"KNC" (space) message & send to 7575

کھیل اور مودی ازم

زندگی کی تلخیاں اتنی متنوع اور بسیار ہیں کہ آدمی کو کھا جاتی ہیں‘ اگر وہ تادیر ان کی گرفت میں رہے۔ اس کا احساس انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس حس کو ہم جمالیات بھی کہتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ اسی فطری مطالبے کا جواب ہیں۔ کھیل بھی ایک سطح پر اسی فطری ضرورت سے پھوٹے ہیں جو انسان کے لیے تفریح اور حظ کا سامان ہیں۔
اختر وقار عظیم پاکستان ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے ہیں۔ ان دنوں ان کی یادداشتیں پڑھ رہا ہوں ''ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘۔ یہ داستان اس لیے قابلِ مطالعہ ہے کہ 'میں‘ کی تکرار سے پاک ہے۔ یہ ہماری تاریخ کے ایسے دلچسپ واقعات کا بیان ہے جو اختر صاحب کی موجودگی میں ہوئے۔ 'میں‘ ان واقعات کا گواہ ہے‘ کردار نہیں ہے۔ کتاب کا متن اس کے عنوان ہی کی شرح ہے۔ آج اس کتاب پر تبصرہ مقصود نہیں‘ اس کے صرف ایک پہلو کا ذکر مطلوب ہے جس کا تعلق کھیلوں سے ہے۔ اختر صاحب اپنی ملازمت کے دوران میں ایک مرحلے پر کھیلوں کے پروگرام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اولمپکس سمیت کئی اہم مقابلوں کو پی ٹی وی پر دکھانے کا اہتمام کیا۔ ان دنوں پی ٹی وی واحد چینل تھا۔ ان کے بیان کردہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوتے تھے اور شاد و نادر ہی کوئی واقعہ ہوتا تھا جو اس عمومی صورتحال سے ہٹ کر ہو۔ کھیل میں جہاں دو ٹیمیں مدمقابل ہوتی ہیں‘ کبھی کبھار ایسے واقعات کا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایک دو واقعات کو یہاں نقل کروں۔ اختر وقار عظیم بھارتی ٹیم کے ایک دورۂ پاکستان کا احوال لکھ رہے ہیں۔ میچ پر ماہرانہ رائے دینے کے لیے بھارت سے لالہ امر ناتھ اور بشن سنگھ بیدی آئے ہوئے ہیں۔ ''حیدر آباد میں ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ لالہ اور بیدی اپنے حصے کا تبصرہ کرنے کے بعد عموماً کمنٹری باکس سے اُٹھ کر پویلین یا پریس باکس چلے جاتے تھے جو کچھ فاصلے پر تھے۔ وہاں پہنچنے کے لیے میچ دیکھتے لوگوں کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد لڑکوں کی تھی۔ انہیں شرارت سوجھی اور وہ بہت سے پانی بھرے غبارے لے آئے۔ جو بھی ان کے سامنے سے گزرتا‘ وہ تاک کر اس کا نشانہ لیتے۔ نشانہ صحیح لگے یا غبارہ زمین پر پھٹ جائے‘ دونوں صورتوں میں کپڑے بھیگ جاتے تھے۔ لالہ امر ناتھ نشانہ بنتے تو وہ لڑکوں کو گھور کر دیکھتے اور غصے کا اظہار کرتے۔ لڑکوں کو کھیل مل جاتا اور لالہ پر پانی بھرے غباروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی۔ بیدی کے ساتھ ایسا ہوا تو انہوں نے لڑکوں کی طرف دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔ ہنستے ہنستے کہا ''تم پر ضیا الحق اور مارشل لا ہمیشہ مسلط رہنا چاہیے‘‘۔ لڑکے ہنس دیے۔ کچھ نے کھڑے ہو کر تالیاں بھی بجائیں اور یوں بیدی کے ایک جملے کی وجہ سے پانی اور غباروں کا یہ کھیل ختم ہو گیا‘‘۔
ایک اور دلچسپ واقعہ سنیے۔ دلیپ دوشی بھارت کے ایک سپنر تھے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی لکھی۔ اس میں جہاں کچھ کھلاڑیوں کی تعریف کی وہاں بعض پر تنقید بھی کی۔ ان میں ایک سنیل گواسکر بھی تھے۔ گواسکر سے اختر وقار عظیم کی شارجہ میں آصف اقبال صاحب کے کمرے میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا: ''دلیپ دوشی کو آپ نے اتنا ناراض کیسے کر دیا؟ گواسکر مسکرائے اور جواب دیا: 'میاں داد کی وجہ سے‘۔ جواب سن کر آصف اقبال نے قہقہہ لگایا اور پوچھا: میاں داد کی وجہ سے؟ وہ کیسے؟ جواب میں گواسکر نے کہا: ''تمہاری اور ہماری ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جا رہا تھا۔ میں سلپ میں فیلڈنگ کر رہا تھا۔ دوشی میاں داد کو گیند کرا رہے تھے۔ دوشی گیند کرتے‘ میاں داد آگے قدم نکال کر کھیلتے اور ساتھ ہی دوشی سے پوچھ لیتے: 'تیرا لُوم نمبر کیا ہے؟‘۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا تو دوشی نے جھنجھلا کر گیند میاں داد کو کھینچ ماری۔ میاں داد نے بلا آگے کر لیا اور بچ گئے ورنہ شاید چوٹ لگ جاتی۔ اس پر میاں داد نے کہا: ''مذاق میں گسہ کھاتا ہے؟‘ دوشی نے پوچھا: 'تو بار بار مجھے کیوں کہتا ہے میرا روم نمبر کیا ہے؟‘ جاوید کا جواب تھا: 'اس لیے کہ میرے کو تیرے کمرے میں چھکا مارناہے‘۔ یہ سن کر میں اور وِکٹ کیپر کرمانی ہنس دیے کیونکہ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے‘ وہ گراؤنڈ سے دس میل دور تھا۔ بس یہ ہنسی اور میاں داد کا جملہ ہمارے جھگڑے کا باعث بن گیا کیونکہ دوشی کا خیال تھا کہ میں اور کرمانی میاں داد کے ساتھ مل کر اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کرمانی کی کچھ بچت ہو گئی کہ اس نے ہنستے ہوئے منہ پر گلَوز رکھ لیے تھے۔ سارا نزلہ مجھ پر گرا‘‘۔
اختر صاحب بات آگے بڑھاتے ہیں: ''لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اب دوشی نے میاں داد کو Negative باؤلنگ شروع کر دی۔ وہ بائیں طرف گیند کا ٹھپہ دے کر میاں داد کی ٹانگوں کا نشانہ لیتے تاکہ وہ ہٹ نہ لگا سکیں۔ میاں داد ٹانگ آگے بڑھا کر گیند روکتے اور دوشی کی طرف دیکھ کر 'بھئو بھئو‘ کی آواز نکالتے۔ میں اور کرمانی تو خاموش رہے لیکن امپائر زیادہ دیر یہ تماشا نہ دیکھ سکے۔ انہوں نے میاں داد سے پوچھا: یہ کیا ہو رہا ہے؟ جواب تھا: 'یہ کتوں کی طرح میری ٹانگوں کا نشانہ لے رہا ہے۔ میں اور کیا کروں؟‘ میرے لیے ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ یوں دوشی کی خفگی اور بڑھ گئی‘‘۔ یہ دلچسپ قصہ یہاں ختم نہیں ہو رہا۔ اختر صاحب لکھتے ہیں: 'پچھلے دنوں میری میاں داد سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا: اصل میں میری اور دوشی کی اچھی اور بے تکلفی کی دوستی تھی۔ طبیعتاً وہ بہت غصیلا تھا۔ میں چھیڑ چھاڑ کر کے اس کی دوسرے کھلاڑیوں سے لڑائی کرواتا تھا۔ کبھی کبھی میں اس کی گیند پر جان بوجھ کر ایسی جگہ کیچ اچھال دیتا جہاں کوئی فیلڈر کھڑا نہ ہو اور ہلکے سے دوشی سے کہہ دیتا تھا: تیرا کپتان تیرے ساتھ نہیں ہے۔ وہ ایسی جگہ فیلڈر کھڑا نہیں کرتا جہاں کیچ آنے کا امکان ہو۔ اس کے بعد دوشی اور کپتان میں جو گفتگو ہوئی تھی وہ آپ سوچ سکتے ہیں‘‘۔
مودی صاحب جیسے کردار قیادت کے منصب پر فائز ہو جائیں تو یہ کھیل دباؤ اور تلخی میں کمی کے بجائے ان میں اضافہ کر کے انسانوں اور نتیجتاً قوموں کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ اب کیا ہو رہا ہے؟ کھیل جاری ہے مگر اس میں تفریح کا پہلو ختم ہو رہا ہے۔ کھلاڑی اور تماشائی شدید دباؤ میں ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہوتا کہ فیلڈر اور بلے باز مل کر بائولر پر ہنس رہے ہوں۔ ان کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ کھیل وسعتِ نظری پیدا کرتا ہے۔ وہ جیت کے ساتھ ہار کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ یہاں مگر تربیت یہ دی جا رہی ہے کہ ایک پاکستانی سے کپ نہیں لینا جو پاکستانی کی حیثیت سے نہیں‘ بربنائے عہدہ‘ یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انتہا پسندی‘ تنگ نظری اور بے بصیرتی در آئے تو انسان کو تلخیاں گھیر لیتی ہیں۔ وہ اس کی تفریح کا سامان نگل جاتی ہیں‘ جو اِن تلخیوں کو کم کرتا ہے۔ تفریح کے مواقع شخصی زندگی سے نکل جائیں تو وہ تلخ ہو جاتی ہے۔ قوموں کی زندگی سے منہا کر دیے جائیں تو کشیدہ تعلقات کوکشیدہ تر بنا دیتے ہیں۔ افسوس کہ نریندر مودی صاحب کی انتہا پسندی اور بے بصیرتی کرکٹ کی صورت میں موجود ایک ایسے امکان کے درپے ہے جو پاک بھارت تعلقات کی تلخی کو کم کر سکتا ہے۔ قوموں کو ایسی قیادت سے پناہ مانگنی چاہیے جو منفی سوچ رکھنے والی‘ نفرت پرور‘ انتہا پسند اور بصیرت سے عاری ہو۔ مودی صاحب کا تجربہ ساری اقوام کے لیے سبق کا سامان لیے ہوئے ہے۔ فرد ہو یا قوم‘ کبھی منفی سوچ کے ساتھ بڑے نہیں ہو سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں