وزیراعلیٰ پنجاب اگر پنجاب‘ وزیراعلیٰ سندھ‘ سندھ اور وزیراعلیٰ کے پی‘ کے پی کی بات کریں تو اس میں حیرت اور پریشانی کیا ہے؟ 'سندھ کارڈ‘، 'پختون کارڈ‘، 'مہاجر کارڈ‘ اگر سیاسی بازار کی قبول کردہ کرنسیاں ہیں تو 'پنجاب کارڈ‘ کیوں نہیں؟
یہ سب سیاسی عصبیتوں کے عنوان ہیں۔ یہ فطری ہیں‘ خود ساختہ نہیں۔ سیاسی عصبیت میں کوئی برائی نہیں اگر یہ کسی کے خلاف نہ ہوں۔ اگر سندھی اپنے آئینی اور قانونی حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو کسی کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پنجاب کی قیادت پنجاب کے حق کی بات کرتی ہے تو اس سے بھی کسی کو پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ 'مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘ ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے۔ پنجاب سے آج تک کسی دوسرے صوبے کے خلاف آواز نہیں اُٹھی۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسرے صوبوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ گالیاں کھانے کے باوصف‘ پنجاب آج بھی وفاق کی بات کرتا ہے اور ابھی تک یہاں کوئی ایسا سیاسی رجحان موجود نہیں ہے جو کسی کے خلاف ہو۔
پنجاب سے پہلے یہ کراچی تھا جو سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا تھا۔ ایک وقت آیا کہ یہ آبادی کے لحاظ سے پختونوں کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ آج اسلام آباد اور پنجاب میں آبادی کا تناسب تیزی سے سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر راولپنڈی کا کوئی سروے ہو تو شاید یہاں آباد پختونوں کی تعداد پنجابیوں سے زیادہ ہو۔ لاہور میں بھی پختونوں کی آبادی روز افزوں ہے۔ پنجاب میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے جائیں تو جتنے شنواری ریستوران ملیں گے‘ اتنے تو پورے کے پی میں نہیں ہو ں گے۔ بلوچستان میں پنجابیوں کو چن چن کر مارا گیا لیکن پنجاب میں کسی کے خلاف کوئی ردِعمل نہیں ہوا۔ یہ پنجاب کی فطرت اور سیاسی شعور کا اظہار ہے۔ پنجاب جانتا ہے کہ شرپسندوں اور دہشت گردوں کا کوئی علاقہ ہوتا ہے نہ صوبہ‘ نہ مذہب۔ پاکستان کا ہر شہری اہلِ پنجاب کے لیے 'پنجابی‘ ہے۔ اس سوچ کے ساتھ‘ اگر کوئی پنجاب کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس سے کسی کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔
سیاسی عصبیت پر میں بارہا لکھ چکا۔ یہ کیسے پیدا ہوتی ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔ یہ کیسے ختم ہوتی ہے‘ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ جب پیدا ہو جاتی ہے تو اس کا اعتراف کیے بغیر سیاسی عمل کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ قومی سیاسی جماعتیں وفاق کو متحد رکھتی ہیں لیکن ان کا ایک مرکزِ قوت ہوتا ہے۔ سیاسی ارتقا کے نتیجے میں آج سندھ پیپلز پارٹی‘ کے پی تحریک انصاف اور پنجاب (ن) لیگ کا مرکز ہے۔ مرکزِ قوت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری سیاسی قوت کا کوئی وجود نہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اصلاً ایک جگہ سے اپنی طاقت کشید کرتی ہے۔ تحریک انصاف پورے پاکستان میں ہے لیکن کے پی کا اقتدار اس کے پاس ہے۔ آج وہ جس طرح وہاں اپنی قوت کا اظہار کر سکتی ہے‘ کہیں اور نہیں کر سکتی۔ یہی سیاسی عصبیت ہے۔
مرکز کو مضبوط بناتے ہوئے‘ سیاسی جماعتیں پیش رفت کرتی ہیں۔ ایک وقت میں پیپلز پارٹی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی۔ اس صوبے میں اس کی یہ قوت باقی نہیں رہی مگر اندرونِ سندھ میں اس کی عصبیت اسی طرح طاقتور رہی۔ تحریک انصاف نے کے پی کے ساتھ پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنائی۔ یہ حکومت ختم ہو گئی لیکن کے پی میں اس کا اقتدار محفوظ رہا۔ قومی سیاسی جماعتیں اس لیے غنیمت ہیں کہ یہ صوبے کی بات کرتے ہوئے بھی وفاق کے مفاد کو پیشِ نظر رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کا مقدمہ لڑتے ہوئے بالعموم اتنا آگے نہیں جاتی کہ پنجاب مخالف دکھائی دے۔ یہی معاملہ (ن) لیگ کا بھی ہے۔ اس پس منظر میں پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت نے اس بار زیادہ حکمت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مرکزی قیادت بالخصوص قمر زمان کائرہ صاحب کا لب ولہجہ شائستہ رہا اور انہوں نے اتنی بات کی جتنی ضروری تھی۔
