کیا پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا؟
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پارلیمان ایک ایسی جماعت کی یرغمال بن گئی جس کے پاس صرف آٹھ نشستیں تھیں۔ اکثریت رکھنے والی جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت صبح وشام مولانا فضل الرحمن کی قدم بوسی کے لیے حاضری دیتی رہی جن کی جماعت‘ جمعیت علمائے اسلام کے پاس کل تیرہ نشستیں تھیں۔ آٹھ وہ نشستیں جن پر اس کے نمائندے عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ کوچۂ رقیباں میں ایسے لوگ بھی سر کے بل جاتے دیکھے گئے جنہوں نے مولانا کوکبھی ان کے اصل نام سے پکارنا گوارا نہ کیا۔ مولانا کی سیاسی بصیرت کی داد اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ جس نظام میں اکثریت اقلیت کی محتاج ہو جائے‘ کیا اسے جمہوری کہا جا سکتا ہے؟
ہم نے صدارتی نظام بھی دیکھا۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کو صدارتی ہی کہنا چاہیے کہ سب نے عوام سے ووٹ لیے۔ اسمبلیاں بھی وجود میں آئیں۔ آپ ان انتخابات کو اگر 'جعلی‘ کہیں گے جن میں ان حضرات کا انتخاب کیا گیا تو پھر آپ کو اپنی تاریخ سے 'اصلی‘ انتخابات بھی دکھانا پڑیں گے اور یہ ایسا چیلنج ہے جس کو قبول کرنے پر شاید کوئی آمادہ نہ ہو۔ صدارتی نظام کا یہ تجربہ بھی اگر کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا تو کیا ہمیں کسی اور نظام کی طرف رجوع کر نا چاہیے؟
اس سوال کے دو جواب ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسئلہ نظام کا نہیں‘ افراد کا ہے۔ دنیا میں پارلیمانی نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے‘ جیسے برطانیہ! جہاں صدارتی نظام ہے وہاں بھی نظام سے لوگوں کو زیادہ شکایات نہیں‘ جیسے امریکہ! اگر نظام کو چلانے والے ہاتھ صاف ہوں تو نظام کوئی بھی ہو‘ کامیابی سے چلایا جا سکتا ا ور اس سے خیر کشید کیا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ کوئی اپنی مرضی یا طاقت سے مسط نہ ہو جائے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاں جمہوری روایات مستحکم نہ ہوں وہاں افراد پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی ایسے نظام کو اپنانا چاہیے جس میں مداخلت کا امکان کم سے کم ہو اور اس بات کا احتمال بھی نہ ہو کہ اقلیت اکثریت کو یرغمال بنالے اور اس پر اپنے فیصلے مسلط کرے۔ نظام ہی میں مسائل کا سدِباب ہو۔
ان دونوں باتوں میں وزن ہے۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ پاکستان کے خاص حالات میں کون سا حل بہتر ہو سکتا ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ معاملہ محض اہلِ سیاست کا نہیں ہے۔ ہمیں جس بحران کا سامنا ہے‘ اس میں ریاست کے دیگر ادارے بھی حصہ دار ہیں۔ عدلیہ ان دنوں بطورِ خاص زیرِ بحث ہے۔ شکایت یہ ہے کہ عدالتی تحرک (Judicial Activism) نے عدالت کو پارلیمان کا متبادل ادارہ بنا دیا جہاں قانون سازی ہونے لگی اور حاشیے کے نام پر نیا متن لکھا جانے لگا۔ اس کا حل بھی ہم نے یہ نکالا کہ آئین میں تبدیلی لا کر عدلیہ کی مبینہ من مانی پر قابو پایا جائے۔
اب تجربہ یہ بتاتا ہے کہ افراد اگر ذمہ دار نہ ہو ں تو نظام کوئی بھی ہو‘ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ کل طاقت کا پلڑا اگر عدلیہ کی طرف جھکا ہوا تھا تو آج پارلیمان کی طرف جھک گیا۔ کل پارلیمان سے شکایات پیدا ہوئیں تو کیا اسے کسی اور طرف جھکایا جائے گا؟ غیر جمہوری مداخلت کا جواز ہم یہ پیش کرتے آئے ہیں کہ اہلِ سیاست کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے اس کا راستہ کھولا۔ کہنا یہ کہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔
اس بے یقینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی کسی ایک سیاسی جماعت کو اتنا طاقتور نہیں ہونے دیا جاتا کہ طاقت کا توازن فیصلہ کن انداز میں اس کی طرف جھک جائے۔ جب کوئی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل کرتی ہے یا اس کا امکان پیدا ہو تا ہے تو اس کے پَر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ جواز یہ بنایا جاتا ہے کہ سیاسی راہنما پھر مطلق العنانیت کی طرف چل پڑتے ہیں۔ کوئی امیر المومنین بننا چاہتا ہے اور کوئی تمام اختیارات کا حامل صدر۔
میرے نزدیک اس مخمصے کا فوری حل ممکن نہیں۔ جمہوری روایات اور رویے کی آبیاری کے بغیر ہر نظام بے معنی ہے۔ جہاں سیاسی بلوغت نہ ہو وہاں کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے تو سماج کو جمہوری بنانا ہو گا۔ جہاں لوگ سیاست دانوں کو بھی مرشد بنا لیں وہ نظام جمہوری کیسے ہو سکتا ہے؟ مرید کبھی مرشد کا احتساب نہیں کر سکتا۔ بایں ہمہ‘ ہمیں سیاسی نظام کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا جس میں غلطی کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ہمیں متناسب نمائندگی کی طرف جانا چاہیے۔ اس سے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی اور سیاسی قیادت کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ عوام کو بہتر قیادت فراہم کرے۔ دو جماعتوں کے بارے میں مَیں کبھی نہیں جان سکا کہ وہ اس کیلئے کیوں آواز نہیں اٹھاتیں۔ ایک تحریک انصاف اور دوسری جماعت اسلامی۔ تحریک انصاف ایک شخصیت کے سحر کا نام ہے۔ گزشتہ انتخابات نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اس کے حامی عمران خان صاحب کو جانتے ہیں اور بس! انہیں اس سے کم سروکار ہے کہ اسمبلی میں پہنچنے والا کون ہے۔ یہ بات خان صاحب کے حق میں جاتی ہے مگر انہوں نے کبھی اس کی بات نہیں کی۔ دوسری جماعت اسلامی ہے۔ یہاں لوگ ایک نظریے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی فرد کے نہیں‘ جماعت کے وفادار ہوتے ہیں۔ انہیں بھی اس سے کم سروکار ہوتا کہ ان کے حلقے میں ان کا ا میدوار کون ہے۔ یہ دونوں جماعتیں‘ میں نہیں جان سکا کہ متناسب نمائندگی کی بات کیوں نہیں کرتیں۔
اس کے لیے بھی آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی تو شاید اس کی حمایت نہ کریں کہ یہ ان کے حق میں نہیں۔ (ن) لیگ ایک دور میں ایسا کر سکتی تھی جب نواز شریف صاحب کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ اگر ہم سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں جو جمہوریت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے‘ تو متناسب نمائندگی کی طرف جائیں۔ آج اگر پارلیمان اقلیت کی یرغمال بن جاتی ہے تو اس کا سبب بھی سیاسی جماعتوں کی کمزوری ہے۔
گزشتہ ایک آدھ ماہ میں ہم جس آئینی اور سیاسی بحران سے گزرے ہیں‘ اس نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے جمہوری نظام کو درپیش حقیقی چیلنج کا ادراک کریں اور پھر اس کا حل تلاش کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تجزیہ وقتی معاملات کا اسیر ہو گیا ہے۔ یہ اسی سطحیت کا نتیجہ ہے جس کو ہم بھگت رہے ہیں۔ نواز شریف کے پَر کیسے کاٹے جائیں؟ عمران خان سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ ہماری ساری حکمتِ عملی ان سوالوں کے گرد گھومتی ہے اور اس کے لیے کیا آئین اور کیا اخلاقیات‘ ہم ہر چیز کے قطع وبرید پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
کہنے کو تو آئینی ترمیم ہو گئی لیکن کیا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ اس کے لیے کس کس کی پگڑی سرِ بازار نیلام ہوئی؟ کیا تحریک انصاف میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ سیاسی جماعتوں سے دوری بالآخر آپ کو رقیب کے دروازے پر لا کھڑا کرتی ہے؟ اگر وہ پہلے دن سے غیر جمہوری قوتوں کے بجائے سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو کیا اسی صورتِ حال سے دوچار ہوتے؟ تاریخ سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے مگر کم لوگ ہیں جو اس پر آمادہ ہوتے ہیں۔