"KNC" (space) message & send to 7575

اصلاحی کوششیں نتیجہ خیز کیوں نہیں؟

کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ جیسے مشاہدہ سماج کی جو تصاویر سامنے رکھتا ہے‘ ان میں مناسبت اور ربط تلاش کر نا مشکل ہو جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں‘ یہ کہنا محال ہوتا ہے کہ یہ سب تصاویر کسی ایک سماج کی ہیں۔
آئے دن ایسے لوگوں سے ملاقات ہو تی ہے جو شب وروز سماج کی تعمیر اور خدمت میں لگے ہیں۔ ان کے پاس بے شمار وسائل ہیں‘ انسانی بھی اور مادی بھی۔ یہ وسائل معاشرہ فراہم کر رہا ہے۔ ایدھی‘ الخدمت‘ اخوت‘ شوکت خانم... کس کس کا نام لوں۔ یہ افسانے نہیں‘ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم بچشمِ سر دیکھتے ہیں۔ ان اداروں کی خدمات کا دائرہ تو پاکستان کی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکا۔ یہ چند نام تو وہ ہیں جو ملکی سطح پر معروف ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان گنت ادارے ہیں جو مختلف سطحوں پر کام کر رہے ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور فلاح وبہبود کے ان گنت پہلو ہیں جن پر کام جا ری ہے۔ یہ بھی فرضی ادارے نہیں ہیں۔ سطحِ زمین پر ان کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایسے کام نہ صرف تعداد میں بہت ہیں‘ ان میں تسلسل اور استحکام بھی ہے۔ میں لاہور کے ایک ادارے 'آبرو‘ سے کم وبیش بیس برس پہلے واقف ہوا تھا۔ ایک خاتون نے اپنے گھر کے گیراج میں ان بچوں کی تعلیم کا آغاز کیا جن کی مائیں لوگوں کے گھروں میں کام کر تی تھیں اور وہ سارا دن آوارہ پھرتے تھے۔ انہوں نے ایسی ماؤں کو آمادہ کیا کہ وہ صبح اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جایا کریں اور جاتے وقت لیتی جائیں۔ یہاں ان کو کتابیں‘ بستہ اور دوپہر کا کھانا بھی ملے گا۔ چند برس پہلے میں نے اپنی آنکھوں سے اس ادارے کی ایک چار منزلہ عمارت فیروزپور روڑ پر دیکھی جہاں ایسے بچوں کے لیے ایک ہائی سکول قائم ہے۔ یہی نہیں‘ یہاں بھینسیں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ محروم گھروں کے بچوں کو پینے کا خالص دودھ ملے۔ میں ایسی بہت سے مثالیں دکھا سکتا ہوں جو اجتماعی سطح پر ہو رہی ہیں۔ رہی انفرادی کاوشیں تو وہ بھی کم نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے رشتہ داروں اور ملازمین کا خیال رکھتے ہیں‘ ان کی خوشی غمی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں‘ ان کی تعداد بھی بہت ہے۔
میری پریشانی یہ ہے کہ خیر کے اتنے کام آخر سماج کی عمومی حالت پر اثر انداز ہوتے کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ سماج‘ معلوم ہوتا ہے شر کی گرفت میں ہے۔ بُری خبروں کی بھرمار ہے۔ صرف قتل کے واقعات شمار کرنا چاہیں تو حیرت آپ کو گھیر لے۔ کرپشن ہے‘ وعدہ خلافی ہے‘ بے ایمانی ہے۔ انتہا پسندی ہے‘ سوئے ظن ہے‘ کن کن اخلاقی رزائل کا نام لوں‘ ہم میں سب پائے جاتے ہیں۔ نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ سماجی ماحول پر شدت کے ساتھ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اصلاح کی یہ غیر معمولی کاوشیں نتیجہ خیز کیوں نہیں ہیں؟ میں اس سوال کا کوئی حتمی جواب دریافت نہیں کر سکا۔ میں جو سمجھ سکا ہوں‘ بیان کر دیتا ہوں۔ اس کی نوعیت ایک خیال (Thesis) کی ہے جسے ابھی ثابت ہونا ہے۔
اس ناکامی کے دو اسباب ہیں۔ پہلا سبب: ہر سماج کا ایک فکری ڈھانچہ ہے جو اس کی عمومی سرگرمیوں کو منظم کرتا ہے۔ یہ ڈھانچہ چند اقدار پر قائم ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ سماج کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہیں۔ یہ نظامِ ا قدار جن عوامل کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے‘ ان میں ایک توکسی خطے کا مزاج ہے۔ دوسرا اس کی تاریخ ہے اور تیسرا‘ وہاں کے رائے ساز اور دانشور ہیں۔ اگر برصغیر کے مسلم سماج کو ان عوامل کی روشنی میں سمجھا جائے تو یہاں اسلام مسلم فاتحین کی ذریعے آیا۔ صوفیا نے اس کی اشاعت میں ممکن ہے کوئی کردار ادا کیا ہو لیکن اسلام کو متعارف کرانے والے بیرونی حملہ آور تھے۔ ان فاتحین نے کسی کو بالجبر مسلمان نہیں بنایا مگر فاتح کو ایک نفسیاتی برتری حاصل ہوتی ہے جو یہاں کی مسلم نفسیات پر اثر انداز ہوئی۔
انگریز آئے تو اسی نفسیات نے ان کے خلاف بغاوت کی۔ اس سے ہماری لغت میں بغاوت کو بہادری اور غیرت کا ہم معانی سمجھا گیا۔ باغی ہیرو شمار ہوا اور مسلمانوں نے اسی کو ایک اجتماعی طرزِ عمل کے طور پر اختیار کر لیا۔ یہی نفسیات مذہبی تعبیرات پر بھی اثر انداز ہوئی۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسا عبقری بھی خود کو اس نفسیات سے آزاد نہیں کر سکا۔ عدالت میں ان کا معروف بیان جو 'قولِ فیصل‘ کے نام سے شائع ہوا‘ اسی نفسیات کا اظہار ہے۔ سرسیّد نے مسلمانوں کو اس نفسیات سے نکالنے کی کوشش کی۔ ان کو اس میں جزوی کامیابی ملی۔ مسلمانوں کا اجتماعی شاکلہ وہی رہا۔ پاکستان بننے کے بعد تو اس نفسیات کو مزید تقویت ملی۔ اب تو اقتدار بھی ہمارے ہاتھوں میں تھا جس سے غلبے اور برتری کے احساس کو مزید توانا کیا۔ ہمارا مذہبی ذہن بھی غلبے کا ہے اور قومی ذہن بھی یہی ہے۔ بقائے باہمی یا دوسروں کے ساتھ مل کر کوئی سماج ترتیب دینا‘ اس طرح کے تصورات ہمارے فکری ڈھانچے کا حصہ نہیں بن سکے۔ جمہوریت کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کسی کو اقتدار ملتا ہے تو وہ دوسرے کے وجود کو مٹانے کے درپے ہوتا ہے۔
یہ ایک پہلو ہے جس نے ہمارے اجتماعی شعورکی تشکیل میں بنیادی کر دار ادا کیا۔ اب سماجی اصلاح کی جو کوشش ہو گی‘ اس کے نتائج اس شعور سے باہر نہیں ہو سکتے۔ دارالعلوم دیوبند نے اس نفسیات کو مذہبی صورت دی۔ ایک طرف جمعیت علمائے ہند ہے جس کا سیاسی شعور زمانی شعور سے ہم آہنگ ہو کر وطن کو قومیت کی اساس مانتا ہے اور دوسری طرف بغاوت اور آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی تحریکیں بھی خود کو دیوبند سے منسوب کرتی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس خطے میں اٹھنے والی انتہا پسند تحریکوں کی قیادت اسی نظامِ فکر کی عطا ہے۔ اس اجتماعی فکری ڈھانچے کی موجودگی میں‘ سماجی اصلاح کی کوششیں ایک حد سے زیادہ تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ اگر ہم انہیں نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنا اجتماعی شاکلہ بدلنا ہو گا۔
اصلاحی کاوشوں کی ناکامی کا دوسرا بڑا سبب آبادی ہے۔ سماجی اصلاح کا ایک تجربہ اس وقت زیادہ کامیاب ہو گا جب اس کے لیے ایک چھوٹی تجربہ گاہ میسر ہو گی۔ سماج کی آبادی جتنی زیادہ ہو گی‘ اصلاحی تحریکوں کی کامیابی کے لیے اتنا ہی زیادہ وقت درکار ہو گا۔ پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں کی کمی نہیں۔ اس کے باوصف ہر مریض کو علاج میسر نہیں۔ جتنی سڑکیں پچھلے پندرہ بیس برس میں بنی ہیں‘ شاید پاکستان کی تاریخ میں نہیں بنیں۔ اس کے باوجود ٹریفک کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کی وجہ بے پناہ آبادی ہے۔ اتنے لوگوں کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔
ہم اگر سماجی اصلاح وبہبود کی کاوشوں کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا اجتماعی نظامِ فکر تبدیل کرنا ہو گا۔ بالفاظِ دیگر مختلف قدروں پر اس سماج کو کھڑا کرنا ہو گا۔ اگر بقائے باہمی کا تصور مستحکم نہیں ہو گا تو جمہوریت نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اگرمذہبی برتری کا احساس غالب ہو گا تو مذہبی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو گی۔ پھر اصلاحی کاوشوں کے باوجود مذہبی انتہا پسندی ہو گی۔ اگر قانون کا احترام بطورِ قدر مستحکم نہیں ہو گا تو قانون شکنی کو اعزاز سمجھا جائے گا۔ اگر دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہو گی اورحرام حلال کی تمیز ختم ہو جائے گی تو پھر انفاق سے کوئی نظامِ کفالت وجود میں نہیں آئے گا۔ ہمارامسئلہ یہ نہیں کہ اصلاحی کوششیں کم ہیں‘ ہمارا مسئلہ ہمارا اجتماعی شعور ہے جس کی تشکیلِ نو ان کوششوں کو نتیجہ خیز بنا سکتا ہے۔ یہ میرا خیال ہے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں