"KNC" (space) message & send to 7575

جنگ اور خدا کے فیصلے

صدر ٹرمپ کیا چاہتے ہیں؟ جنگ کا دورانیہ کتنا طویل ہو سکتا ہے؟ چین اب کیا کرے گا؟ کیا عالمِ انسانیت کو جنگ سے نجات مل سکتی ہے؟ تاریخ کا طبیعیاتی پہلو کیا بتا رہا ہے اور مابعد الطبیعیاتی پہلو کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟
اَن گنت سوال ہیں جن کا حتمی جواب ہمارے پاس نہیں۔ جذبات ہیں‘ خواہشات ہیں‘ تعصبات ہیں‘ مشاہدہ ہے‘ تجربہ ہے اور معلومات ہیں جن کی مدد سے آرا قائم کی جا رہی ہیں۔ یہ سب ذرائع ہیں‘ نتیجہ نہیں۔ قیاس ہے یقین نہیں۔ زادِ راہ ہیں‘ منزل نہیں۔ معاملات اگر صدر ٹرمپ جیسے متلون مزاج کے ہاتھ میں ہوں جو کسی اخلاقیات کا پابند ہو نہ ضابطے کا تو پھر معاملہ مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ ان ذرائع میں سب سے مظلوم علم ہے یا عقل۔ اضطراب ہو تو اِن کی کم ہی سنی جاتی ہے۔ ایک بات سے البتہ اختلاف محال ہے۔ یہ طاقت کا وہ بے رحم کھیل ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور طاقت کبھی اخلاقیات کی پابند نہیں ہوتی اِلّا یہ کہ اس کی باگ خدا کے کسی فرستادہ کے ہاتھ میں ہو۔ اخلاقیات کا مگر ایک لبادہ ہے جسے انسانیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے طاقت اوڑھے رکھتی ہے۔ اس بار برہنگی ہی طاقت کا لباس ہے۔
صدر ٹرمپ کیا چاہتے ہیں؟ قادرِ مطلق بننا۔ تاریخ میں کسی انسان کے لیے یہ کبھی ممکن نہیں ہوا۔ یہ اس کا ما بعدالطبیعیاتی پہلو ہے۔ اس کو مذہبی پیراڈائم میں بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کا کہنا ہے کہ عالم کا پروردگار کسی کو دنیا میں مطلق اقتدار نہیں دیتا۔ جب ایک قوت حد سے بڑھتی ہے تو وہ کسی دوسری قوت سے اس کو دفع کر دیتا ہے۔ اگر آج زمین میں سینیگاگ‘ کلیسا اور مسجد قائم ہیں تو اس کا سبب خدا کا یہی فیصلہ ہے۔ (الحج:40)۔ اس لیے یہ بات خارج از امکان ہے کہ صدر ٹرمپ جو چاہیں وہ لازماً واقعہ بن جائے۔ انہوں نے صرف امریکی زوال کے عمل کو مہمیز دی ہے۔ امریکہ اگر اس جنگ میں براہِ راست فریق بنتا ہے تو امریکہ کو دنیا کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر چین اور روس خاموش نہیں رہیں گے۔ ان کی خاموشی اسی وقت تک ہے جب تک طاقت کا توازن کسی حد تک قائم ہے۔ اگر پلڑا ایک طرف مزید جھک گیا تو امریکہ تنہا ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے پورا یورپ بھی اس کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔
صدر ٹرمپ جن وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ان میں ایک عہد یہ بھی تھا کہ وہ امریکہ کو عالمی تنازعات سے نکالیں گے۔ اب امریکی شہریوں کا دیا ہوا ٹیکس افغانستان اور عراق میں خرچ نہیں ہو گا۔ ایران اسرائیل جنگ میں براہِ راست شرکت کا مطلب اس عہد سے روگردانی ہے۔ اس پر امریکہ کے اندر بھی ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی سب سے امیر ریاست کیلیفورنیا میں پہلے ہی اضطراب ہے۔ داخلی حالات ان کے مطلق اقتدار کی راہ میں حائل ہیں۔ اگر اپنی نرگسیت کے زیرِ اثر وہ اس راہ پر مزید پیش قدمی کرنا چاہیں گے تو زمین ان کے پاؤں تلے سے سرکنا شروع کر دے گی۔ اگر وہ ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے اس جنگ کو رکوانے میں کردار ادا کرتے ہیں تو ان کیلئے یہ راستہ موجود ہے۔ اس کیلئے انہیں اپنے ارادے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
چین بھی یہی چاہے گا کہ بات آگے نہ بڑھے۔ اس کا عالمی اثرو رسوخ حالتِ امن ہی میں بڑھ سکتا ہے۔ عالمی قوت بننے کے لیے چین نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ تجارتی و اقتصادی ہے۔ اس راہ کا پُرامن رہنا اس کی ضرورت ہے تاکہ تجارتی قافلے رہزنوں سے محفوظ رہیں۔ چین چاہے گا کہ جنگ کا خاتمہ ہو۔ اس معاملے میں اسے یورپ اور دوسرے ممالک کی تائید حاصل ہو گی۔ یورپ ابھی تک یوکرین کی جنگ کے اثرات سمیٹ رہاہے‘ اس لیے کسی نئی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ روس بھی یہی چاہتا ہے۔ اسرائیل کی کامیابی یہ ہے کہ ایران کی عسکری پیش قدمی اب کئی برس کے لیے رک جائے گی۔ ایران کے اندر ایک بحث شروع ہو جائے گی جس کا ایک انجام قیادت کی تبدیلی بھی ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے شہری بھی اب نیتن یاہو جیسی قیادت سے نجات چاہیں گے کہ انہوں نے جنگ کا مزہ چکھ لیا ہے۔ یوں مشرقِ وسطیٰ ترقیٔ معکوس کا ایک اور مرحلہ طے کر لے گا۔
تاریخ کا ایک مابعد الطبیعیاتی پہلو یہ ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے بارے میں کچھ فیصلوں کا پہلے سے اعلان کر رکھا ہے۔ تنبیہ اور انذار کے عمومی قوانین کا معاملہ الگ ہے جن کا اطلاق قیاسی ہے۔ ذریتِ ابراہیم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے ساتھ جو ہونا ہے‘ اس کی خبر دے دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر یہود کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط کرتا رہے گا جو انہیں شدید عذاب دیں گے (الاعراف: 167)۔ ایسا ہی ایک عذاب ہٹلر کی صورت میں ہم دیکھ چکے۔ یہ بھی بتا دیا گیاکہ حضرت مسیحؑ کو ماننے والے ان پر غالب رہیں گے۔ گویا یہ ان کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ (آل عمران: 55)۔ سب جانتے ہیں اسرائیل کی کوئی اوقات نہیں‘ اگر امریکہ اور برطانیہ جیسی قوتیں اس کی پشت پر نہ ہوں۔ ان کی مدد کے بغیر اسرائیل قائم ہو سکتا تھا اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔
تاریخ کا ایک مابعد الطبیعیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ عالمِ انسانیت اپنا سفر پورا کرنے والی ہے۔ ختمِ نبوت دراصل یہ اعلان تھا کہ قیامت اب زیادہ دور نہیں ہے۔ نبیﷺ نے اپنی دو انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ قیامت اور میں زمانی اعتبار سے ایسے ہی متصل ہیں جیسے یہ دو انگلیاں۔ قیامت شدنی ہے مگر اس کا حتمی وقت اللہ نے پیغمبروں کو بھی نہیں بتایا۔ اس کا تعیّن ہم ان نشانیوں سے کرتے ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوئیں یا اللہ کے آخری رسولﷺ سے کسی مسند روایت میں۔ قیاس یہ ہے کہ وہ اب زیادہ دور نہیں۔ چین کا عالمی غلبہ ممکن ہے تاریخ کا آخری باب ہو۔ واللہ اعلم۔
قیامت کی آمد تک طاقت کا یہ کھیل جاری رہے گا کہ انسان کی مہلتِ عمل ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانونِ آزمائش کے تحت اسے ڈھیل دے رکھی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اس کی جبلتیں بے قابو ہوتی رہیں گی۔ طاقت کی بے مہار خوا ہش سے ظلم جنم لیتا رہے گا جس کی سب سے بھیانک صورت جنگ ہے۔ جنگ کا دور کبھی ختم نہیں ہو گا۔ ہم اس کی صرف آرزو کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں جرم نہ ہو‘ سب کے جان و مال محفوظ رہیں‘ اسی طرح ہم ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ سکتے ہیں جس میں جنگ نہ ہو۔ اس خواب کی تعبیر آسان نہیں۔ امن اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ افسوس کہ دنیا میں امن کے خواہاں کم ہو رہے ہیں۔ تہذیب کے نام پر بدترین بدتہذیبی نے جنم لیا ہے۔ مغرب جو بزعمِ خویش تہذیب یافتہ ہے‘ حالیہ واقعات نے بتایا کہ وہ آج بھی وحشت اور بربریت کا قدیم انسانی نمونہ ہے جو پتھر کے دور میں رہتا تھا۔ اسی طرح دنیا میں مذہب جیسے خیر سے لوگوں نے ایسا شر کشید کیا کہ الامان و الحفیظ۔ جب تک انسان کی سیاسی و تہذیبی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے‘ طاقت کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ جاری رہے گی یہاں تک کہ اس عالم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا آخری فیصلہ نافذ ہو جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں