'ٹیلی گراف‘ مرثیہ خواں ہے کہ پاک بھارت جنگ میں یورپ کی ٹیکنالوجی چین کی ٹیکنالوجی سے شکست کھا گئی۔ ٹیلی گراف آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ کا قدیم اخبار ہے جسے معتبر سمجھا جاتا ہے۔
اس شکست میں مغربی میڈیا کے لیے تشویش کا ایک پہلو یہ ہے کہ دیکھو! چین پاکستان اور بھارت کی جنگ میں براہِ راست ملوث ہے۔ اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ اس واویلے میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جاتا جو بھارت کی طرف سے براہِ راست اس جنگ کا حصہ ہے۔ اس کے میزائل استعمال ہو رہے ہیں اور وہ اعلانیہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس پر کوئی واویلا ہے نہ شکایت۔ ہمیں بھی شکایت نہیں کرنی چاہیے‘ کہ مغربی اخلاقیات کے نمونے ہمارے سامنے ہیں جو غزہ سے افغانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اس جنگ کا مگر سب سے اہم پہلو وہی ہے جس پر ٹیلی گراف کو اصلاً تشویش ہے۔ یہ حربی اسلحے میں چینی مہارت ہے۔ اب تک دیگر شعبوں میں چینی ٹیکنالوجی کی برتری کے آثار دکھائی دے رہے تھے‘ تاہم یہ تاثر موجود تھا کہ حربی ٹیکنالوجی میں چین امریکہ اور یورپ سے بہت پیچھے ہے۔ اس کا فیصلہ تبھی ہو سکتا تھا جب کوئی میدان سجے اور اس ٹیکنالوجی کا عملی امتحان ہو۔ پاک بھارت جنگ نے یہ موقع فراہم کر دیا۔ چین نے اس میدان میں بھی اپنی برتری ثابت کر دی اور یہ بات یقینا مغرب کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
ایک پہلو ہمارے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ میدانِ جنگ بہرحال غریب اور پسماندہ قوموں ہی نے بننا ہے‘ بڑی قوتوں نے اگر اپنی حربی قوت کوکہیں آزمانا ہے۔ یہ میدان پاکستان اور بھارت ہوں گے یا عراق اور افغانستان۔ ان ممالک کو یہ قوتیں اسلحہ بیچیں گی اور ان کے عوام پر اپنے ہتھیار آزمائیں گی۔ جب عراق اور ایران میں جنگ جاری تھی تو برطانیہ دونوں ممالک کو اسلحہ فروخت کر رہا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی سب سے زیادہ آمدن اسی اسلحہ کی انڈسٹری سے ہے۔ ہمارے پاس چینی ٹیکنالوجی ہے اور بھارت کے پاس فرانسیسی۔ بھارت میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور ہمارے ہاں بھی غربت ہے۔ اس کے باوجود ہم بڑی طاقتوں سے اربوں روپے کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔
تقسیم کے بعد بھارت کا کردار بہت اہم تھا۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہر گز نہیں تھا کہ جارحانہ عزائم کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرتا۔ ہماری ساری تگ و دو کا مرکز اپنے وجود کو زندہ رکھنا تھا۔ قائداعظم بھی چاہتے تھے کہ اب پاکستان اور بھارت کے مابین امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات ہوں۔ مراد ٹرمپ کی آمدِ ثانی سے پہلے کے تعلقات ہیں۔ افسوس کہ اس موقع پر بھارت کو اپنی برتر حیثیت کی وجہ سے جو کردارا دا کرنا چاہیے تھا‘ وہ اس نے نہیں کیا۔ یہ سوچنا بھی غلط تھا کہ تاریخ کا پہیہ الٹا چل سکتا ہے۔ ایک تاریخی واقعے کے بارے میں بحث جاری رہتی ہے مگر واقعے کو مان کر۔ تقسیمِ ہند ایک واقعہ ہے۔ بھارتی قیادت کو اس واقعے کو مان کر آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ گاندھی کانگرس کی قیادت میں زیادہ سمجھ دار تھے۔ انہیں اس کا ادراک تھا۔ اس لیے غلبے کی اس فکر نے انہیں قتل کر دیا جس نے ہندوتوا کی صورت میں اب ایک بار پھر ظہور کیا ہے۔
اس تاریخی بے بصیرتی نے برصغیر کو ایک نہ ختم ہو نے والے فساد کے حوالے کر دیا۔ نواز شریف صاحب نے ایک بار ی کوشش کی کہ تاریخ کے اس عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جائے۔ افسوس کہ یہ غنچہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا۔ واجپائی صاحب نے بھی کچھ مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا مگر بھارت کی قیادت بحیثیت مجموعی زیادہ سطحی ثابت ہوئی۔ مودی صاحب تو خیر سردار پٹیل کا دوسرا جنم ہیں۔ ان سے کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر حالات کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں سے امن یا بقائے باہمی کی بات کرنا مشکل تر ہو گئی ہے۔
اس سے کیا ہو گا؟ پاکستان کو بھی مجبوراً اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا پڑے گا۔ بھارت بھی زیادہ رقم اس کام پر خرچ کرے گا۔ ان ممالک کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے خزانوں میں جائے گی اور یہاں کے عوام بھوک سے پیٹ بھریں گے۔ بھارت نے دو دن مسلسل اس آگ پر تیل چھڑکا ہے۔ پاکستان کے متعدد شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان تو اللہ کے فضل سے ایک بڑی قوت ہے‘ سری لنکا یا نیپال بھی ایسی جارحیت پر چپ نہیں رہ سکتے تھے۔ پاکستان نے جواباً اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا مگر بھارت نے اسے ایک مکمل جنگ بنانے کی پوری کوشش کی‘ جو اَب بھی جاری ہے۔ ایسی قیادت کی موجودگی میں یہ خطہ کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
بھارت کے عوامی مسائل ہم سے کم نہیں۔ اگر وہاں کوئی صاحبِ بصیرت حکمران ہوتا تو وہ سب سے پہلے ان مسائل کو حل کرتا اور جنگ سے گریز کرتا۔ اس دور میں تو جنگ ایک احمق ہی کا انتخاب ہو سکتا ہے۔ مودی صاحب نے اس راستے کو منتخب کیا ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس حماقت کے ابتدائی نتائج سے سبق سیکھا جاتا اور واپسی کا راستہ تلاش کیا جاتا۔ افسوس کہ اب تک جنگ کے راستے پر پیش قدمی جاری ہے اور عالمی قوتیں بھی محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس حماقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اس لیے ان کی طرف سے اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش اب تک سامنے نہیں آ سکی۔
میرے نزدیک یہ بات بہت اہم ہے۔ جنگ کسی نہ کسی شکل میں تین دن سے جاری ہے۔ بھارت مسلسل پاکستانی بستیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اگر عالمی قوتیں کوشش کرتیں تو حالات کو بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ بظاہر اب تک ایران کے سوا کسی نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ ایرانی وزیر خارجہ پاکستان آئے اور پھر بھارت بھی گئے۔ بھارتی وزیر نے ایرانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں جارحانہ پریس کانفرنس کی اور یہ پیغام دیا کہ اسے ایران کی ثالثی کا کوئی احترام نہیں۔ تاہم ایران نے تو خیر خواہی کی اور ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ دوسری قوتیں کہاں ہیں؟ کیا وہ اپنا اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے میدان کی تلاش میں ہیں؟
تیسری اور غریب دنیا کی قیادت کے بارے میں ان ممالک کے اندر یہ رائے رہی ہے کہ وہ بڑی قوتوں کے آلہ کار ہیں۔ یہ ان کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کیا اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے اپنے ممالک کو جنگ کی آگ میں اس لیے جھونکتے ہیں کہ ان ممالک کا اسلحہ بک جائے؟ کیا یہ اس میں کوئی کمیشن لیتے ہیں؟ میرا خیال ہے مودی جیسے لوگ جو جنگ کی آگ سلگاتے ہیں‘ وہ ان قوتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کو بھی مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اس جنگ کا حصہ بنے جو اس کا انتخاب نہیں ہے۔ جمہوریت کے باوجود بھارت کا عام شہری اتنی بات نہیں سمجھ سکا کہ مودی جیسا انتہا پسند بھارت کو برباد کر سکتا ہے‘ اور اس نے اپنا ہاتھ مودی کے ہاتھ میں دے دیا۔ پاپولزم نے جمہوریت کے لیے ایک سنجیدہ سوال کھڑا کر دیا ہے۔
اگر بھارت میں کوئی بڑی سیاسی شخصیت پیدا نہیں ہوتی۔ اگر وہاں مودی جیسوں کا راج رہتا ہے تو کیا پاکستان کی حکمتِ عملی اس کی یرغمال بنی رہے گی؟ ہمارے لیے یہ سوال بہت اہم ہیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کیسے ردِ عمل کی نفسیات سے نکل کر اپنی ترجیحات کا تعین کر سکتے ہیں؟ بھارت کے ساتھ ہمیں بھی ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ایسے مشکل سوالات کے جواب دے سکے۔ مجھے یقین ہے اگر ایسا ہو جائے تو بھارت کے عوام بھی اسے مسیحا سمجھیں گے۔ پھر شاید بھارت کو بھی کوئی اچھی قیادت میسر آ جائے۔