"KNC" (space) message & send to 7575

امتِ مسلمہ کا سماجی تصور

مسلم ریاستوں کے باہمی تعلقات ہمارے ہاں اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں۔ مسلم معاشروں کے تعلقات پر مگر ہم بہت کم بات کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جب ہم اسلام کو ایک سیاسی فکر اور اسلامی ریاست کے قیام کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں تو یہ اس کا بدیہی نتیجہ ہے۔ اس سے سماج اور سماجی وسیاسی اداروں کے بارے میں ہمارا زاویۂ نظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سوچ کے زیرِ اثر امتِ مسلمہ ہمارے لیے ایک سیاسی تصور قرار پاتی ہے۔ جب ہم مسلمانوں کے مابین وحدت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مسلم ریاستوں کی وحدت ہوتی ہے۔ ہم اپنے مسائل کیلئے مسلم حکمرانوں کو کوستے ہیں۔ یہی نہیں‘ مسائل کو بھی سیاسی دائرے ہی میں محدود دیکھتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل غیر سیاسی ہیں۔ ان کے حل کیلئے ہمیں ایک مختلف نظامِ فکر کی ضرورت ہے۔
مسلم معاشرے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان نظامِ فکر کی وحدت کے باوجود‘ سماجی ومعاشرتی حوالے سے مختلف تشخص رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کے طرزِ عمل کو دیکھیں تو ہمیں وحدت تنوع میں بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر مسلم معاشروں میں سماجی سطح پر باہمی استفادے پر توجہ دی جائے تو ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے غور وفکر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ اس کے کچھ فوائد ایسے ہیں جن کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس تجربے سے گزریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور مسلم معاشروں کیلئے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ وہ سماجی تغیر اور ارتقا سے گزریں۔
شادی کی عمر ہی کو دیکھیے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ تمام مسلم معاشروں کو اس کا سامنا ہے۔ عالمگیریت کے عہد میں مسلم معاشرے دوسری تہذیبوں کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان اثرات نے مسلمانوں کے تہذیبی امتیاز کو متاثرکیا ہے۔ وہ سماجی اضطراب کا شکار ہیں اور سکون کی تلاش میں ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس باب میں ہم ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہت سے مسلم معاشروں میں اس حوالے سے سماجی سطح پر بڑی حد تک اتفاقِ رائے پیدا ہو چکا ہے اور وہ اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ ہم ان سے استفادہ کر کے اپنے سماجی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ گویا سماجی وحدت کی طرف بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ دنیا میں چودہ مسلم ممالک میں شادی کیلئے عمر کی کم ازکم حد متعین کر دی گئی ہے۔ اگر ہم سماجی وحدت کو آگے بڑھائیں تو کبھی اس معاملے پر اضطراب کا شکار نہ ہوں۔ اگر مسلم ممالک سماجی دائرے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو اس سے سماجی قرب پیدا ہو گا اور اس کے ساتھ امت کی وحدت کا تصور بھی مزید مضبوط ہو گا۔
میں اکثر انڈونیشیا کی مثال دیتا ہوں۔ اس نوعیت کی مثالیں اور بھی ہیں۔ عراق بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں کے بعض تجربات سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک تجربہ شیعہ سنی ارتباط ہے۔ عراق میں شیعہ اکثریت میں ہیں مگر سنی بھی 40فیصد سے زیادہ ہیں۔ تاہم ان کی آبادیاں منقسم ہیں۔ وہ مخلوط نہیں ہیں۔ نجف اور کربلا میں شیعہ آباد ہیں۔ تکریت اور موصل میں سنیوں کی اکثریت ہے۔ بغداد میں سنی اکثریت میں ہیں مگر اہلِ تشیع کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہیں۔ مسلکی وحدت کے باوجود‘ عراق کے شیعہ علما کا فہمِ دین اور لب ولہجہ ایرانی علما سے یکسر مختلف ہے۔ عراق کے علما اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کی دلچسپی کا مرکز ریاست نہیں‘ معاشرہ ہے۔ ریاست کا آئینی نام 'جمہوریہ عراق‘ ہے۔ یہاں علما نے 'اسلامی جمہوریہ عراق‘ کیلئے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی مگر سماج پر ان کے غیر معمولی اثرات ہیں۔ انہوں نے تعلیمی اور سماجی فلاح کے جو ادارے بنائے ہیں‘ وہ بھی بہت منفرد ہیں۔ خمس سے ان کو اتنے وسائل مل جاتے ہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کیلئے ریاست کے محتاج نہیں رہتے۔ عراق میں شیعہ سنی اختلاف اس وقت سماجی مسئلہ بنا جب القاعدہ یا داعش جیسی انتہاپسند تنظیموں نے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس سے پہلے بھی اگر یہ ا ختلاف ابھرا تو اس کا سبب سیاسی تھا۔ عراق میں مسلکی اختلاف قدرے تفصیل کا متضاضی ہے جس پر میں الگ سے لکھوں گا۔ اس وقت مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ وہاں علما نے سیاست کے بجائے جس طرح علم‘ تحقیق اور خدمت کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا‘ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب امتِ مسلمہ کا سماجی تصور ہمارے پیشِ نظر ہو۔ ہم نے وحدتِ امت کو حکومتوں کی سطح پر اتحاد اور سیاسی معاملات کے ساتھ خاص کر لیا ہے۔ سفارتکاری کا عوامی تصور سامنے آیا اور اس حوالے پیش رفت بھی ہوئی۔ جیسے پاکستان بھارت کے مابین سول سوسائٹی اور میڈیا کے اداروں میں وفود کا تبادلہ ہوا۔ اس کا مقصد باہمی تعلقات میں بہتری لانا تھا۔ اگر مسلم معاشروں میں بھی اسی سطح پر ربط پیدا ہو تو مسلمانوں کی وحدت میں اضافہ ہو گا اور اس سے بھی اہم تر یہ ہے کہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھا جا سکے گا۔ اس کیلئے سوچ کے زاویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جہاں جہاں سماج کا تصور زندہ ہے‘ ہمیں باہمی استفادے کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے یورپی ممالک۔ یہ مشترکہ سماجی اقدار رکھتے ہیں۔ ان اقدار کی بنیاد پر ان کے درمیان ایک تہذیبی وحدت ہے جو ان کی شناخت کیلئے تقویت کا باعث ہے۔ مسلم ممالک بھی اس نظامِ حیات کو ماننے والے ہیں لیکن ان کے مابین اس نوعیت کی وحدت موجود نہیں۔ اس کی وجہ مسلم نظامِ فکر میں سماج کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ہے۔ جہاں مسلم قیادت زیادہ بالغ النظر ہے وہاں سماج کو ریاست پر مقدم سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک میں علمی وفکری قیادت‘ ریاست اور حکومت کی تبدیلی کے بجائے سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ ان ممالک کی ریاستیں بھی مضبوط ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ شاید سنگین تر ہے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ دیگر مسلم ممالک میں سماج کی قوت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اور ایران میں بطورِ خاص سماج کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ افغانستان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان ممالک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام بھی دوسرے مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اگر ہم دوسرے مسلم ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں تو ہم بھی اپنی سماجی قوت بڑھا سکتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ہمارے ہاں اگر علما یا کسی دوسرے گروہ کو ان تجربات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے تو ان میں اس طرح کی کوئی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔ مجھے علما کے ساتھ کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں ان ممالک میں سماجی اداروں کی قوت سے متاثر ہوا اور ہمیشہ یہ خیال پیدا ہوا کہ پاکستان میں بھی اس نوعیت کی سماجی قوت موجود ہے جس کو خیر کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرے ہم سفروں میں مگر یہ خیال کبھی جگہ نہیں بنا سکا۔ وہ واپس آکر بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے۔ مجھے اپنی ریاست تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر سماج کا بھی یہی حال رہا تو بہتری کا کوئی خواب شاید ہی نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں