افغانستان سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
سعید اللہ سعید افغان طالبان کے کمانڈر ہیں۔ انہوں نے ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دو اہم باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ امیر اور حکومت کی اجازت کے بغیر جہاد جائز نہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی اَنا‘ ذاتی یا گروہی مفاد کی آبیاری کرتے ہوئے‘ کسی دوسرے ملک کے خلاف یا کسی دوسرے مقام پر جا کر جہاد کرے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کے خلاف ریاست کی اجازت کے بغیر کارروائی کرنا شریعت اور دین کی نافرمانی ہے۔ اس اعلان کے بعد اُس 'جہادِ افغانستان‘ کی شرعی حیثیت‘ ان کی اپنی تعبیر کے مطابق بھی باقی نہیں رہی‘ جو ٹی ٹی پی نے پاکستان کے عوام اور ریاست کے خلاف شروع کر رکھا ہے۔
کم وبیش تین عشروں سے ہم صحرا میں اذان دے رہے تھے کہ ریاست کے بغیر جہاد نہیں ہوتا۔ ہم نجی جہاد کے تباہ کن مضمرات سے آگاہ کر رہے تھے۔ کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ ہم جیسوں کا استقبال گولی‘ فتوے‘ الزام تراشی اور گالیوں کے ساتھ ہوا۔ امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا۔ متجدد کی پھبتی کَسی گئی۔ ہماری باتوں کو 'نیا دین‘ کہا گیا۔ آج صورتِ حال بدل چکی۔ پہلے 'پیغامِ پاکستان‘ کی صورت میں پاکستان کے علما نے اور اب افغان طالبان نے بھی مان لیا کہ جہاد کے اعلان کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔ ریاست کی اجازت کے بغیر بندوق اور تلوار اٹھانا شریعت کی نافرمانی ہے۔ نجی جہاد کو جائز قرار دے کر اَن گنت مسلمانوں کی جان لی گئی‘ اس کے باوجود کہ اللہ کا یہ فرمان سورج کی طرح روشن‘ ہمارے سامنے تھا کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان لی‘ اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔ لاکھوں لوگوں کے قتل اور سینکڑوں بستیوں کو تاراج کر نے کے بعد‘ جب اس با ت کو مان لیا گیا تو اس پر صرف غالب کو یاد کیا جا سکتا ہے: ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
اس کو بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ بعد از خرابیِ بسیار‘ اس بات کو تسلیم کر لیا گیا۔ ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں بروقت صحیح بات کہنے کی توفیق بخشی۔ اللہ کرے کہ مذہب کا نام لینے والے انسانی جان کی حرمت کے بارے میں حساس ہوں اور یہ جانیں کہ اسلام میں فساد فی الارض کتنا بڑا جرم ہے اور شریعت میں اس کی کتنی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ آئندہ اس طرح کے جہاد کے نام پر فساد کا دروازہ بند ہو اور جہاد کو ریاست ہی سے متعلق سمجھا جائے۔
افغان طالبان کے اس اعلان کے بعد اب ٹی ٹی پی کا 'جہادِ پاکستان‘ غیر شرعی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ جب سعید اللہ سعید صاحب کا بیان سامنے آیا تو اس کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی کے راہنما نور ولی محسود کی ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی۔ انہوں نے 'جہادِ پاکستان‘ کے لیے پڑوسی ملکوں کو امداد کے لیے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو افرادی قوت کی نہیں‘ مال اور ابلاغی نصرت کی ضرورت ہے۔ اس وڈیو میں بطور خاص انہوں نے افغان مجاہدین کو اپنا مخاطب بنایا۔ نور ولی اپنے اس بیان میں امارتِ اسلامی افغانستان کی حمایت کر رہے ہیں اور اسے مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دے رہے ہیں کہ وہ اس کے استحکام کے لیے اس کی معاونت کریں۔ ٹی ٹی پی خود کو امارتِ اسلامی کا حصہ سمجھتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ اس پالیسی کے شرعاً پابند ہیں جس کا اعلان افغانستان کے طالبان کمانڈر کی طرف سے ایک سرکاری تقریب میں کیا گیا ہے۔ انہیں امارتِ اسلامی کا فیصلہ مانتے ہوئے‘ جہادِ پاکستان کے خاتمے اور اس سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے۔ جب امارتِ اسلامی نے پاکستان کے خلاف اعلانِ جہاد نہیں کیا تو اس کے بعد ہر اس آدمی کے لیے جہاد جائز نہیں جو اسے اپنی اور شرعی حکومت مانتا ہے۔
افغان طالبان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کریں۔ انہیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ چونکہ پاکستان کے شہری ہیں‘ اس لیے پاکستان کے نظمِ اجتماعی کے تابع ہیں اور انہیں ریاستِ پاکستان کے فیصلوں کا پابند ہونا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ فکری ابہام پوری طرح دور ہو جائے گا جو اس خطے میں جہاد کے نام پر ابھی تک قائم ہے۔ افغان طالبان نے اس باب میں واضح بات کہنے سے گریز کیا ہے۔ سعید اللہ صاحب کی بات افغانستان کے شہریوں کی حد تک ابہام سے پاک ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی افغان شہری پاکستان میں کارروائی کرے گا تو طالبان کے اپنے فتوے کے مطابق‘ اس کا یہ اقدام غیر شرعی ہو گا۔
پاکستان اور افغان طالبان کے مابین سرد مہری ختم ہو رہی ہے۔ خیال یہ ہے کہ چین میں پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی جو ملاقات ہوئی ہے‘ اس نے برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کی ثالثی یقیناً شامل تھی جو سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ سب کے مفاد میں یہی ہے کہ اس خطے میں امن ہو۔ یہ امن اسی وقت ہو گا جب یہاں کی ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کریں گی۔ ایک دوسرے کی خیر خواہ ہوں گی۔ اس کا ادراک پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہونا چاہیے۔ اس وقت ٹی ٹی پی باہمی تعلقات کے حوالے سے فساد کی جڑ ہے۔ اگر افغان طالبان چاہیں تو یہ جڑ کٹ سکتی ہے۔
سعید اللہ سعید صاحب کے بیان نے ٹی ٹی پی کے لیے بھی موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ 'جہادِ پاکستان‘ کی صفیں لپیٹیں اورپاکستانی ریاست کے پُرامن شہری بن جائیں۔ اگر وہ یہ جنگ دین کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں تو اس بنیاد کو سعید اللہ صاحب نے ختم کر دیا۔ جس امارت کو نور ولی خود اسلامی کہہ رہے ہیں اور مسلمانوں کے لیے لازم قرار دے رہے ہیں کہ وہ اس کو مضبوط بنائیں‘ اس کی حکم عدولی کر کے وہ شریعت کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔ اس سے ان کے لیے اچھا موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ رجوع کرکے اس خطے میں امن کی علامت بن جائیں۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر ان کے فتوے سے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان جاتی ہے تو وہ کل آخرت میں خدا کے حضور میں اس کا کیا جواب دیں گے؟
پاکستان کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس میں بچے ہیں‘ خواتین ہیں‘ علما ہیں‘ دین کے خدام ہیں۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید اور شوکتِ اسلام کی علامت ہے۔ اس کا اظہار حالیہ جنگ میں ہوا جو پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی گئی۔ ایسے ملک کو کمزور کرنا‘ کیا اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے؟ اس ملک کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اسلامی ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات ہر اس آدمی کے سامنے رہنے چاہئیں جو اسلام کی سر بلندی چاہتا ہے اور خدا کے سامنے جوابدہی کا عقیدہ رکھتا ہے۔ امن دین میں مطلوب ہے۔ اس امن کی حفاظت کرنی چاہیے اور ایک مسلمان کو اسی کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔
افغانستان کے طالبان جہاد کے نام پر ہونے والے فساد کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سعید اللہ سعید صاحب کے بیان سے اس کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان اس بات میں اتفاق کر لیں کہ ان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف سرگرم گروہوں سے اعلانِ لاتعلقی کریں گے تو یہاں امن آ جائے گا۔ زیادہ ذمہ داری افغان طالبان کی ہے‘ ٹی ٹی پی جن کی حکومت کو تسلیم کرتی ہے۔ اگر وہ اس سے اعلانِ برأت کر دیں تو اس سے خطے کی تاریخ بدل جائے گی۔