"KNC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر: ٹرمپ اور مودی کے عہد میں

ایک طرف بھارت ہے۔ 2019ء میں مودی حکومت نے ہر بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی قدر کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس کو بدل ڈالا۔ اب کشمیر کا بڑا حصہ آئینی طور پر وہ صورت اختیار کر گیا ہے جو دہلی اور اُتر پردیش کی ہے۔
دوسری طرف ہم ہیں۔ ہم نے اسلام آباد کی ایک شاہراہ کا نام 'کشمیر ہائی وے‘ سے بدل کر 'سرینگرہائی وے‘ کر دیا ہے۔ یہ شاہراہ بھی کسی مفتوحہ علاقہ میں نہیں ہے۔ چند برس پہلے ہماری اپنی ہی تعمیر کردہ ہے۔ ہمارا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ہم پانچ فروری کو کشمیر کے نام پر چھٹی مناتے ہیں۔ کیا اس موازنے سے آپ بھارت اور پاکستان کی 'کارکردگی‘ کا فرق سمجھ سکتے ہیں؟ اگر سمجھ سکتے ہیں تو کیا اس کی وجوہات بھی جان سکتے ہیں؟
مسئلہ کشمیر کے پیدا ہونے کے بعد ہم صرف ایک قابلِ ذکر پیش قدمی کر سکے۔ اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ نے اس کو متنازع خطہ مان لیا اور اس کے حل کو پاکستان اور بھارت کے اتفاقِ رائے سے مشروط کر دیا۔ استصوابِ رائے کو اہلِ کشمیر کا حق قرار دیا گیا۔ 1989ء میں کشمیر کو آزاد کرانے کی ایک مسلح جد وجہد کا آغاز ہوا۔یہ مہم کشمیر کا ایک انچ آزاد کرائے بغیر ختم ہو چکی۔ اس دوران میں کتنی انسان جانیں گئیں‘ کتنی عزتیں نیلام ہوئیں‘ کتنے گھر برباد ہوئے‘ کتنے وسائل برباد ہوئے‘ یہ سب محض اعداد و شمار کا کھیل بن کر رہ گیا جنہیں ہم مختلف فورمز پر دہراتے رہتے ہیں اور جنہیں کوئی نہیں سنتا۔ یہ کم و بیش ساٹھ برس کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ کیا اس حکمتِ عملی پر نظر ثانی اب لازم نہیں؟
زمین کے جھگڑے برسرِ زمین طے ہوتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کے لیے عالمی امور کی ڈگری لینا لازم نہیں۔ آج کل معاملات کیسے طے ہو رہے ہیں‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ جب مودی سرکار نے کشمیر کے بارے میں اہم فیصلہ کیا تو اس وقت بھی ٹرمپ ہی امریکی صدر تھے۔ بھارت کے اس اقدام کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ اسی لیے بین الاقوامی قوانین کی اس صریح خلاف ورزی پر کوئی آواز نہیں اٹھی۔ صدر ٹرمپ معاملات کو کیسے حل کرتے ہیں‘ اس کے بہت سے مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔
غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ نے اپنے عزائم کا ایک بار پھر اظہار کر دیا ہے۔ اسے اب فلسطینیوں سے خالی کرانے کا منصوبہ ہے۔ امریکہ اس خطے کو اپنی تحویل میں لینے کا ارادہ کر رہا ہے۔ میرا احساس ہے کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں زیرِ زمین پھر کوئی اسلحہ خانہ یا پناہ گاہ نہ بنے۔ فلسطینیوں کے لیے صدر ٹرمپ کے دل میں ذرہ برابر ہمدردی نہیں ہے۔ حماس کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے‘ فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے دو بول کیوں نہیں‘ جو ظلم کی آگ میں جھونک دیے گئے؟ یہ اخلاقی سوال اس وقت بے معنی ہے۔ صدر ٹرمپ معاملات کو اسی طرح حل کرنے کے عادی ہیں۔
میں اس سے قیاس کر سکتا ہوں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بھی انہی خطوط پر حل کرنے کے لیے مزید پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس خطے کے لیے بھی ایک 'ڈیل‘ کر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں بھارت کو ایک کردار سونپ چکا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ 2019ء میں جو پیش رفت ہوئی تھی اسے اب مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ کیا ہمارے پاس اس وقت کوئی حکمتِ عملی موجود ہے؟ مسلح جد وجہد ہو چکی۔ سفارتی صورتِ حال میں بیان کر چکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ غزہ کی طرز پر یہاں بھی کوئی حل نافذ کرنا چاہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
