حادثہ در حادثہ۔ کیا ہمارا مقدر یہی ہے؟ کیا ہمارے نصیب میں کوئی کامیابی نہیں؟ بیت اللہ سے عام مساجد تک‘ ہر جگہ دعا مانگنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مستجاب الدعوات ہو؟
ایک سال سے فلسطین کا مقتل آباد ہے۔ اب اس کا دائرے وسیع ہو کر لبنان اور ایران تک پھیل چکا۔ محض ایک برس میں فلسطینیوں اور مسلمانوں کو جتنا جانی اور مالی نقصان ہوا‘ شاید ماضی میں اس کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ 40 ہزار اموات تو سب مان رہے ہیں‘ اصل تعداد صرف خدا جانتا ہے۔ آبادیاں کھنڈرات میں بدل گئی ہیں جس میں ایک نسل کا مستقبل بھی دفن ہو گیا ہے۔
جہاں جہاں آگ برس رہی ہے‘ وہاں وہاں مسلمانوں کی بستیاں ہیں۔ ایران تو ملک ہی مسلمانوں کا ہے۔ لبنان کا وہ حصہ جو بربادی کی داستان سنا رہا ہے‘ حزب اللہ کا علاقہ تھا۔ غزہ میں مسلمان آباد تھے۔ اسماعیل ہنیہ سے لے کر حسن نصراللہ تک‘ خطے میں مسلمانوں کے بڑے راہنما اس آگ کا ایندھن بن گئے۔ دوسری طرف اسرائیل کو ابھی تک کوئی قابلِ ذکر زخم نہیں لگا۔ اس کے شہر اسی طرح آباد ہیں جیسے پہلے تھے۔ اس کی کوئی بستی کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہوئی۔ 40 ہزار کے مقابلے میں اس کے چند شہری کام آئے۔ سوال اٹھنا چاہیے کہ جنہوں نے اس بھوسے کے ڈھیر کو دیا سلائی دکھائی‘ کیا ان کا عقل و حکمت کے ساتھ کوئی تعلق تھا؟ کیا مسلمانوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ انہیں ایک خود کش قوم بننا ہے؟
وہ وقت کب آئے گا جب ہم خود احتسابی کریں گے؟ کب ہم اپنی لگام جذبات کے بجائے عقل کے ہاتھ میں دیں گے؟ کب ہم خودکشی کے بجائے زندگی کی طرف لوٹیں گے؟ آخر ہم نے کیوں یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے صرف مرنا اور برباد ہوناہے؟ ہم نے کب اس قیادت سے نجات پانی ہے جس نے ہمیں صرف اور صرف بربادی کا تحفہ دیا ہے؟
جب یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ دکھ کے لمحوں میں یہ سوال مناسب نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی مناسب ترین وقت ہے‘ جب ان سوالات پر غور کیا جائے۔ تازہ زخم لگا ہو تو اس وقت علاج کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اور پھر اس روش کے ساتھ تو وہ وقت کبھی نہیں آنا جب ہم آرام سے بیٹھ کر ان سوالات پر غور کر سکیں گے۔ اس حکمتِ عملی کے ساتھ وہ وقفۂ امن ہمیں نصیب نہیں ہونے والا اور ہم اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کے روا دار بھی نہیں ہیں۔ اس لیے ان سوالات پر اسی وقت غور کرنا ہوگا‘ کوئی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر۔ ہمیں ان حادثات کو روکنا ہے جو ہمارے تعاقب میں ہیں۔ ہم نے دشمن کو جواز فراہم نہیں کرنا کہ وہ بار بار ہم پہ چڑھ دوڑے۔ ہمارے لوگوں کو قتل کرے اور ہماری بستیوں کو تاراج کرے۔
احد کی جنگ‘ نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے سخت پریشانی اور صدمے کا باعث تھی۔ 70 صحابہ کی شہادت کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا۔ دوسری طرف ایک جیتی ہوئی بازی پلٹ گئی تھی۔ اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے انتظار نہیں کیا کہ مسلمان اس کیفیت سے نکلیں تو وہ اس پر تبصرہ فرمائیں۔ حکمتِ خداوندی یہی تھی کہ تنبیہ کرنے کا سب سے مناسب وقت یہی ہے۔ فرمایا: ''اور تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگِ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریقِ مخالف) پر پڑ چکی ہے۔ اے نبی! ان سے کہو‘ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘(آل عمران: 165)۔ اللہ تعالیٰ نے زخموں پر اپنی رحمت کا مرہم رکھا لیکن ساتھ غلطی پر متنبہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔ مخالفین کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ وہ بڑے ظالم ہیں۔
مسلمانوں پر اس لیے لازم ہے کہ وہ اس موقع پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ گزشتہ ایک سال میں فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں پر جو عذاب ٹوٹا ہے‘ اس کے محرکات کیا ہیں؟ جنگ کا عَلم لہرا کر ہم نے کیا کیا کھویا؟ اس کے لیے سب سے مناسب فورم او آئی سی کا ہے۔ اس کا بے حسی کو چھوتا ہوا تساہل ہمارے سامنے ہے لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا فورم نہیں جہاں ہم مل بیٹھیں۔
اس بات کی تکرار کہ اسرائیل ظالم ہے اور اس کے خلاف اسلام آباد اور تہران میں مظاہروں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسرائیل کے ظلم پر مہذب لوگوں میں دوسری کوئی رائے نہیں۔ پاکستان میں سو فیصد لوگ اسرائیل کو ظالم مانتے ہیں۔ یہاں کسی مظاہرے کا فلسطینیوں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ مجھ پر کبھی اس کی حکمت واضح نہیں ہو سکی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل کسی ردِ عمل کے خوف سے بے نیاز بستیوں کو بر باد کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امریکہ جیسی بڑی قوت اس کی پشتی بان ہے۔ یورپ کی حکومتیں بھی اس کے ساتھ ہیں۔ روس بھی زیادہ مخالف نہیں۔ چین کی مخالفت بھی زبانی کلامی ہے۔ مسلمانوں میں اتنی سکت نہیں کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ یہ حقائق کیا فلسطینیوں‘ ایران اور حزب اللہ کی قیادت کو معلوم نہیں؟
کہا جاتا ہے قومیں آزادی کے لیے صدیوں لڑتی ہیں۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ سوال حکمتِ عملی کا ہے: وہ لڑتی کیسے ہیں؟ بغیر تیاری کے میدان میں چھلانگ لگا دیتی ہیں؟ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے خود کو بطور تر نوالہ دشمن کو پیش کر دیتی ہیں؟ جن قوموں نے آزادی کی جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی ہے‘ ان کی حکمتِ عملی کیا یہی تھی؟ آتشِ نمرود میں بے خطر وہی کود سکتا ہے جس کی پشت پر خدا کا حکم اور اس کی تائید کھڑی ہوتی ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا پروانہ موجود ہے؟ اگر ہوتا تو یہ مسلسل شکست کیوں ہوتی؟
مسلمانوں کو آج ایک ایسی قیادت کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے جو انہیں خود کشی کے راستے سے ہٹا کر زندگی کے راستے پر ڈالے۔ جو انہیں ایسی حکمتِ عملی دے جس میں ایک باب کامیابی کا بھی ہو۔ موت کو گلیمرائز کرنے کے بجائے انہیں زندگی کا پیغام دے۔ ایسی حکمتِ عملی جس میں اگر کوئی جان جائے تو رائیگاں نہ جائے۔ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں گھس کر شہید کیا گیا۔ حسن نصراللہ کو ان کے مرکز میں قتل کیا گیا۔ یہ زندگیاں اس لیے نہیں تھیں کہ انہیں ضائع کر دیا جائے۔ ہمیں وہ حکمتِ عملی چاہیے جو انہیں بچا سکے۔
اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عرب قیادت اس معرکہ آرائی سے غیر متعلق کیوں ہے؟ صرف یہ جواب کافی نہیں کہ مسلمان حکمران بے حس ہیں۔ ان کی اولیں ذمہ داری اپنے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہ اپنے عوام کو ایسی آگ میں نہیں جھونکنا چاہتے جس کی آنچ ان کے دامن کو جلا دے۔ وہ دوسرے مسلم ملکوں کی مدد کرتے ہیں۔ جیسے پاکستان کی معیشت کو ہر مشکل میں سہارا دیا ہے۔ انہوں نے ایک وقت تک اہلِ فلسطین کی بھی مدد کی۔ اب جو حکمتِ عملی حماس نے اپنائی ہے‘ وہ خود کو اس سے متفق نہیں پاتے۔ حماس کی قیادت کو یہ بات معلوم تھی کہ عرب خود کو جنگ میں جھونکنے کے لیے تیار نہیں۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینیوں کو مقتل میں دھکیلنے کی کوئی دلیل سمجھ میں نہیں آتی۔
اس وقت عرب قیادت کو کوسنے سے کچھ نہیں ملنے والا۔ کوئی ایک مسلم ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مسلمان قیادت کو سوچنا ہے کہ انہیں مقتل آباد کرنے ہیں یا بستیاں؟ علم اور وسائل کے بغیر کوئی معرکہ لڑنا ممکن نہیں۔ ابھی وقت ہے کہ ایک نئی حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ جو قومیں صدیوں آزادی کی جنگ لڑتی ہیں وہ پہلے خود کو اس قابل بناتی ہیں۔ صرف دعاؤں سے اور جذبات سے کوئی جنگ نہیں لڑی جاتی۔