"KNC" (space) message & send to 7575

ناتمام خواہشیں!

بہت سوں کی خواہش ہے کہ عمران خان صاحب سیاست کے اُفق پر دکھائی نہ دیں۔ یہ تمنا مگر بر نہیں آتی۔ اَنگنت ہیں جنہیں سیاست میں نواز شریف صاحب کا وجود گوارا نہیں۔ ان کے مقدر میں مگر نامرادی لکھی ہے۔ کتنے ہیں جو چاہتے ہیں کہ آصف زرداری صاحب ایوانِ صدارت سے رخصت ہو جائیں۔ ان کے لیے مگر مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس 'کیوں‘ میں سیاست کے راز پوشیدہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ذہنی ساخت کو مختلف بنایا ہے۔ ان کی پسند ناپسند یکساں نہیں۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی معاشرے میں ساری آبادی ایک سوچ کی حامل رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر کئی بار اپنی عدالت لگائی۔ اتمامِ حجت کیا۔ حق وباطل کو دو اور دو چار کی طرح الگ الگ کر کے دکھا دیا۔ اس کے باوصف‘ انسانوں کے دو گروہ موجود رہے۔ وہ جنہوں نے حق کو مانا اور وہ جنہوں نے انکار کیا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم کے لیے خدا کا فیصلہ آ گیا۔ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پہاڑ جیسی موجوں میں‘ جب اُن کی کشتی ہی سفینۂ نجات تھی‘ انہوں نے اپنے بیٹے کو خبر دار کیا اور کشتی میں سوار ہو نے کے لیے کہا۔ اس کا جواب تھا 'میں تو پہاڑ پہ چڑھ جاؤں گا‘۔ جب حق وباطل میں فیصلہ کن تفریق کے باوجود‘ لوگ دو گروہوں میں بٹے رہتے ہیں تو اُس وقت معاملہ کیا ہو گا جب خدا کی ایسی کوئی حجت موجود نہ ہو۔ اس لیے یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ کسی معاشرے میں صرف ایک گروہ رہے گا اور باقی نیست ونابود ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قانونِ آزمائش کے تحت بنایا ہے اور انسان کو یہ حق دیا ہے کہ جو خیالات چاہے اپنائے۔ انسان کئی داعیات کا مجموعہ ہے۔ اس کے رجحانات متنوع عوامل کے تابع ہیں۔ اس کے تعصبات ہیں۔ اس کا مفاد ہے۔ وہ فکری کجی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سیاست بھی اپنے اندر ایک سے زیادہ احتمالات رکھتی ہے۔ اگر کوئی ایک احتمال کو درست سمجھتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے کہ دوسرا‘ کسی اور احتمال کو ٹھیک قرار دیتا ہو۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ اسی کی وجہ سے انسانی معاشرہ ایک سے زیادہ خیالات کا حامل ہوتا ہے۔ یہ مذہب میں ہو سکتا ہے تو سیاست میں کیوں نہیں؟
اس زمین پر کسی کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں کہ وہ بزور کسی سے کوئی بات منوا ئے۔ ریاست کو قانون کے نفاذ کے لیے یہ اتھارٹی حاصل ہے مگر وہ بھی غلط صحیح کا فیصلہ کرنے کے لیے نہیں‘ صرف سماجی نظم قائم رکھنے کے لیے۔ ریاست کسی کو پابند نہیں کر سکتی کہ وہ کسی خاص مذہب کو اختیار کرے یا سیاست میں فلاں پارٹی کا حصہ بنے۔ ماضی میں یہ جبر ہوتا تھا جب سیاسی اور مذہبی پیشوا عوام کو کسی خاص نظریے کا پابند بناتے اور انکار پر سزا دیتے تھے۔ اسی جبر کے خلاف عالمی سطح پر ردِعمل ہوا اور انسانیت نے بالاجماع اس کو مسترد کر دیا۔ اس لیے انسانوں میں اختلاف ہو گا اور اس کی وجہ سے ایک سے زیادہ گروہ بھی وجود میں آئیں گے۔
حقیقت پسندی یہ ہے کہ معاشرے کی فطری ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے انسانوں سے معاملہ کیا جائے۔ سیاست میں اس بات کو مانا جائے کہ ایک سے زیادہ جماعتیں ہوں گی اور ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے‘ کوئی حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سیاسی عصبیت کو ریاستی جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مقبول راہنماؤں کو بھی جاننا ہو گا کہ پاپولزم کے زور پر ریاست کو بے دست وپا نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عصبیت ایک حقیقت ہے اور ریاستی قوت بھی ایک حقیقت ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے وجود اور قوت کو مان کر پیش قدمی کرنا ہو گی۔ تصادم کی ہر شکل کا انجام بربادی ہے۔ جسے انقلاب کہتے ہیں اور جو بظاہر ایک قوت کا دوسری قوت پر غلبہ ہے‘ اس کے نتائج بھی بھیانک رہتے ہیں۔ ہزاروں جانوں کا تاوان‘ وہ کم از کم قیمت ہے جو اس کامیابی کے لیے لازماً ادا کرنا پڑتی ہے۔
ہمارا مسئلہ وہی ہے جس کی ایک بار مولانا وحید الدین خاں صاحب نے نشاندہی کی تھی۔ ہم روزمرہ اور ذاتی زندگی میں حقیقت پسند ہوتے ہیں اور قومی زندگی میں مثالیت پسند۔ میں اس پر یہ اضافہ کروں گا کہ یہ بات عام آدمی کے لیے درست ہے مگر راہنماؤں کے لیے نہیں۔ راہنما اپنے مفاد میں حقیقت پسند ہوتے ہیں مگر عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لیے مثالیت پسند بن جاتے ہیں۔ ایک طرف روایتی سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دے کر ان سے نجات کے لیے آواز بند کریں گے کہ عام آدمی کو اسی طرح دام میں لایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ کرپٹ اور ڈاکو‘ سیاسی سفر میں کسی توبہ کے بغیر ہم سفر بننا چاہیں تو ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے۔ عوام کے بارے میں ان کا تاثر یہ ہے کہ وہ جب کسی کو دل دے بیٹھیں تو اپنی عقل کو محبت وعقیدت کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں۔ تاریخ نے ان کے اس تاثر کو درست ثابت کیا ہے۔
اس تضاد کے خاتمے کے لیے عوام کا باشعور ہونا لازم ہے۔ جب اہلِ سیاست کو یہ اندازہ ہو گا کہ عام شہری کو دھوکا دینا مشکل ہے تو وہ بھی مغرب کے سیاستدانوں کی طرح محتاط ہو جائے گا۔ جمہوریت اسی وقت ثمربار ہو تی ہے کب عوام کی شعوری سطح بلند ہو۔ یہ کام اہلِ دانش کا ہے‘ رائے سازوں کا ہے کہ وہ عوام کو حقائق سے باخبر رکھیں۔ وہ انہیں بتائیں کہ آئیڈیلز کو سامنے رکھا جاتا اور ان کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے مگر فیصلے ہمیشہ زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ بیٹیوں کو اچھا جیون ساتھی ملے۔ انہیں کسی مشکل صورتِ حال کا کبھی سامنا نہ ہو۔ اس کے لیے ہم ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے باوصف جب بیٹی کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو ہم مثالی رشتے کا انتظار نہیں کرتے‘ موجود رشتوں میں سے‘ جسے بہتر سمجھتے ہیں‘ قبول کر لیتے ہیں۔
سیاست میں بھی اسی اندازِ نظر کی ضرورت ہے۔ ریاست کے ذمہ دار ہوں یا سیاستدان‘ ان میں کوئی مثالی نہیں۔ اس لیے یہ نظام بھی مثالی نہیں۔ دنیا میں کوئی نظام فی نفسہٖ مثالی نہیں ہوتا۔ نظام افراد بناتے ہیں۔ خلافتِ راشدہ اس لیے مثالی تھی کہ اس کا عام شہری صحابی اور حکمران ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما تھے۔ یہ نظام اپنی روح میں جمہوری تھا۔ اس میں عوام حکمرانوں کا احتساب کر سکتے تھے۔ اس وقت ہم جس سماج میں زندہ ہیں‘ اس میں موجود افراد ہی سے رجالِ کار سامنے آئیں گے۔ سب کو اس اعتراف کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کرنا اور آگے بڑھنا ہو گا۔ عمران خان صاحب کو موجود سیاستدانوں ہی سے بات کرنا ہو گی۔ دوسروں کو بھی خان صاحب کے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا۔ عمران خان صاحب کو سمجھنا ہو گا کہ جب کسی کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو وہ آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ کیا انہوں نے خاموشی سے‘ محض اپویشن کے مطالبے پر حکومت چھوڑ دی تھی؟ عدم اعتماد کے باوجود‘ صدر کے ساتھ مل کر ہر قانونی وغیر قانونی حربہ آزمایا۔ دوسر ے بھی انہیں اقتدار طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کریں گے۔ یہی وہ حقیقت پسندی ہے‘ سیاست جس کا تقاضا کرتی ہے۔ سب کو راستہ بنانا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی نفی نہیں‘ اثبات سے ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں