راولپنڈی میں کوئی جرگہ سسٹم نہیں ہے۔
میں راولپنڈی کا رہنے والا ہوں۔ شہر سے کم وبیش ایک گھنٹے کی مسافت پر میرا گائوں ہے‘ چک امرال۔ مدت سے شہر میں آباد ہوں۔ کبھی کہیں کوئی جرگہ دکھائی نہیں دیا۔ سارے تنازعات تھانے کچہری کی معرفت ہی سے حل ہوتے ہیں۔ یہاں تھانے کچہری میں وہی کچھ ہوتا ہے جو سارے ملک میں ہوتا ہے۔ برادری کے بڑے بھی مسائل کو حل کرتے ہیں مگر اس کی نوعیت انفرادی ہے۔ سماجی سطح پر ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں جو ملکی نظامِ قانون کے متوازی چلتا ہو اور جہاں جزا وسزا کے فیصلے ہوتے ہوں۔ چند دن پہلے جب یہ خبر سنی کہ راولپنڈی میں جرگے نے ایک لڑکی کے قتل کا فیصلہ سنایا اور اس پر عمل بھی ہوا تو میں چونک اٹھا کہ اس شہر میں جرگہ کہاں سے آیا؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سے بے خبر کیسے رہے؟
پوٹھوار کے خطے کو یہ امتیازحاصل ہے کہ یہاں جاگیردارانہ نظام موجود نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کی زمین کنالوں میں ہے‘ مربعوں میں نہیں۔ پھر یہ زمین زیادہ تر بارانی ہے۔ نہریں یہاں نہیں ہیں اور چاہی زمین بھی کم ہے۔ اس لیے زمین کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہے۔ نتیجتاً مزارعت بھی نہیں ہے۔ یہ آزاد لوگوں کا خطہ ہے۔ وہ خود کسی شخصیت یا سیاسی ومذہبی گروہ کا قلادہ گلے میں نہ ڈالیں تو کوئی انہیں مجبور نہیں کر سکتا۔ گویا جرگے کا نظام جن معاشی وسماجی عوامل کا نتیجہ ہیں‘ وہ یہاں نہیں پائے جاتے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہاں جرگے کا یہ فیصلہ کیسے نافذ ہوا؟
پچھلی چند دہائیوں میں یہاں آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ افغانستان میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی اور خیبر پختونخوا کا امن دگرگوں ہوا تو قبائلی علاقوں کے ساتھ اس صوبے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس طرف کا رخ کیا۔ اس وقت راولپنڈی اسلام آباد میں پختون آبادی کا تناسب کم وبیش چالیس فیصد تک ہو گا۔ یہ میرا اندازہ اور مشاہدہ ہے‘ باضابطہ سروے نہیں۔ بعض علاقوں میں تو پختون مقامی لوگوں سے زیادہ ہیں‘ جیسے ترنول کا علاقہ۔ راولپنڈی کے کاروباری مراکز پر پختونوں کاغلبہ ہے۔
یہ لوگ جب یہاں آئے تو اپنا کلچر ساتھ لائے۔ یہ فطری تھا۔ جرگہ سسٹم اس کلچر کا حصہ ہے۔ یہ لوگ اب یہاں جائیدادوں کے مالک ہیں اور اس حوالے سے مقامی ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ عام طور پر ان کی روایات میں مداخلت نہیں کرتی۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ جرگہ سسٹم کا معاملہ مگر یہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے قانون کے متوازی جزا وسزا کا ایک نظام ہے۔ اس میں لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلے قانون کے بجائے روایت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ روایات بڑی حد تک ان بنیادی حقوق کے منافی ہیں جن کی پاسداری کا وعدہ آئینِ پاکستان میں کیا گیا ہے۔ اس لیے انہیں نافذ نہیں ہونا چاہیے۔ راولپنڈی کی کلچرل فضا اس کو قبول نہیں کرتی۔ لہٰذا انتظامیہ ایسے اقدام کو نظر انداز نہیں کر سکتی جب مقامی کلچر اس کی زد میں ہو۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اس معاملے کو اب سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہو گا۔
جو طریقہ‘ مثال کے طور پر قبائلی علاقے میں مروج ہے‘ اس کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے کہ مقامی روایت اسے قبول کرتی ہے۔ وہ طریقہ لازم نہیں کہ پنجاب کی ثقافت کو گوارا ہو۔ اگر کہیں بھی مقامی روایات سے متصادم طریقوں کو اپنایا جائے گا تو اس سے سماجی سطح پر اضطراب کا پیدا ہونا لازم ہے۔ یہ معاملہ غلط صحیح کا نہیں‘ سماجی حساسیت کا ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کے مطابق رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس سے بڑھ کر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ بنیادی حقوق سے متصادم روایت کو تو کہیں بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے‘ بالخصوص جب معاملہ کسی کی زندگی اور موت کا ہو۔ راولپنڈی میں پیش آ نے والے واقعے میں یہی ہوا اور دیگر مقامات پر بھی یہی ہوتا ہے۔
نقل مکانی کے کلچرل اور سماجی اثرات کے مطالعہ کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ کراچی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ کراچی کو پختونوں کا سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ سندھ کا یہ صدر مقام ہے اور مہاجر آبادی کا غالب حصہ ہیں۔ اس تنوع کو جب سماجی اور سیاسی سطح پر سمجھنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں ہوئی تو اس نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ ان مسائل نے کراچی کے دروازے پر پہلی بلند آہنگ دستک فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں دی جب ان کے بیٹوں نے باپ کی فتح کا جشن منایا۔ اس دستک کو کسی نے نہیں سنا۔ پھر بھٹو صاحب کے دور میں دوسری دستک دی‘ جب کوٹہ سسٹم نافذ ہوا۔ جب یہ سب آوازیں اَن سنی رہیں تو ایم کیو ایم کی صورت میں لاوا پھٹ پڑا۔ ریاست نے اپنی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اس کو روک تو لیا لیکن کراچی کا نظم ناقابلِ اصلاح ہو گیا۔ شہر کا بڑا علاقہ اب انتظامیہ کے بجائے خودکار اَن دیکھی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ ریاست مجبور ہے کہ ان کو نہ چھیڑے۔ یہ شہر دیدہ اور نادیدہ قوتوں کے مابین غیر تحریری معاہدے سے چل رہا ہے۔
راولپنڈی اسلام آباد میں بھی حالات کا بہائو کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں کی مقامی آبادی اقلیت میں بدلتی جا رہی ہے۔ اس کے سیاسی نتائج نکل چکے‘ سماجی نکل رہے ہیں۔ مغرب کی کثیر التمدنی معاشرت میں تنوع اس لیے گوارا ہے کہ ہر گروہ مغرب کی غالب تہذیبی قدروں سے ہم آہنگ ہو کر رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی متوازی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے سماج میں ردِعمل ہوتا ہے۔ مسلمان اگر وہاں کے ماحول کے مطابق رہیں تو انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ جیسے ہی ان کے ایک گروہ نے انتہا پسندی کو اختیارکیا‘ سماج نے اس کے خلاف ردِعمل کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں مغرب جیسے مستحکم سماج کو بھی شکست وریخت کے عمل سے گزرنا پڑا۔ پاکستان بھی افغانوں کی آمد کے بعد اپنے سماجی تشخص کو برقرار نہیں رکھ سکا۔ ہماری معاشرت اپنی بنیادوں پر نہیں کھڑی ہو سکی۔
راولپنڈی میں جرگے کے تحت‘ نہیں معلوم کتنے فیصلے ہوئے ہوں گے۔ ایک واقعہ سامنے آیا تو اس کی سنگینی کو نمایاں کر گیا۔ میڈیا پر اگر شور نہ اٹھتا تو انتظامیہ بھی اسے نظر انداز کر دیتی۔ میرا خیال ہے اسے راولپنڈی کے دروازے پر ایک دستک سمجھنا چاہیے۔ یہ صدا متوجہ کر رہی ہے کہ نقل مکانی کے اس عمل کو کسی سماجی ضابطے کا پابند بنانا چاہیے۔ پہلے قدم کے طور پر یہ طے ہو جانا چاہیے کہ یہاں آباد ہر فرد کے جان ومال کا فیصلہ ملک کے قانون کے مطابق ہو گا۔ جرگے کا کوئی فیصلہ اس خطے میں نافذ العمل نہیں ہو گا۔ یہاں آباد سب لوگوں کو انتظامیہ کی طرف سے یہ پیغام پہنچ جانا چاہیے۔ اس معاملے میں اگر کوئی سیاسی اثر ورسوخ استعمال ہو گا تو یہ ایک سنگین جرم ہو گا۔ یہ جرگے کے فیصلے ہوں یا ہوائی فائرنگ کا کلچر‘ کوئی خلافِ قانون بات روایت کے نام پر گوارا نہیں کی جائے گی۔ اگر ہمارا حکمران طبقہ یہ چاہتا ہے کہ راولپنڈی؍ اسلام آباد کراچی نہ بنیں تو انہیں ابھی سے اس کے دروازے بند کرنا ہوں گے۔ ملک میں کلچرل ہم آہنگی اور صوبوں کے مابین اچھے تعلقات کے لیے یہ بے حد ضروری ہے۔ راولپنڈی میں پختون مدت سے آباد ہیں اور یہاں کبھی کوئی سماجی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ مقامی آبادی اور پختونوں میں بھائیوں بہنوں جیسا تعلق ہے۔ اگر جرگے کے فیصلے یہاں نافذ ہوں گے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے جن کا وقت سے پہلے ادراک ضروری ہے۔