"KNC" (space) message & send to 7575

سیاسی بلوغت

یہ کانفرنس مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیم سے متعلق تھی۔ ملالہ یوسف زئی بھی اس میں شریک تھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے اپنے خطاب میں عالمِ اسلام کی نامور خواتین کا ذکر کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا نام بھی لیا اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ اس سیاسی بلوغت کا اظہار تھا جس کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب شریف خاندان‘ بھٹو خاندان کا نام سنتا تو اس کا خون کھول اُٹھتا تھا۔ دونوں کے مابین مخاصمت کی ایک طویل تاریخ ہے جس نے برسوں ہماری سیاست کو یرغمال بنائے رکھا۔ قوم منقسم رہی۔ ہم معاشی طور پر آگے بڑھ سکے اور نہ سماجی طور پر۔ پھر پرویز مشرف صاحب تشریف لائے اور 'مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے‘ کے مصداق دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ ان جماعتوں نے سیاسی بلوغت کی دنیا میں پہلا شعوری قدم رکھا۔ اس کا اظہار 'میثاقِ جمہوریت‘ کی صورت میں ہوا۔ اس کا سرِ عام اعلان ہوا کہ جمہوریت کو اصل خطرہ کہاں سے ہے اور اس ضمن میں اہلِ سیاست کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ بعد میں اس میثاق کا کتنا احترام کیا گیا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے سیاسی بلوغت کی سمت میں قابلِ ذکر پیش قدمی ہوئی۔ کم از کم خون کھولنا تو بند ہوا۔ یہی نہیں (ن) لیگ کی طر ف سے سیاسی تاریخ پر نظرثانی کے مزید شواہد بھی سامنے آئے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے عدالتی حکم کو اب کھلم کھلا قتل قرار دیا جاتا ہے اور اسے عدالتی ناانصافی پر محمول کیا جاتا ہے۔ مریم نواز صاحبہ گڑھی خدا بخش کا چکر بھی لگا چکیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اس نوعیت کا کوئی علامتی قدم تو نہیں اٹھایا گیا لیکن اس کے لہجے کی سختی کم ہوئی اور وہ سیاسی طور پر (ن) لیگ کے ساتھ ہم قدم ہو گئی۔ کچھ لوگ اسے موقع پرستی قرار دیں گے۔ میرا احساس ہے کہ یہ موقع پرستی ہو تو بھی اب یہ تاریخ کا حصہ اور اہم پیش قدمی ہے۔ سیاست میں اتفاق و اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ مستقبل میں ایک دوسرے پر تنقید کرتے وقت انہیں یاد رہے گا کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا کہہ چکے۔ اس کا فائدہ ہو گا‘ نقصان کوئی نہیں۔ آوازیں پیچھا تو کرتی ہیں۔
میری خواہش ہے کہ یہ دائرہ مزید بڑھے اور اس میں دوسری جماعتوں اور افراد کو بھی شامل کیا جائے۔ اگر کسی نے قومی تاریخ میں کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے تو اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔ اس عمل کو سیاسی مصلحتوں کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس میں عمران خان صاحب کو بھی شامل کیا جائے۔ بحیثیت کرکٹر ان کا ایک کردار ہے۔ ان کا شمار دنیا کے بڑے کرکٹرز میں ہوتا ہے۔ وہ اُس ٹیم کے کپتان تھے جس نے ورلڈ کپ جیتا۔ ان کا یہ اعزاز ہے‘ جو اَب تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ پر کرکٹ کی بات ہوتی ہے اور اس میں عمران خان کا ذکر نہیں ہوتا۔ اس سے عمران خان صاحب کو نہیں‘ ان لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے جو اس تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر ہو اور بھٹو صاحب یا نواز شریف صاحب کا نام نہ لیا جائے۔ ایک نے اس پروگرام کا آغاز کیا اور دوسرے نے اس کا سرِ عام اعلان کر کے پاکستان کو ایٹمی قوتوں میں شامل کروا دیا۔
اسی طرح علمائے دیوبند کا ایک تاریخی کردار ہے۔ تاریخ پر ان کے اَن منٹ نقوش ہیں۔ یا بطور سماجی مصلح‘ خان عبدالغفار خان کی خدمات ہیں۔ کیا علمائے دیوبند کے علمی کارناموں کا اسی وقت اعتراف کیا جائے گا جب جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی تائید کی ضرورت ہو گی؟ کیا باچا خان اس وقت محترم قرار پائیں گے جب اے این پی سے سیاسی اتحاد ہو گا؟ میں جس سیاسی بلوغت کا ذ کر کر رہا ہوں اس کا اظہار سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں سے بے نیاز ہو کر کیا جانا چاہیے۔ اس سے ایک ایسا سیاسی کلچر وجود میں آئے گا جس میں تحمل ہو گا۔ باہمی احترام ہو گا اور انتہا پسندانہ رویوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ایک اچھے معاشرے کے قیام کے لیے ایک دوسرے کی خوبیوں کا اعتراف بہت اہم ہے۔ اس سے دل نرم ہوتے ہیں۔ ہم انسان ہیں اور انسانوں میں بیک وقت خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم دو انتہاؤں میں جیتے ہیں۔ ایک طرف پیکرِ حسن و خوبی اور دوسری طرف سراپا شر و فساد۔ انسان عام طور پر ایسے نہیں ہوتے۔ سیاست میں اختلاف کو قبول کیا جانا چاہیے۔ اس میں تلخی بھی آ جاتی ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ ہم قوم کو دو حصوں میں بانٹ دیں۔ اس سے نجات اُسی وقت ہو گی جب ہم اپنے راہنماؤں اور دوسروں کی قیادت کو انسان سمجھیں گے۔ قائداعظم سے محبت کے لیے ابوالکلام آزاد کا انکار ضروری نہیں۔ ان کے علمی کمالات سے صرفِ نظر ایک بڑی محرومی ہوگی۔
اعتراف کے لیے ہم کسی واقعے یا شخصیت کے ماضی بن جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ اصل آزمائش اپنے حال میں جینا ہے۔ معاصر لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف دوسروں کو نہیں‘ آپ کو بڑا بناتا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب سے کسی نے پوچھا: ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے آپ کے کیا اختلافات ہیں؟ ان کا جواب تھا: آپ مجھ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ میرے ان سے اتفاقات کیا ہیں۔ اختلافات سے اتفاقات کی فہرست زیادہ طویل ہے۔ اسی طرح یو ٹیوب پر جاوید غامدی صاحب کے بارے میں احمد جاوید صاحب کی گفتگو سن لیجیے۔ اس رویے سے اختلافات کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اختلاف سے ذاتی غرض اور اَنا ختم ہو جاتی ہے۔ پھر جو اختلاف ہوتا ہے‘ وہ سماج کے ارتقا کے لیے اہم ہوتا ہے۔
شہباز شریف صاحب نے جو کہا اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ہمیں دلوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ اہلِ سیاست کو عوام کی طرف سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ وہ ان سے اسی رویے کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کی اچھی باتوں کی تحسین ہو گی تو ان سے ایسی باتوں کامزید صدور ہو گا۔ اگر ہم ان کی انتہا پسندی کی تحسین کریں گے یا مخالفین کے لیے توہین آمیز بیانات پر تالی بجائیں گے تو وہ اسی سمت چل پڑیں گے۔ سیاستدان عوامی تائید کی فضا میں سانس لیتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہو جائے کہ عوام کو سنجیدگی اور اعلیٰ ظرفی پسند ہے تو استہزا پر مبنی الفاظ ہماری سیاسی لغت سے خارج ہو جائیں۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا 'بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی‘۔ میرا خیال یہ ہے یہی ہماری آزمائش ہے کہ ہم اپنے جذبات کو کس حد تک تہذیب اور آداب کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔ بھوک شاید نہ ڈھل سکتی ہو‘ اختلاف مگر ڈھل سکتا ہے۔ اعلیٰ ظرفی کو شعار کیا جا سکتا جو طبیعت میں دوسروں کی خوبیوں کے اعتراف کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ انتہا پسندی حکومتی رویے میں ہو تو ظلم بن جاتی ہے۔ اپوزیشن میں ہو تو انتقام اور نفرت کی آبیاری کرتی ہے۔ ہمیں ان اخلاقی رزائل سے اوپر اٹھنا ہو گا کہ معاشرے اخلاقی فضائل سے بنتے ہیں۔ اگر کبھی اہلِ سیاست کی طرف سے اس سمت میں پیش قدمی دکھائی دے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی حوصلہ ہو۔ ہم بہت کچھ گنوا چکے۔ ہمارے پاس مزید گنوانے کو کچھ نہیں۔ معاصرین کی خدمات کا اعتراف ہمارا حال بنے نہ کہ ماضی۔ اسی سے رویے بدلیں گے۔ یہیں سے تعمیر شروع ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں