''مجھے لاہور میں کچھ علما سے ملنا ہے۔ ان کی نشان دہی میں میری مدد کیجیے‘‘۔
اس بار لاہور جانا ہوا تو میں نے اپنے ایک دوست سے درخواست کی‘ جو علم دوست بھی ہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ چند منٹ کے غورو خوض کے بعد انہوں نے مایوسی اور نفی میں سر ہلایا۔ کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہے۔ یہ خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ یہ سوال میں نے بعض دیگر احباب کے سامنے بھی رکھا۔ سب کا جواب ایک ہی طرح کا تھا۔
یہ مطلق نفی کا اظہار نہیں تھا۔ لاہور میں بہت سی درسگاہیں ہیں۔ یقینا پڑھے لکھے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مدارس کے علاوہ ہر جامعہ میں شعبہ علومِ اسلامی موجود ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں ویرانی ہی ویرانی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شیخ زاید اسلامک سنٹر ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حماد لکھوی ایک ذی علم شخصیت ہیں۔ اس اعتراف کے باوصف اہلِ علم نے میرے سوال کے جواب میں سکوت کیوں اختیار کیا؟
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کسی شہر کا تعارف ہوتے ہیں۔ ان کے علم و فضل کا اعتراف ہر سُو ہوتا ہے۔ ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ وہ شہر کا تعارف بن جاتے ہیں۔ لاہور کو شہرِ اقبال کہا جاتا ہے۔ یہ لاہور کا امتیاز بن گیا کہ علامہ اقبال جیسی شخصیت نے زندگی کا ایک بڑا حصہ یہاں گزارا اور پھر یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ اہلِ ایران انہیں اقبال لاہوری کہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ شہر بعض اوقات تاریخ کا حصہ بن کر یادوں سے محو ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی علمی شخصیت کے نام کا حصہ بن جائیں تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ جالندھر پاکستان کا حصہ نہیں مگر پاکستانی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کے نام کا لاحقہ ہے۔ اب یہ اہلِ پاکستان کی یادداشت کا مستقل حصہ ہے۔
یہ بھی لاہور کا ایک امتیاز ہے کہ یہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا شہر ہے۔ وہ اگرچہ یہاں کے نہیں تھے مگر وہ پاکستان بننے سے پہلے لاہور آگئے تھے۔ تادمِ مرگ وہ یہیں رہے اور اب اُن کی آخری آرام گاہ بھی یہیں پر ہے۔ یہ بھی لاہور کا ایک اعزاز ہے کہ یہ اس عہد کے سب سے بڑے مفسرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کا شہر ہے۔ مولانا احمد علی لاہوری بھی اس شہر کا تعارف تھے۔ مفتی محمد حسین نعیمی تھے۔ غلام احمد پرویز تھے۔ میں ماضی بعید کے اوراق نہیں پلٹنا چاہتا کہ بات سید علی بن عثمان ہجویریؒ تک جا پہنچے گی۔ مجھے تو اس دور کی بات کرنی ہے۔ ماضی قریب کی۔
دو تین عشرے پہلے تک یہ شہر بڑے علما اور سکالرز کا مسکن تھا۔ میں جب لاہور میں تھا تو ڈاکٹر اسرار احمد یہاں موجود تھے۔ واصف علی واصف تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادر ی تھے۔ مفتی غلام سرور قادری تھے۔ استادِ گرامی جاوید احمد غامدی تھے۔ یہ حضرات لاہور میں تھے لیکن ان کی علمی شہرت لاہور کی حدود میں قید نہیں تھی۔ دور دور تک لوگ حسبِ ذوق و توفیق ان سے استفادہ کرتے تھے۔ تشنگانِ علم اس شہر میں آتے تو انہیں کسی سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں کہاں جانا ہے۔
اب مگر ایسا نہیں ہے۔ کچھ اپنا کام کر کے رخصت ہوئے مگر ان کی نشست خالی رہ گئی۔ ان کی جگہ لینے والا کوئی نہ تھا۔ علامہ اقبال سے سید مودودی تک‘ ایک طویل حسرت آمیز داستان بکھری ہوئی ہے۔ وہی داستان جس کا ایک باب قیامِ پاکستان بننے سے پہلے لکھا گیا۔ سر سید اور شبلی کے بعد جب حالی بھی رخصت ہوئے تو اقبال درد سے تڑپ اٹھے:
خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار
سرمایہ گداز تھی جن کی نوائے درد
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالی بھی ہوگئے سوئے فردوس رہ نورد
کچھ وہ ہیں جو یہ شہر ہی نہیں‘ یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ جیسے جاوید احمد غامدی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کیسا بڑا پتھر انہیں اپنے دل پر رکھنا پڑا۔ ان کا مسئلہ محض اتنا نہیں تھا کہ ان کی اکیلی جان خطرے میں تھی۔ وہ جس محلے میں رہتے‘ جس مسجد میں نماز پڑھتے‘ وہاں کے مکین اور نمازی خوف کا شکار ہو جاتے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وجہ سے اور لوگ بھی خطرات میں گھر جائیں۔ بادلِ نخواستہ ملک چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بارے میں مَیں نہیں جانتا کہ وہ کیوں ملک سے گئے مگر میں یہ اندازہ کر سکتا ہوں کہ انہوں نے بھی خوشی سے یہ فیصلہ نہیں کیا ہو گا۔
یہ دو اسباب ہیں جن کے باعث شہرِ لاہور اہلِ علم سے خالی نظر آنے لگا ہے۔ ایک یہ کہ قانونِ فطرت کے مطابق اہلِ علم کی نشست خالی ہوئی تو اس پر بیٹھنے والا کوئی نہیں تھا۔ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ ملک کی فضا اہلِ علم کیلئے سازگار نہیں رہی۔ انتہا پسندی نے ہمیں گھیر لیا۔ غامدی صاحب جیسے لوگوں کو ملک چھوڑ نا پڑا۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ لاہور جیسے شہر میں جا کر اہلِ علم کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی مایوسی ہوتی ہے۔
یہ سماجی اشاریے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ایک معاشرہ کیسے زوال کے راستے پر دوڑ رہا ہے۔ علم کی دنیا میں مسئلہ غلط یا صحیح کا نہیں ہوتا۔ ختمِ نبوت کے بعد تو یہ سراسر دلیل کا معاملہ ہے کہ اب کوئی وحی کی زبان میں خطاب نہیں کرتا۔ یہ باب اللہ کے آخری نبی اور رسول سیدنا محمدﷺ کے ساتھ بند ہوا۔ اب جو کچھ کہے گا‘ لکھے گا‘ اسے دلیل کی بنیاد پر قبول یا ردّ کیا جائے گا۔ اس لیے مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے درست بات کہی اور کس کا مؤقف غلط تھا۔ مسئلہ اتنا ہے کہ علمی سرگرمی جاری ہے۔ اس کا جاری رہنا اور اس کے لیے فضا کا سازگار ہونا ہی اس بات کی شہادت ہے کہ علم زندہ ہے اور نتیجتاً معاشرہ بھی۔
بنو عباس کا دور علمی اعتبار سے ہماری تاریخ کا سب سے درخشاں عہد سمجھا جاتا ہے۔ اسکا سبب یہ ہے کہ اس دور میں علم زندہ تھا۔ ایک سے زیادہ تفسیری‘ کلامی اور فقہی مکاتب موجود تھے۔ اس نے مسلم علمی روایت کو مالا مال کر دیا‘ ہم آج بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔ اگر اس وقت اختلاف کی بنیاد پر بات کہنے سے روک دیا جاتا تو لوگ ہجرت پر مجبور ہو جاتے۔ اگر علمی روایت زندہ نہ ہوتی تو امام ابوحنیفہؒ کی مسند خالی ہی رہتی جیسے شبلی کی جگہ ہمیشہ خالی رہی۔ جیسے اقبال و مودودی کی علمی وراثت کا کوئی جانشین اگلی نسل میں پیدا نہ ہوا۔ لاہور جاکر اس بات کا احساس بہت شدید تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بارہا علما کو جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں آتے اور میزبان کو مہمان کی تعظیم کرتے دیکھا ہے۔ مولانا سعید الرحمن علوی صاحب سے وہیں ملا۔ مولانا ملک عبدالرؤف سے ایک قلبی تعلق اسی وجہ سے پیدا ہوا کہ ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ لوگ اختلاف کے باوصف ملتے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
اگر معاشرے کو زندہ کرنا ہے تو پھر اس فضا کو بھی زندہ کرنا پڑے گا۔ علمی اختلاف کو جگہ دینا پڑے گی۔ علم کے اختلاف کو سماجی تعلقات سے الگ رکھنا ہو گا۔ اختلاف میں ضال و مضل کے فتوؤں کے بجائے شائستگی اور استدلال سے بات کرنا پڑے گی۔ مولانا مودودی جیسے لوگ شدید اختلاف کے باوجود فتویٰ نہیں دیتے تھے۔ میں آج مولانا زاہد الراشدی اور مفتی محمد زاہدکو دیکھتا ہوں جو اسلاف کے اس علمی رویے کے وارث ہیں۔ اسے ایک دو افراد تک محدود نہیں ہو جانا چاہیے۔ پاکستان کو زندہ کرنا ہے تو معاشرے کو زندہ کر نا ہو گا۔ یہ کام حکومت سے زیادہ خود اہلِ علم کے کرنے کا ہے۔ اگر کوئی صاحبِ علم ہجرت پر مجبور ہوتا ہے تو دوسرے صاحبانِ علم کو آکر اس کے گھوڑے کی لگام تھام لینی چاہیے۔ میں لاہور سے اسی خواہش کے ساتھ لوٹا ہوں۔