عید کے دن کون کالم پڑھے گا؟ مردم گریز‘ مریض یا پھر جسے اخبار بینی کا چسکا ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں‘ مگر پہلے عید مبارک! قربانی اس عید کی سب سے اہم مشغولیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم ؑکی ایک ادا کو‘ جو بندگی کا منتہائے کمال ہے‘ ذبحِ عظیم میں بدل دیا۔ ابراہیم علیہ السلام مذہبی روایت کا ایک بے مثل استعارہ ہیں۔ وہ الہامی ہدایت کے ایک نئے دور کا نقشِ اوّل ہیں۔ تاریخ ان کے بعد ایک نئے عہد میں داخل ہو گئی۔ ان کے بعد نبوت ورسالت ان کے اولاد سے باہر نہیں گئی۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب‘ ان کے ساتھ نسبت کو اپنے لیے وجۂ افتخار جانتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے جو دین اس دنیا کو دیا‘ اس میں بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مرکزیت حاصل ہے۔ بنی اسماعیل کو اللہ نے منتخب کیا اور انہیں بتایا کہ وہی ملتِ ابراہیمی ہیں۔ ہم مسلمان آج کے دن‘ اسی نسبت کو زندہ کرتے اور قربانی جیسے عمل سے ملتِ ابراہیمی سے وابستہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔
قربانی کرتے وقت کتنے لوگ ہیں جنہیں اس بات کا احساس ہوتا ہوگا؟ یہ سوال چند دن پہلے زیرِ بحث آنا چاہیے تھا۔ کل جمعہ کے خطبے میں یقینا اس کا ذکر ہوا ہو گا۔ اللہ کرے لوگوں نے اس تذکیر سے فائدہ اٹھایا ہو اور وہ قربانی کے اس عمل کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ سرانجام دے رہے ہوں۔ کچھ غیرضروری مباحث کو اس موقع پر زندہ کیا جاتا ہے۔ جیسے اتنے جانوروں کو ذبح کرنے کی کیا ضرورت۔ یہ پیسہ غریبوں میں کیوں نہیں بانٹ دیا جاتا؟ ان سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ بارہا ان کا جواب دیا جا چکا‘ ہمیں یکسوئی کے ساتھ‘ قربانی کوعبادت سمجھتے ہوئے‘ اس رسم کو ادا کرنا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں کو یاد رکھنا ہے اور انہیں بھی پورے شعور کے ساتھ نبھانا ہے۔
عید ہم مسلمانوں کا تہوارہے۔ اسے منانا چاہیے‘ اس لیے کہ تہوار منانے کے لیے ہوتے ہیں۔ سال بھر میں ہمارے دو ہی تہوار ہیں جنہیں مذہبی تائید حاصل ہے۔ قومی اور اجتماعی زندگی میں ہم بہت سے تہوار مناتے ہیں اور مذہب نے ہمیں ان سے منع نہیں کیا‘ اگر وہ فواحش اور شرک سے پاک ہیں۔ جیسے جشنِ آزادی۔ تاہم انہیں ہم مذہبی نہیں قرار دے سکتے کیونکہ کسی امر کے مذہبی ہونے کے لیے لازم ہے کہ اسے نبیﷺ کی سند حاصل ہو۔ عیدین کو البتہ ہم اپنے مذہب کا حصہ سمجھ کر مناتے ہیں جن کے ساتھ نماز جیسی عبادت جڑی ہوئی ہے۔ اسلامی تہذیب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ہماری خوشی اور غمی‘ دونوں شکر اور صبر کے احساسات سے وابستہ ہیں۔ خوشی کے موقع پر ہم اس منعمِ حقیقی کے ساتھ تعلق کے خیال سے بے نیاز نہیں ہو سکتے جو ہمیں خوشیاں عطا کرتا ہے۔ اس لیے اس دن کا آغاز ہم نماز سے کرتے ہیں جو شکر کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔ نماز کا معاملہ عجیب ہے۔ خوشی ہو تو شکر کے نوافل۔ غم ہو تو نمازسے مدد کہ یہی اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خوشی کے موقع پر یہ ترغیب دیتے ہیں کہ ہم دوسروں کا بھی خیال رکھیں۔ قربانی کے گوشت میں‘ اس لیے دوسروں کو زیادہ شریک کریں۔ خاص طور پر ان کو جو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اپنے فریج بھرنے کے بجائے‘ اس کی تقسیم کو ترجیح دینا چاہیے۔ ان لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ اس بھرم کو قائم رکھنے میں ان کی مدد کیجیے۔ اس سے عید کی خوشی دوبالا ہو جائے گی اور اس میں پروردگار کی خوشنودی بھی شامل ہو جائے گی۔
عید کے موقع پر خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رکھیں۔ احباب اور رشتہ داروں سے ملیں۔ تفریح کریں۔ یہ دکھائی دینا چاہیے کہ آپ حالتِ سوگ میں نہیں ہیں۔ شادی اور غم میں جذبات کا ظاہر ہونا فطری ہے۔ ہم خوشی کو سوگ میں بدلنے کو نیکی اور دین داری سمجھتے ہیں۔ شادی بھی ایسے کرتے ہیں جیسے مرگ ہو۔ یہ ہمارا خود ساختہ دین ہے۔ اس سے بچئے۔ اچھا اور من پسند کھانا بھی تفریح ہی کاحصہ ہے۔ اس تہوار میں گھرکی خواتین اور بچوں کو بھی شریک کریں۔ کوشش کریں کہ خواتین سارا دن باورچی خانے ہی میں نہ گزار دیں۔ اللہ نے عید کو مردوں اور عورتوں‘ دونوں کے لیے تہوار بنایا ہے۔ خواتین کو بھی اپنی سہیلیوں‘ بہن بھائیوں‘ والدین اور رشتہ داروں سے ملنے کاموقع دیجیے۔ جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی ان کے لیے بھی پسند کریں۔ گھر میں سب کو موقع دیں کہ حسبِ خواہش یہ خوشی منائے‘ اس احساس کے ساتھ کہ خوشی اور غم میں حدود اللہ کا لحاظ ہم پر لازم ہے۔
میری ان باتوں کا مخاطب کون ہے؟ مردم گریز‘ مریض یا پھر وہ اخبار بینی جس کے لیے ایک چسکا ہے؟ عید کے دن ایسے لوگوں ہی کو فرصت ہو گی کہ وہ کالم پڑھیں۔ پہلے دو طبقات کے لیے یہ نصیحتیں کسی کام کی نہیں۔ انہوں نے تو کسی سے ملنا نہیں۔ رہا آخری طبقہ تو آج کے دن بھی جو دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزار نے کے بجائے اخبار پڑھ رہا ہے‘ کیااس کا شمار مردم بیزار طبقے میں ہو گا؟ بس ایک استثنا ہو سکتا ہے۔ دوپہر کو یا پھر رات کو‘ جب کوئی قیلولہ یا سونے کے لیے لیٹے تو اخبار یا موبائل اٹھا لے اور اپنا چسکا پورا کر لے۔ اس کیلئے شاید اس کالم کی کوئی افادیت ہو۔ سچ یہ ہے کہ بہت سے کام ہم رسماً کرتے ہیں۔ آج مجھے کالم لکھنا تھا‘ اس لیے لکھ رہا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ آج اس کو پڑھنے والوں کی تعداد معمول سے کم ہو گی۔ ہم روزمرہ زندگی میں بہت سے کام اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں کرنا ہوتے ہیں۔ ان کی افادیت یا عدم افادیت اہم نہیں ہوتی۔ ایسے کاموں کا بس اتنا فائدہ ہوتا کہ زندگی کے رواں دواں ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر تھما نہیں۔ سماج رکا نہیں۔ اخبار شائع ہوتا ہے کہ اس کی اشاعت زندگی کے جاری سفرکا اظہار ہے۔ جب اخبار شائع ہو گا تو اسے خبرکی ضرورت ہے اور کالم کی بھی۔ یہی ضرورت مجھ سے یہ کالم لکھوا رہی ہے۔ میں اگرچہ اس زعم میں کبھی مبتلا نہیں رہا کہ معمول کے دنوں میں عوام کی غیر معمولی تعداد کو اس کالم کا انتظار ہوتا ہے اوروہ اس کی روشنی میں اپنی فکری سمت کا تعین کرتی ہے۔ تاہم چند ہوتے ہیں جنہیں کچھ دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ چند بھی غنیمت ہیں‘ اگر ہم انہیں غور وفکر پر آمادہ رکھ سکیں۔ تائید مطلوب نہیں ہوتی۔ صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ جو بات مانیں کسی دلیل کے ساتھ مانیں۔ جسے رد کریں‘ اسے دلیل کے ساتھ رد کریں۔ ہمیں دوسروں کے دلوں میں نہیں جھانکنا کہ ان کے ایمان اور نفاق کا فیصلہ کریں۔ اگر ہم اسی کا اہتمام کر سکیں تو یہ بھی بڑا اخلاقی انقلاب ہے۔
عید کے دن‘ میرا پیغام یہی ہے کہ اسے خوشی کے اظہار کاموقع سمجھیں۔ خوشی کو اللہ تعالیٰ کے شکر سے جوڑے رکھیں۔ ایسی باتوں سے گریز کریں جو آپ کی یا دوسروں کی خوشی کو افسردگی میں بدل دیں۔ قربانی کا گوشت دوسروں کو دیں اور جانورکے خون اور غلاظت سے انہیں محفوظ رکھیں۔ محلے یا علاقے کو گندگی سے بھر دینا قربانی کی روح سے تصادم ہے۔ ہم گوشت سے اپنا فریج بھر لیتے ہیں اورگندگی اہلِ محلہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی قربانی اجر کے بجائے جواب طلبی کا سبب بن سکتی ہے۔ ہر کام حکومت پر مت چھوڑیں۔ اپنی گندگی ہمیں خود ہی صاف کرنی چاہیے۔ استنجے کے لیے ہم دوسروں کو زحمت نہیں دے سکتے۔ عید منانا یہی ہے کہ اسے خوشی اور رحمت کا مظہر بنائیں۔ ہر وہ کام جو دوسروں کو دکھ اور زحمت پہنچانے والا ہو‘ عبادت نہیں ہو سکتی۔ اس دن کی روح اسی وقت تک زندہ رہے گی جب تک ہمیں اسے تہوار بنائے رکھیں گے‘ جب تک ہم خوشی میں دوسروں کو شریک رکھیں گے۔اگر آپ یہ کالم پڑھنے کے لیے عید کے دن وقت نکال رہے ہیں تو آپ کا ذوقِ مطالعہ قابلِ رشک ہے۔ آپ کو خصوصی عید مبارک! مریضوں کی صحت کے لیے دعا۔