سیاسی جماعتوں کی یہ حکمتِ عملی قابلِ فہم ہے۔ ایک طرف انہوں نے وفاق کو بچانا ہے اور دوسری طرف اپنی عصبیت کو بھی باقی رکھنا ہے۔ (ن) لیگ‘ میرا خیال ہے کہ اب اسی حکمتِ عملی کو اپنا رہی ہے۔ وہ قومی جماعت ہے مگر اس کے ساتھ اسے ایک مرکزِ قوت چاہیے جو پنجاب ہی بن سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے ماضی میں ایک بار اس طرح کی سیاست کی مگر بعد میں انہوں نے قومی سیاست ہی کو موضوع بنایا۔ اب لگتا ہے کہ مریم نواز صاحبہ پنجاب کو ایک بار پھر (ن) لیگ کی طاقت کا مرکز بنانا چاہتی ہیں۔ اس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔ ہر جماعت کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حکمتِ عملی بنائے۔ اس میں صرف ایک بات کا لحاظ رہنا چاہیے اور وہ یہ کہ کسی عصبیت کو دوسری عصبیت کے مدِمقابل نہ کھڑا کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں ایک کمزوری البتہ موجود ہے جس کو دور ہونا چاہیے۔ (ن) لیگ سندھ یا کے پی میں اس طرح متحرک نہیں ہے جیسے ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی بھی کے پی اور پنجاب میں زیادہ متحرک نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ مجھے کبھی اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ اپنے اپنے مرکزِ قوت کو مضبوط بناتے ہوئے‘ دوسرے صوبوں میں بھی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اس سے غلط فہمیوں میں کمی آتی ہے۔ اگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں ویسا ہی اتحاد سندھ میں ہوتا جیسا مرکز میں ہے تو یہ وفاق کو زیادہ مضبوط بناتا۔ اگر کے پی میں دوسری سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہوں تو فاصلے کم ہو سکتے ہیں‘ بالخصوص جب صوبائی مفاد کی بات ہو۔ ہم نے دیکھا کہ جب کے پی میں دہشت گردی کی لہر آئی تو ریاستی اداروں کی سربراہی میں سب جماعتیں ایک ساتھ بیٹھی تھیں۔ اگر صوبے کی سیاسی حکومت یہ میزبانی کرتی تو یہ اقدام عوام کو ایک دوسرے کے قریب کر دیتا۔
وفاق کو متحد رکھنے کا ایک عمل وہ ہے جو ریاستی اداروں کی سطح پر جاری رہتا ہے۔ جیسے پارلیمان‘ جیسے مشترکہ مفادات کونسل۔ وفاق کے اتحاد کی دوسری سطح عوامی ہے جو زیادہ اہم ہے۔ اس سطح پر اصل کام اہلِ سیاست کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کو متحد کرتے ہیں۔ جب دو نوں سطحوں پر کوششیں ہوتی ہیں تو وفاق کو تقویت ملتی ہے۔ یونٹ مضبوط ہو ں گے تو وفاق یقینا مضبوط ہو گا‘ اگر ان کو متحد رکھنے والے فورم موجود ہیں۔ ایک درجے میں یہ کام سول سوسائٹی اور میڈیا بھی کرتے ہیں۔ تاہم ریاست چونکہ ایک سیاسی وجود کا نام ہے‘ اس لیے یہاں مرکزی کردار سیاسی جماعتوں کا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک طرف صوبائی یونٹس کو مطمئن رکھنا ہے اور دوسری طرف صوبوں کے عوام کو قریب لانا ہے۔ مریم نواز صاحبہ اگر پنجاب کی بات کریں اور شہباز شریف صاحب مرکز کی‘ مراد علی شاہ صاحب سندھ کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور بلاول بھٹو زرداری مرکز میں متحرک ہوں تو اس سے وفاق کے لیے کوئی مسئلہ ہو گا نہ صوبوں کے لیے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت جب بڑے ذہن رکھنے والوں کے پاس ہو تو ملک کو اس کا بے پناہ فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال اے این پی ہے۔ جب اس کی قیادت ولی خان مرحوم کے ہاتھ میں تھی تو قوم پرست جماعت ہونے کے باوجود‘ سارا ملک ولی خان کی عزت کرتا تھا۔ ان کی حیثیت ایک قومی راہنما کی تھی اور وہ اپنے اس مقام سے واقف تھے۔ اس لیے وہ ہر قومی تحریک اور اتحاد کا حصہ رہے۔ اسی کو سیاسی بصیرت کہتے ہیں۔ آج بھی اگر قومی جماعتوں کی قیادت اس سطح پر سوچے تو اضطراب کی وہ لہریں کبھی نہ اٹھیں جو مریم نواز صاحبہ کے خلاف ایک مہم کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ لوگوں کو یہ سادہ بات سمجھنے میں کوئی د قت پیش نہ آئے کہ پنجاب کی بات اگر وزیراعلیٰ پنجاب نہ کرے تو پھر کون کرے؟