۔ جو فاصلہ معمول میں پندرہ منٹ میں طے ہوتا ہے وہ ایک گھنٹہ اور پندرہ منٹ میں طے ہو سکا۔ ذرا وقت اور پٹرول کے ضیاع کا اندازہ کیجیے اور یہ سوچئے کہ اس احتجاج نے عام آدمی کو کتنا متاثر کیا ہو گا۔
اب دوسرے سوال کی طرف آئیے۔ کیا یہ احتجاج عام آدمی کے خلاف تھا؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ نفی میں ہے۔ اگر احتجاجی گروہوں کا ہدف یہ عام آدمی نہیں ہے تو اسے اس کوفت اور نقصان میں کیوں مبتلا کیا گیا؟ احتجاج کرنے والوں کو یہ حق کس مذہب‘ اخلاقی ضابطے اور کس قانون کے تحت حاصل ہے؟ عام آدمی کے اس نقصان کی تلافی کیسے ہو گی اور کون کرے گا؟ میں پورے وثوق کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ راستہ بند کرنا ہر مذہبی ضابطے کے تحت گناہ ہے اور ہر قانونی نظام کے تحت جرم ہے۔ وہ جمہوریت جس کے سوئے استعمال کو سادہ لوحی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘ وہ جمہوریت بھی راستہ بند کرنے کو جائز نہیں سمجھتی۔
اکثر احتجاج حکومتوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ راستہ بند کرنے سے حکومتوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عام طور پر یہ احتجاج پسند اُن علاقوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے جہاں اہلِ اقتدار بستے ہیں۔ ایسے علاقوں کو قانون میں 'ریڈ زون‘ قرار دے کر اس طبقے کو محفوظ بنایا جا چکا ہے جس کے خلاف بالعموم احتجاج ہوتا ہے۔ یہ اسلام آباد جانا چاہتے ہیں تو انہیں فیض آباد روک لیا جاتا ہے۔ اکثر یہاں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ احتجاج پسندوں کا زور عام آدمی ہی پر چلتا ہے۔ اس طرح عام آدمی کو مسلسل اذیت میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں احتجاج پسندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مذہب ہو یا سیاست‘ ہر عنوان سے راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ان احتجاج پسندوں میں ذہنی طور پر کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں ہوا کہ وہ احتجاج کے لیے کوئی نیا اسلوب تلاش کر لیتا۔ ایسا اسلوب کہ اس کے اقدام سے صرف وہ طبقہ متاثر ہو‘ جس کے خلاف وہ صدائے احتجاج بلند کرنا چاہتا ہے۔
بعض مطالبات جائز ہوتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ راستہ بند کرنے سے ان کا حل ممکن نہیں۔ لوگ پھر بھی ان کے لیے سڑکیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم ہے۔ بلاشبہ اسرائیل نے بربریت کی ایسی مثال قائم کر دی ہے کہ انسانیت اس ظلم پر اور اس ظلم کے سرپرستوں پر ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ 15افراد کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک کو بند کرنے سے کیا یہ ظلم ختم ہو جائے گا؟ اس سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟ امریکہ کے شہری اگر اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو یہ قابلِ فہم ہے کہ امریکہ اس ظلم کا سرپرست ہے۔ پاکستان کی حکومت یا عوام تو اس ظلم میں ملوث نہیں۔ ان کو کس بات کی سزا دی جاتی ہے؟ فلسطینیوں کے لیے ہم وہی کچھ کر سکتے ہیں جو الخدمت جیسی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ عام آدمی ان کو وسائل فراہم کر کے ان فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے میں ان تنظیموں کا معاون بن سکتا ہے۔ احتجاج پسند طبیعت مگر یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
قومیں کبھی احتجاج سے نہیں بنتیں۔ قوم سازی کا راستہ ہمیشہ تعمیری کوششوں سے نکلتا ہے۔ احتجاج پسند قیادت نے مذہب اور سیاست کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں احتجاج کی مطلق نفی نہیں کی جا رہی۔ احتجاج اور احتجاج پسندی میں فرق ہے۔ احتجاج ایک عمومی رویہ نہیں ہو سکتا۔ زندگی میں کبھی کبھار احتجاج کیا جا سکتا ہے مگر اسے حکمتِ عملی کا مستقل حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر یہ روزمرہ بن جائے تو یہ احتجاج پسندی ہے۔ اس گروہ کے مقدر میں خسارے کے سوا کچھ نہیں جس کی قیادت احتجاج پسند ہو۔ پھر یہ کہ اگر کبھی کبھار احتجاج کی ضرورت پڑے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ عام آدمی کا راستہ روک دیا جائے۔ اس کے لیے اور راستے بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت‘ واقعہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر بانجھ ہو چکی ہے۔ اس کے خیالات میں کوئی ندرت ہے نہ اس کی حکمتِ عملی میں۔ اس ندرت کا اگر کسی نے مظاہرہ کیا تو وہ صرف تحریک انصاف ہے۔ اس کی حکمتِ عملی جس نے بھی بنائی‘ اس نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ان امکانات کو بروئے کار لایا جائے جو ابلاغ کے جدید ذرائع نے پیدا کر دیے ہیں۔ اگر اس کے بانی راہنما کا مزاج سیاسی ہوتا تو وہ آج بھی ان امکانات کو مثبت انداز میں اپنے حق میں استعمال کرتے۔ میں ان کی ہیجانی سیاست پر بہت لکھ چکا اور اس وقت یہ میرا موضوع بھی نہیں۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ لوگوں کی سوچ بدلنے میں اس جماعت کے پالیسی سازوں نے ندرت کا مظاہرہ کیا۔
یہ ا حتجاج پسندی اب سیاسی سے زیادہ ایک سماجی مسئلہ بن گئی ہے۔ اس نے سماج کو مسلسل اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ معمول کی زندگی برقرار نہیں رہ سکتی۔ اگر ہر روز ایک نہ ایک گروہ سڑکیں بند کیے بیٹھا ہو گا تو کوئی طالب علم اپنے سکول‘ کالج پہنچ سکے گا اور نہ کوئی شہری اپنے دفتر۔ زندگی مفلوج ہو جائے گی۔ اس لیے یہ آکسیجن اور پانی کی طرح ضروری ہو چکا ہے کہ اس احتجاج پسندی سے نجات حاصل کی جائے۔ اگر کبھی کبھار احتجاج کیا بھی جائے تو اس کے آداب ہونے چاہئیں۔ پہلا ادب یہ ہے کہ راستے کسی صورت بند نہیں ہوں۔ آج پندرہ افراد جب چاہیں سڑک بند کر دیں اور پورے شہر کو مفلوج بنا دیں۔ دو منٹ کے لیے اشارے پر ٹریفک رکتی ہے اور گاڑیوں کا لامتناعی سلسلہ وجود میں آ جاتا ہے۔ انتظامیہ کے بارے میں مَیں لکھ چکا کہ اس میں یہ صلاحیت باقی نہیں کہ وہ اس قلیل تعداد کو بھی منتشر کر سکے۔
''احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘‘ ایک بے معنی نعرہ ہے‘ اگر کوئی معاشرے جمہوری تقاضوں سے آشنا نہیں ہے۔ ہر حق ذمہ داری کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ جو اپنی ذمہ داری سے واقف نہیں وہ حق کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا۔ کرے گا تو لازماً کسی دوسرے کی حق شکنی کی بنیاد رکھے گا۔ میری اس ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت سے درخواست ہے کہ وہ قوم میں مثبت اندازِ نظر پیدا کریں اور اس کو تعمیر کی راہ دکھائیں۔ اگر وہ احتجاج سے باز نہیں رہ سکتے تو پھر اس کا کوئی نیا طریقہ تلاش کریں‘ عوام کا راستہ بند نہ کریں۔ یہ مذہب اور اخلاق کی نظر میں گناہ اور قانون کی نگاہ میں جرم ہے۔