نواز شریف عمران خان ملاقات کی افواہ‘ کیا خبر بن سکتی ہے؟
نواز شریف صاحب کے عروج کا ایک لمحہ بطورِ خاص میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ دن کا تعین تو میں نہیں کر سکتا‘ بس اتنا یاد ہے کہ 1997-98ء کی بات ہے۔ نواز شریف صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ قائدِ ایوان تھے اور دور دور تک ان کا کوئی حریف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ خبر آئی کہ سابق صدر غلام اسحاق خان شدید علیل اور ہسپتال میں ہیں۔ جب نواز شریف صاحب پہلی بار وزیراعظم بنے تو غلام اسحاق خان صدر تھے۔ دوستانہ تعلقات میں ایسی تلخی در آئی کہ دونوں کو اپنا اپنا منصب چھوڑنا پڑا۔ اسی موقع پر انہوں نے وہ تاریخی تقریر کی جس میں ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ نواز شریف صاحب اقتدار سے کیا گئے‘ غلام اسحاق خان کے ساتھ دعا سلام سے بھی گئے۔ غلام اسحاق خان ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے اور گوشۂ گمنامی میں جا بسے۔ اب وہ کسی کو خیر پہنچا سکتے تھے نہ شر۔
میرے دیرینہ دوست صدیق الفاروق مرحوم اُن دنوں نواز شریف صاحب کے پریس سیکرٹری تھے۔ میں نے علالت کی یہ خیر پڑھی تو ان سے کہا: ''آپ نواز شریف صاحب کو مشورہ دیں کہ وہ غلام اسحاق خان کی عیادت کو چلے جائیں۔ وہ اس وقت صاحبِ فراش ہیں اور میاں صاحب کا کوئی مفاد ان سے وابستہ نہیں۔ نواز شریف صاحب پر اللہ نے بڑا فضل کیا اور انہیں عوام نے ایسا اعتماد بخشا ہے کہ انہیں کسی کی محتاجی نہیں رہی۔ اب اگر وہ ان کی عیادت کو جائیں گے تو کوئی اسے سیاسی مفاد کا تقاضا نہیں سمجھے گا۔ اس سے ایک اچھی روایت کا احیا اور نواز شریف صاحب کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ غلام اسحاق خان اب چراغِ سحری ہیں۔ وزیراعظم کا ان کے پاس جانا تلخی میں کمی اور دیرینہ تعلقات کی بحالی کا سبب بن سکتا ہے‘‘۔ صدیق الفاروق صاحب نے میرا مشورہ سنا اورمیری سادہ لوحی پر مسکرا دیے۔ کہا: ''نواز شریف ایک سیاستدان ہے‘ کوئی ولی نہیں‘‘۔
میں سیاست میں در آنے والی اخلاقی پستی پر اُس وقت افسردہ ہوا اور آج بھی ہوتا ہوں۔ ایک سادہ اخلاقی اصول‘ جس کی پاسداری کا تقاضا ہم ایک عام مسلمان سے کرتے ہیں‘ اگر سیاستدان کیلئے ولایت قرار پائے تو اقدار کے اس زوال کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اگر نواز شریف صاحب کو توجہ دلائی جاتی تو وہ غلام اسحاق خان کی عیادت کو ضرور چلے جاتے۔ یہ محض خوش گمانی نہیں۔ کچھ اور واقعات بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کا اخلاقی پوٹینشل معاصر سیاستدانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے مجھے ایک بار یہ واقعہ سنایا۔ سابق آئی جی پولیس سردار محمد چودھری سے ایک دفعہ کسی بات پر نواز شریف صاحب کی شکر رنجی ہو گئی۔ اسی دوران میں سردار صاحب کے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ ان کی تعزیت کیلئے نہیں گئے۔ شامی صاحب نے انہیں توجہ دلائی۔ وزیر اعظم نے سنا۔ جواباً خاموش رہے اور پھر غالباً اسی دن‘ ان کا ہیلی کاپٹر سردار محمد صاحب کے ہاں جا اُترا۔
بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت پر تو سب نے انہیں آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ ہسپتال میں دیکھا۔ عمران خان صاحب کو انتخابی مہم میں حادثہ پیش آیا تو انہوں نے دو دن کیلئے اپنی سرگرمیاں معطل کیں اور ان کی عیادت کو ہسپتال جا پہنچے۔ پھر 2013ء میں انتخابی کامیابی کے بعد‘ خان صاحب سے ملنے بنی گالا چلے گئے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس مزاج کا آدمی ایک دن عمرن خان صاحب سے ملنے اڈیالہ جیل کے گیٹ پر کھڑا ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میرے لیے یہ اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔
جن کے خیال میں یہ کارِ محال ہے‘ ان کی دلیل میں بھی وزن ہے۔ عمران خان صاحب نے شریف خاندان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ وہ ان کے اقتدار ہی نہیں‘ عزت وآبرو کے بھی درپے ہوئے۔ گلی گلی انہیں رسوا کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی۔ اب بھی انہیں موقع ملا تو گمانِ غالب یہی ہے کہ وہ اس کام کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں گے۔ آج وہ دنیا کے ہر فرد سے ہاتھ ملا سکتے ہیں‘ اس خاندان سے نہیں۔ اس پس منظر میں اگر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ نواز شریف صاحب کا اڈیالہ جیل جانا محض ایک مفروضہ ہے تو یہ رائے بے بنیاد نہیں۔ میں اگر اس خبر کو عمران خان صاحب کی افتادِ طبع کے حوالے سے دیکھوں تو شاید یہی رائے قائم کروں۔ میں لیکن اسے نواز شریف صاحب کے زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔ اس افق سے مجھے ایک مختلف منظر ابھرنے کی توقع ہے۔ ان کی اخلاقی حس کے بارے میں اگر میرا تاثر درست ہے تو یہ افواہ کسی وقت واقعہ بن سکتی ہے۔
سیاسیات کا ایک طالب علم ہوتے ہوئے‘ میں جانتا ہوں کہ اقتدار کی سیاست بے رحم ہوتی ہے۔ اس میں حریف کو یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ سر اٹھائے اور پھرآپ کے سر کے درپے ہو۔ سیاست کا ایک درجہ مگر وہ ہے جب اس میدان کا کھلاڑ ی اقتدار کی سیاست سے بلند ہو جاتا اور اقدارکی سیاست کرنا چاہتا ہے۔ نواز شریف صاحب سیاست کے اس پہلو سے واقف ہیں۔ اس وقت وہ دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ کیا معلوم کس لمحے وہ اقتدار کی ناؤ میں رکھا قدم‘ اقدار کی کشتی میں رکھ دیں۔ یہ تو دکھائی دے رہا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اس سے پوری طرح خوش نہیں۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ قومی اتفاقِ رائے کو پارٹی کے اقتدار پر مقدم سمجھتے ہوئے اڈیالہ جیل جا پہنچیں۔
میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ اگر انہیں کسی مثبت جواب کی کچھ بھی توقع ہو تو وہ یہ قدم اٹھانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کریں۔ یہ افواہ خبر بن سکتی ہے اگر عمران خان خود پسندی کے حصار سے نکلیں اور سیاست کو انتقام کے بجائے استحکام کا ذریعہ سمجھیں۔ وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریں اور یہ جانیں کہ مذاکرات اہلِ سیاست ہی سے ہوتے ہیں۔ نہ وہ فرشتے ہیں اور نہ دوسرے شیطان۔ سیاسی عمل کا ایک فطری بہاؤ ہے اور اسی کے ساتھ بہنا چاہیے۔ ان کو اگر آج عوام کے بڑے طبقے کی تائید حاصل ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے روشن مستقبل کیلئے ایک مستحکم ریاست کے علمبردار بنیں۔ اس کیلئے صبر‘ حوصلہ اور دوسروں سے میل جول لازم ہے۔ دوسروں کو مٹانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں ایک توازن اسی وقت باقی رہ سکتا ہے جب کسی فرد یا گروہ کا اقتدار مطلق نہ ہو۔
نواز شریف عمران خان ملاقات کی افواہ اگر واقعہ نہیں بنتی تو بھی میں اس کے پس منظر میں روشنی کی ایک کرن کو پھوٹتا دیکھ رہا ہوں۔ سب کو ایک دوسرے کا وجود قبول کر نا ہو گا۔ یہ فرمانِ امروز ہے۔ یہ واقعہ ایک لاحاصل کشمکش کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے یا اس کے بغیر‘ اس کا فیصلہ اہلِ سیاست کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں زیادہ کردار عمران خان صاحب کو ادا کرنا ہے۔ میں نواز شریف صاحب سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اَنا کے اس دریا کو عبور کر سکتے ہیں۔ کاش میں خان صاحب کے بارے میں یہ گمان رکھ سکتا۔ وہ اس وقت دہری قید میں ہیں۔ ان کے ارد گرد اَنا کا حصار بھی ہے اور جیل کی دیوار بھی۔ تنہائی غور وفکر کیلئے ایک نعمت ہے۔ میری دعا ہے کہ عمران خان صاحب اس نعمت سے پورا فائدہ اٹھائیں۔ جس دن انا کا حصار ٹوٹا‘ ان کیلئے جیل کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