سوات میں طالبعلم کا قتل ایسا واقعہ نہیں کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے۔ کوئی قوم اپنا مستقبل درندوں کے حوالے کیسے کر سکتی ہے؟
بارہا تجزیہ کیا جا چکا۔ دینی تعلیم کے اداروں کی صورتِ حال پر اَن گنت مذاکرے ہو چکے۔ کتابیں لکھی گئیں۔ رپورٹس شائع ہو چکیں۔ تجزیے کا دور گزر چکا۔ اب اقدام کا وقت ہے۔ یہ اقدام حکومت کو کرنا ہے اور سماج کو بھی۔ سب کو طے کرنا ہوگا کہ دین کے نام پر اس وحشت ودرندگی کو کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس اقدام کے لیے دینی مدارس کے منتظمین کا کردار سب سے اہم ہے۔ کیا وہ اس کی سنگینی کا ادارک رکھتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان واقعات کا تعلق پاکستان میں دینی تعلیم کے مستقبل سے ہے؟
دینی مدارس کے ذمہ داران سے جب بھی ایسے موضوع پر بات ہوئی‘ ان کا رویہ ہمیشہ 'مفاداتی گروہ‘ کا رہا۔ انہوں نے اصلاح کی ہر تجویز کے بارے میں یہ خیال کیا کہ یہ مدرسے کے خلاف کوئی سازش ہے۔ تحفظِ مدارس کے نام پر حکومت اور سماج کو دفاعی مقام پر لا کھڑا کیا گیا۔ پاکستان میں حکومتیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ سماج کے بنیادی مسائل کو موضوع بنا سکیں۔ وہ مفاداتی گروہوں سے بلیک میل ہوتی ہیں اور ایسے مسائل کو قالین تلے دبانے میں عافیت سمجھتی ہیں۔ یہ گروہ جب چاہیں عدلیہ کو للکاریں‘ ہر اخلاقی قدر کو پامال کریں‘ کسی حکومت میں یہ جرأت نہیں کہ وہ ان گروہوں کے خلاف اقدام کرے۔ یہ گروہ بہت سے ہیں۔ ان میں قبائلی سردار بھی ہیں جو پارلیمنٹ میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی وکالت کرتے ہیں تو حکومتیں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ اسی لیے حکومتوں سے کوئی توقع باندھے کے بجائے ہمیں اہلِ مدارس سے مخاطب ہونا ہے۔ کیا مدارس اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے کسی اصلاح پر آمادہ ہیں؟
دینی مدارس کے مہتمم حضرات کو سمجھنا ہو گا کہ ایسے واقعات سماج میں ان کی ساکھ کے لیے شدید دھچکا ہیں۔ لوگ اپنے بچے امانتاً ان کے حوالے کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں دین کا علم دیں۔ ایسے واقعات کے بعد‘ معاشرہ اس سوال پر سنجیدگی سے سوچے گا کہ کیا اسے ایسے اداروں کی مدد کرنی چاہیے جہاں دین کے نام پر طالبعلم کی جان محفوظ ہے نہ عزت؟ دینی علوم کے ماہرین معاشرے کی ضرورت ہیں۔ ایسے افراد کا ہونا لازم ہے جو لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور انہیں انذار کریں۔ انذار کیا ہے‘ خدا کی طرف بلانا اور اس دن کے بارے میں متنبہ کرنا جب انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہو گا اور اسے اپنے پروردگار کے سامنے اپنے نامہ عمل کا حساب دینا ہو گا۔ مدارس تب ہی یہ ذمہ داری ادا کر پائیں گے جب خوفِ خدا اور داعیانہ مزاج رکھنے والے علما یہاں سے پیدا ہوں گے۔ یہ تب ہو گا جب ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اچھا ماحول فراہم کیا جائے گا۔
تجربہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے ذمہ داران کو جب اس جانب متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ خود احتسابی کے بجائے دوسرے طبقات کی خامیوں کو‘ اپنی غلطیوں کے لیے آڑ بنا لیتے ہیں۔ ایک مجلس میں ایک مرتبہ اسلام آباد کی سرکاری زمینوں پر مساجد کی تعمیر کا مسئلہ زیرِ بحث آیا۔ یہ سب کے نزدیک دینی اعتبار سے ناجائز ہے۔ علما کو جب اس جانب متوجہ کیا گیا تو ان کا مؤقف یہ تھا کہ شہر میں بہت سے پلازے بھی سرکارکی زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں‘ پہلے انہیں گرائیں پھر مساجد کی بات کریں۔ میرے لیے یہ استدلال افسوسناک تھا۔ دینی مدارس میں تشدد اور طلبہ کی بے حرمتی پر یہ کہا جاتا ہے کہ کیا سرکاری سکولوں میں یہ نہیں ہو رہا؟ علما سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہ استدلال دوسرے کا منہ تو شاید بند کر دے مگر ایک غلط کام کو درست ثابت نہیں کر سکتا۔ محض منہ بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
مدارس کے منتظمین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر تنقید سازش نہیں ہوتی۔ تنقید خیر خواہی کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ میرے جیسے لوگ ان مدارس کے خیر خواہ ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس طبقے کا اچھا تاثر قائم رہے اور سماج ان کا مدد گار بنے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ایسے واقعات کا تدارک ہو گا اور علما سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو حل کرتے دکھائی دیں گے۔ کاش حکومت سے پہلے اس واقعے پر دینی مدارس کے وفاق سامنے آتے۔ ایسے واقعات سے اعلانِ برأت کرتے اور اس سے پہلے کہ حکومت کوئی اقدام کرتی‘ یہ آگے بڑ ھ کر خود احتسابی کے ساتھ اس کا نوٹس لیتے اور انتظامی قدم اٹھاتے۔
کل‘ 23جولائی کو متحدہ مجلسِ عمل کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ اس کے اعلامیے میں دنیا جہاں کے مسائل زیرِ بحث آئے مگر مدرسے میں طالب علم کے قتل کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر اس واقعے پر تنظیمات المدارس کا ہنگامی اجلاس بلایا جاتا‘ جس میں یہ سب لوگ شریک ہوتے اور قوم کو یہ پیغام ملتا کہ مدارس کے داخلی ماحول کے بارے میں یہ لوگ سنجیدہ ہیں تو اس سے مدارس کی ساکھ بہتر ہوتی۔ سوشل میڈیا پر سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری کے فرزند کی ایک پرانی تقریر کا کچھ حصہ وائرل ہے‘ جن کا نام غالباً سید عطا المومن ہے۔ انہوں نے جس احساس اور درد مندی کے ساتھ ایک طالب علم کی حیثیت اور اس باب میں اساتذہ اور مدارس کے ذمہ داران کا کردار بیان کیا‘ وہ ان کی خیر خواہی کا اظہار ہے۔ دین سے محبت رکھنے والا ہر کوئی چاہے گا کہ اپنے بچوں کو شاہ صاحب کی طرح کے استاد کے پاس بھیجے۔ یقینا ایسے حلیم اور طالب علم کے قدر شناس اساتذہ اور بھی ہوں گا۔ مدارس کو انہیں اپنا نمائندہ بنا کر پیش کرنا چاہیے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے دارالعلوم دیوبند میں گزرے اپنے دورِ طالب علمی کے احوال بہت دلچسپ انداز میں لکھے ہیں۔ ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طالب علم‘ وہ دینی مدرسے کا ہو یا کسی عام سکول کا‘ ایک جیسا ہوتا ہے۔ عمر کے ایک خاص حصے میں سب کے رویے یکساں ہوتے ہیں۔ مدارس کی انتظامیہ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ طالب علم شرارت بھی کرے گا۔ اس سے کوتاہی بھی ہو جائے گی لیکن استاد کو کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے اس کی طالب علمانہ معصومیت متاثر ہو۔ یہ طالب علم قوم کی امانت اور اس کا مستقبل ہیں۔ یہ دور دراز سے اپنی ماں کا آغوش‘ محبت اور اپنے باپ کی چادرِ شفقت سے نکل کر آتے ہیں۔ مدرسے میں انہیں اس کا متبادل ملنا چاہیے۔ استاد کو ایک باپ کی شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تشدد اور بے حرمتی ان کی شخصیت کے بنیادی جوہر چھین لیتی ہے۔ رحم اور انسانیت ان کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ جواب میں پھر وہ سماج کو وہی کچھ لوٹاتے ہیں جو انہیں مدرسے سے ملتا ہے۔
حکومت نے مدرسے کو بند کر دیا۔ اس کی ذمہ داری کی بات پھر ہو گی۔ اس وقت ہم نے دیکھنا ہے کہ مدارس کے ذمہ داران کا ردعمل کیا ہے۔ یہ ایک طالب علم کا قتل ہے اور کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اہلِ مدرسہ اس کی سنجیدگی کو محسوس کریں اور مدارس کے ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے اقدام کرتے دکھائی دیں۔ مدرسے کے خلاف آج کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ ان کے مستقبل‘ مفاد اور ان کی ساکھ کو اگر کوئی نقصان پہنچا تو خود ان کے اپنے ہاتھوں پہنچے گا۔ اس کا تدارک بھی ان ہی کو کرنا ہے۔