"KNC" (space) message & send to 7575

مزاحمت اور بی اے

مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلے تلوار خریدنا پڑے گی۔
یہ بات برصغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسیّد احمد خاں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ اُن کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہوئی:
ہم کیا کہیں‘ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے
معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے‘ ایم اے سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے دست بردار ہو گیا‘ مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنون نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس
یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سرسیّد کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بی بھی۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آ گئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کر نا پڑتا ہے۔ ورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔ کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جاتے ہیں۔
یہ غلط فہمی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جدوجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے‘ وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جدوجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کرنا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سرسیّد کی طرف لوٹتے ہیں۔
سرسیّد نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔ جنگِ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔ خود کو بندو ق بنانے اور چلانے کے قابل بناؤ۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ لوگ مان کر نہیں دیے۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذہین آ دمی تھے‘ بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذہین نہیں ہوتا۔ اسے بی اے کر نے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تاکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کے بی اے کر نے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو۔
دنیا کا ادب مزاحمت سکھاتا ہے۔ اس کا وظیفہ یہی ہونا چاہیے۔ ادب کسی سماج میں آئیڈیلز کو زندہ رکھنے کا عمل ہے۔ سماج کے فکری نشاط اور اخلاقی ارتفاع کے لیے لازم ہے کہ آئیڈیلز اس کی نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہوں۔ ان آئیڈیلز کو عملی صورت کیسے دی جائے گی‘ یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی اس کی حکمت عملی بنتی ہے۔ شاعروں میں علامہ اقبال کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے نظم اور نثر‘ دونوں میں کلام کیا۔ نثر میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے عملی راستے تجویز کیے ہیں۔ آپ یوں سمجھیں کہ ان کی نثر 'اقبال بی اے‘ کی تحریریں ہیں۔ شاعری میں خلافتِ عثمانیہ کے سقوط پر آنسو بہانے والا اقبال اگر عملاً تحریکِ خلافت سے الگ رہتا ہے تو اس کا کوئی سبب تو ہو گا۔
آج جب یہ کہا جاتا ہے اہلِ فلسطین مسلح جدوجہد سے رک کر سود وزیاں کا حساب کریں اور سوچیں کہ کیا یہ ایک کامیاب حکمتِ عملی تھی‘ تو یہ ان کومزاحمت سے روکنا نہیں‘ بلکہ متوجہ کرنا ہے کہ مزاحمت کے دوسرے راستے بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلح جدوجہد کے جو فائدے بتائے جا رہے ہیں‘ ان کو سُن کر اہلِ دانش کی بصیرت پر رونا آتا ہے۔ دنیا میں ہر کا م کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فائدہ اور نقصان میں نسبت کیا ہے؟ دو نسلیں برباد ہو گئیں اور نتیجے میں کیا ہوا؟ دو سو یرغمالی رہا ہو گئے؟ امریکہ بے نقاب ہوگیا؟ کیا اس سے پہلے امریکہ یا اسرائیل نے کوئی نقاب اوڑھ رکھا تھا؟ اسرئیل کے خاتمے کی خواہش سے شروع ہونے والا سفر اب یہاں آ پہنچا کہ غزہ کی زمین بھی پاؤں تلے سے سرک رہی ہے۔ مسئلہ جذبے کی صداقت کا نہیں‘ حکمتِ عملی کا ہے۔ اسامہ بن لادن جیسا جذبہ کس کو نصیب ہوا؟ آسودہ زندگی کو چھوڑ کر تورا بورا کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانے کے لیے فرہاد کا جگر چاہیے۔ اس حکمتِ عملی نے مگر دنیا اور مسلمانوں کو کیا دیا؟ جاوید غامدی صاحب نے صحیح کہا تھا کہ اسامہ کاایمان قابلِ رشک اور بصیرت قابلِ افسوس ہے۔
مزاحمت کی طرح‘ اس نقد کی ایک نادرست تفہیم یہ کی جاتی ہے کہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار فلسطینیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اہلِ فلسطین اور حماس باہم مترادف نہیں۔ عام فلسطینی ذمہ دار کہاں‘ وہ تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ ذرا ان چہروں کو دیکھیے جو اسرائیل کی قید سے رہا ہو کر آئے ہیں۔ ان پر لکھا ہے کہ وہ کیسی زندگی چاہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم اسرائیل اور امریکہ جیسے ظلم کے معاونین کو مشورہ نہیں دے سکتے‘ اپنوں ہی کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود کو ظلم سے محفوظ بنائیں۔ ایسی حکمتِ عملی اختیار کریں جس میں ان کا نقصان کم ہو۔ یہی خیر خواہی کا تقاضا ہے۔
آج ایک رائے ہے کہ فلسطینیوں کو اسی طرح مرتے مارتے رہنا چاہیے۔ اسی جدوجہد سے ایک دن آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ دوسری رائے ہے کہ اس میں نقصان بہت زیادہ ہے اور فائدہ بہت کم۔ اس وقت فلسطینیوں کے لیے حالات جتنے ناسازگار ہیں‘ پہلے کبھی نہ تھے۔ کہانیوں کی دنیا الگ ہے جو ہم ہر جنگ میں سنتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایک ملک عملاً فلسطینیوں کے ساتھ نہیں کھڑا۔ صدر ٹرمپ نے بتا دیا ہے کہ امریکہ غزہ کو فلسطینیوں سے اب مستقلاً خالی کرانا چاہتا ہے۔ ان حالات میں فلسطینیوں کو ایک طویل وقفۂ امن کی شدید ضرورت ہے جس میں وہ اپنی توانائیاں مجتمع کر سکیں۔ ان کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقفے کی فراہمی کے لیے ہم ان کے مددگار بنیں۔ یہ بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہے۔ اختلاف مزاحمت کرنے یا نہ کرنے میں نہیں‘ اس میں ہے کہ مزاحمت کیسے کی جائے؟
مختصر یہ کہ مزاحمت کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا‘ اگرچہ ہم اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اکبر الہ آبادی نے مجنوں اور لیلیٰ کی والدہ کا مکالمہ نقل کیا تو آغاز ہی میں اصل مسئلے کی نشاندہی کر دی تھی:
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرـؔ؍ مجھ کو تو ان کی خوش حالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاہدِ مقصود کے ہیں؍ نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں