برصغیر کی تاریخ‘ کیا اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہی ہے؟
ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات اسلامی جمعیت طلبہ نے جیت لیے۔ پچاس پچپن برس پہلے‘ جس آواز کو بالجبر بند کیا گیا تھا‘ آج ایک بار پھر گونج رہی ہے: زندہ ہے جمعیت زندہ ہے۔ یہ کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟ کیا پاکستان میں بھی ایسے نتائج دکھائے جا سکتے ہیں؟قومی ریاست اور نظریاتی ریاست کی کشمکش نے بیسویں صدی میں مسلم فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ قومی ریاست‘ سیاسی اجتماعیت کو جغرافیائی سرحدوں تک محدود کرتی ہے۔ نظریاتی شناخت میں تقسیم جغرافیے کی بنیاد پر نہیں‘ نظریے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اسلام اگر ایک نظریہ ہے تو پھر ساری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں۔ عالمی قوتوں نے مگر دنیا کا جو نقشہ بیسویں صدی میں ترتیب دیا‘ اس میں جغرافیہ قومی وحدت کی اساس ہے۔ اس نے نظریاتی شناخت رکھنے والوں کو ایک مخمصے میں ڈالا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اسے عملاً قبول کر لیا۔ تاہم ان کے نہاں خانۂ دل میں ایک ایسی عالمگیر ریاست کا نقشہ موجود ہے جس میں نظریہ تقسیم کی بنیاد ہے نہ کہ جغرافیہ۔
اسلام کو سیاسی شناخت کے طور پر‘ سب سے پہلے علامہ اقبال نے پیش کیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نہ صرف اس فکر کو نکھارا بلکہ عملاً وہ ریاست بنانے کوشش بھی کی جس کی بنیاد نظریہ ہو۔ اس مقصد کیلئے جو اسلامی تحریک برپا ہوئی‘ وہ جماعت اسلامی تھی۔ چونکہ یہ مقصد نظریے کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کرتا تھا‘ اس لیے تقسیمِ ہند کا مقصد مولانا مودودی کے نزدیک‘ اس مقصد سے کم اہم تھا۔ اس لیے وہ اس بڑے مقصد کو چھوڑ کر‘ تقسیم کے کم تر مقصد کیلئے توانائیوں کو صرف کرنا درست نہیں سمجھتے تھے۔ ہند مگر تقسیم ہو گیا۔ مولانا نے اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک طرف جماعت اسلامی ہند قائم ہو گئی اور دوسری طرف جماعت اسلامی پاکستان۔ دونوں کے درمیان تنظیمی رشتہ ختم ہو گیا مگر نظریاتی وحدت باقی رہی۔ جماعت اسلامی ہند نے وہاں کے آئین کے مطابق اپنے کام کا نقشہ بنایا اور جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستان کے آئین کے مطابق۔
جماعت دوسری بار تقسیم ہوئی جب مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ اس بار مگر جماعت کی حکمتِ عملی 1947ء سے یکسر مختلف تھی۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کو متحد رکھنے کی پوری کوشش کی۔ اس کیلئے جان ومال کی قربانی دی۔ جماعت کی قیادت سمجھتی تھی کہ یہ مسلم اکثریتی ملک ہے‘ اس لیے یہاں نظریاتی وحدت کو قائم رکھنا ممکن ہے۔ جماعت اسلامی کی یہ قربانی رائیگاں گئی اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ اس کے ساتھ جماعت بھی ایک بار پھر دو حصوں میں بٹ گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد دونوں ممالک کی جماعت نے اپنے اپنے ہدف کو تبدیل کر لیا۔ ہند میں جماعت نے سیاست کے بجائے دعوت کو اپنی کوششوں کا میدان بنایا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی غالب اکثریت ہندو ہے‘ وہاں اسلامی انقلاب کا نعرہ حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ تقسیمِ پاکستان کے بعد جو دو ملک بنے‘ ان دونوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس لیے جماعت کی حکمت عملی دونوں ممالک میں یکساں رہی۔ دونوں کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی۔
بنگلہ دیش میں قوم پرستوں نے ان لوگوں کو غدار سمجھا جو پاکستان کی وحدت کے قائل تھے۔ انہوں نے پاک فوج اور جماعت اسلامی کو ایک پلڑے میں رکھا۔ پاک فوج پر تو ان کا بس نہیں چل سکتا تھا‘ انہوں نے اپنا سارا غصہ جماعت اسلامی پر نکالا۔ جماعت اسلامی بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنی۔ حسینہ واجد صاحبہ نے جس طرح ریاستی مشینری کو جماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا اور عدالتوں کو پھانسی گھاٹ میں تبدیل کیا‘ وہ دورِ حاضر میں فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔ جماعت اسلامی نے مگر صبر کے ساتھ اس صورتِ حال کا مقابلہ کیا۔ اس نے اس تقسیم کو بھی امرِ واقعہ کے طور پر قبول کیا۔ وہ اگر چہ بنگلہ دیش کے وفادار شہری ہیں مگر پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اسے اپنا دشمن نہیں‘ دوست سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں ہر حد پار کر گئیں۔ انہوں نے نفرت کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔جماعت اسلامی نے اس ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی حکمتِ عملی کی دو بنیادیں رہیں۔ صبر اور سیاسی جدوجہد۔ اس نے عوام کے دل میں جماعت کیلئے ہمدردی پیدا کی۔ حسینہ واجد سے پہلے‘ جماعت کی انتخابی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ حسینہ واجد نے تو انتخابات کی حرمت کو بری طرح پامال کیا۔ ریاستی ظلم سے جماعت کا راستہ روکا۔ یہ کوشش جماعت کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے میں تو کامیاب رہی مگر عوام سے دور نہیں کر سکی۔ اس کا ایک ثبوت ڈھاکہ یونیورسٹی میں شبر (جمعیت) کی کامیابی ہے۔
یہ کامیابی ایک پاکستان دوست جماعت کی کامیابی ہے۔ اس لیے اگر کوئی نظریاتی طور پر جماعت سے وابستہ نہیں‘ تو بھی بحیثیت پاکستانی اس کامیابی پر خوش ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ پاکستان پھر متحد ہو جائے گا۔ اب شاید اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگر جماعت اسلامی جیسی قوتیں بنگلہ دیش میں مقبول ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں دو پاکستان موجود ہیں۔ یہ اقبال کے تصور کے عین مطابق ہے۔ علامہ اقبال کا کہنا یہ تھا کہ دورِ جدید میں مسلمانوں کی سیاسی وحدت کی یہ صورت ممکن نہیں کہ ان کا ایک عالمی سیاسی نظم ہو۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ مسلمان قومی ریاستیں انفرادی سطح پر خود کو مضبوط کریں۔ اگلے مرحلے میں ان کے مابین لیگ آف نیشنز کی طرز پر کوئی اتحاد بن سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان دوست قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بتایا کہ صبر اور سیاسی جدوجہد سے بھی کامیابی ممکن ہے۔ کیا اس سے جماعت اسلامی پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ میراجواب نفی میں ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیپال کے حالات کا کوئی فائدہ تحریک انصاف کو نہیں پہنچ سکتا۔ پاکستان متحد تھا تو اس وقت بھی جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی قیادت کو سیاسی اعتبار سے زیادہ بالغ نظر سمجھا جاتا تھا۔ حکمتِ عملی ہمیشہ زمینی حقائق کے اعتراف کے ساتھ بنتی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے جو بات سیکھنے کی ہے‘ وہ یہ ہے کہ صبر بھی ایک حکمتِ عملی ہے۔ اگر اس کو حکمت کا ساتھ میسر ہو تو صحرا کو گلستاں میں بدلا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے حصے میں سب سے بڑا اثاثہ آیا۔ خود مولانا مودودی یہاں موجود تھے۔اس کے باوجود اس کی کامیابیوں کا تناسب جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور ہند سے کم ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ نظریاتی جماعتوں نے قومی ریاست کے قالب کو قبول کر لیا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی اور شبر کیلئے بنگلہ دیش کے مفادات کو اولیت حاصل رہے گی۔ ہمیں یہ بات سمجھتے ہوئے ان سے توقعات رکھنا ہوں گی۔ افغانستان کے طالبان کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ ان کیلئے پہلے افغانستان ہے۔ پاکستان اس کے بعد ہے بلکہ قومی مفادات متقاضی ہوں تو بھارت پاکستان سے پہلے ہو سکتا ہے۔ غلط توقعات باندھ لینے سے مایوسی ہوتی ہے۔ اسلئے ہمیں بنگلہ دیش کے وجود کو حقیقت مانتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کی طرح خودمختار ملک ہے‘ مستقبل کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ اس سے ہمیں کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔ یہ پورے خطے کیلئے خوشی کی خبر ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کے اثرات سے نکل آیا ہے جو علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ ششی تھرور جیسے بھارتی دانشور اپنی قوم کو تیار کر رہے ہیں کہ فروری کے انتخابات کے بعد‘ پڑوس میں انکا سامنا جماعت اسلامی سے ہو سکتا ہے۔