مجھے کسی حلقے میں کوئی سنجیدہ بحث اٹھتی سنائی نہیں دیتی۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں‘ یہاں تک کہ حکومت کے پاس بھی کھوکھلی نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ فلسطین کی طرح یہاں بھی محض جذبات سے ایک مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر پانچ فروری کے جلوسوں سے یہ مسئلہ حل ہونا ہوتا تو اب تک ہو جانا چاہیے تھا۔ بھارت ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے ساتھ اور عالمی طاقتوں کی تائید سے ایک خاص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا کوئی توڑ پچھلے پانچ برس میں تو سامنے نہیں آیا۔ اگست 2019ء کے بعد ہم نے کیا کیا؟ اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس وقت کشمیر پالیسی نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ جو کچھ ہے محض ان الفاظ کی جگالی ہے جو نصف صدی سے جاری ہے۔
عقلِ عام مسئلہ کشمیر کے تین حل تجویز کرتی ہے: ایک یہ ہے کہ آپ کے پاس مطلوب وسائل موجود ہیں اور آپ بزور اپنا حق لے سکتے ہیں۔ یہ وسائل سفارتی بھی ہیں اور مادی بھی۔ دوسرا یہ کہ آپ اپنے مقدمے سے دستبردار ہو کر کسی تیسرے حل کو قبول کر لیں جس پر دوسرا فریق بھی راضی ہو۔ تیسرا یہ کہ آپ اپنے مقدمے کو مزید کمزور نہ ہونے دیں‘ معاملات آپ کے ہاتھ سے نہ نکلیں اور سٹیٹس کو قائم رہے۔ اس نوعیت کے حل اس سے قبل بھی پیش کیے جاتے رہے۔ پہلے دو حل ہمارے پاس موجود نہیں۔ تیسرا حل ہی واحد راستہ تھا مگر ہم اس پر بھی چند قدم نہیں چل سکے۔ جب ہم بھارت کی پیش قدمی کو نہیں روک سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پیچھے گئے ہیں۔ یہ صورتِ حال باعثِ تشویش ہے۔ جب بھارت نے 2019ء میں کشمیر پر ایک آئینی قدم اٹھایا تو جواباً ہمیں آزاد کشمیر کے بارے میں بھی آئینی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ اس سے ایک توازن پیدا ہو جاتا۔ ہم مگر کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھ کر مطمئن ہو گئے۔
ہم اپنے خیالات اور خواہشات کی دنیا میں جی نہیں سکتے۔ عملی زندگی کے مطالبات سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ مسئلہ کشمیر سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر ہم نے یہاں بھی اس سوچ کا اطلاق کرنا چاہا جو فلسطین میں حماس کی 'کامیابیوں‘ کے باب میں ظاہر ہوئی ہے تو یہ خود کو دھوکا دینا ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ملاقات میں بتا دیا کہ امریکہ اور اسرائیل کس 'حل‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کا رُخ کشمیر کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ عالمی تنازعات کو 'حل‘ کرنے کے بارے میں یکسو ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سب جھگڑے طے کروا کر ان سے نکل آئے۔ وہ ممکنہ حل کی طرف جاتے ہیں‘ مثالی حل کی طرف نہیں۔ اس سے پہلے کہ بھارت کشمیر کے معاملے میں ان کے ساتھ ساز باز سے 2019ء کی حکمتِ عملی کو آگے بڑھائے‘ ہمیں اس باب میں ہنگامی نوعیت کی پیش رفت کرنا ہو گی۔ سب سے پہلے توکشمیر پالیسی واضح ہو۔ اس وقت ابہام ہے۔ اس ابہام کو دور کرنا ضروری ہے۔ آزادی کے لیے ہزار سال تک لڑنے کی باتیں اب پرانی ہو گئیں۔ طاقت آج بھی فیصلہ کن ہے مگر رومانویت ختم ہو رہی ہے۔ 'آج‘ افراد اور قوموں کی زندگی میں بہت اہم ہو گیا ہے۔ فکرِ فردا اب سکہ رائج الوقت نہیں۔ اس کا ادراک لازم ہے۔ آج ضرورت ہے کہ 'مسئلہ کشمیر:ٹرمپ اور مودی کے عہد میں‘ جیسے عنوانات کے تحت یہ مسئلہ زیرِ بحث آئے۔
میں کبھی یہ نہیں جان پایا کہ جو بات مجھ جیسا عامی سمجھ سکتا ہے‘ اربابِ حل و عقد کو وہ کیوں سمجھ نہیں آتی؟ اگر میری تفہیم ناقص ہے تو کوئی مجھے سمجھا دے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کشمیر کے باب میں ریاستِ پاکستان کی پالیسی کیا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں