کسی پڑھے لکھے دیہی نوجوان کو تھانیدار نے کسی وڈیرہ کے کہنے پر بلاقصور چھترول کر دی۔ نوجوان اور تو کچھ نہ کر سکا وزیر اعلیٰ کے نام درخواست دے دی، جس میں تفصیل لکھنے کے بعد تھانیدار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ درخواست صوبائی پولیس افسر (آئی جی) سے ہوتے ہوئے اسی تھانیدار کے پاس ’’مناسب کاروائی کے لئے ‘‘پہنچ گئی۔ اس نے نوجوان کو بلایا اور درخواست دکھا کر کہا، ’’بتائو، اب تمھارے ساتھ وہی سلوک کروں جو پہلے کیا تھا؟‘‘نوجوان حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا کہ تھانیدار کی معطلی کا حکم آئے گا۔ پھر انکوائری ہوگی، جس میں اسے بیان دینے کے لئے بلایا جائے گا۔ آخر میں ایک شریف اور بے قصور شہری پر بلاجواز تشدد کرنے کی بنا پر تھانیدار کو برخاست کر دیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ تھانیدار نے مزید کچھ کرنے کی بجائے نوجوان سے کہا، ’’اپنی درخواست پر لکھ کر دو کہ تھانیدار نے مجھے مطمئن کر دیا ہے ۔ اب میری شکائت پر مزید کارروائی نہ کی جائے ۔‘‘نوجوان بھاری قدموں سے چلتے ہوئے جانے لگا تو تھانیدار نے کہا، \"آئندہ اگر کوئی شکائت ہو تو سیدھے میرے پاس آنا۔ افسران بالا کو زحمت دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔\" سرکاری اہل کاروں کے خلاف شکائتوں پر عام طور پر ایسی ہی کارروائی ہوا کرتی ہے ۔ کبھی کبھی کوئی حکمران خود کو خادم خلق ثابت کرنے کے لئے شکایت سیل کھول دیتا ہے ۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ شکائتیں لے کر آنے لگتے ہیں۔ میڈیا کے لوگ پاس بیٹھ جاتے ہیں اور عوامی دلچسپی کی شکایات کی خبریں بناتے رہتے ہیں۔ اہل کار ہر درخواست کو متعلقہ محکمہ یا شعبہ کو مارک کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اہل کاروں کو پتہ نہیں چلتا کہ اس پر کیا کارروائی ہوئی۔ انھیں تو نئی درخواستوں کا ڈھیر نپٹانے ہوئے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ کے بعد شکایات سیل بند کر دیا جاتا ہے ۔ اصل میں مسئلہ درخواست کاغذ پر لکھے جانے سے پیدا ہوتا ہے ۔ کسی افسر کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کارروائی کے لئے نیچے بھیجی جانے والی ساری درخواستوں کا رکارڈ اور ان کی نقلیں اپنے دفتر میں رکھے ۔ چنانچہ اصل درخواست ہی چلتی جاتی ہے ، جب تک چل پائے ۔ راستہ میں کوئی اسے گم کر دے تو سائل کی بدقسمتی۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ کاغذ پر لکھی درخواست وصول ہی نہ کی جائے ۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت ہمارے ہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد 30 ملین کے قریب ہیں۔ یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے ۔ بہت سے عرضی نویسوں کے پاس بھی کمپیوٹر ہیں۔ کوئی نہ کوئی جاننے والا بھی آسانی سے مل سکتا ہے جس کے پاس کمپیوٹر ہو۔ چنانچہ اگر درخواستیں صرف ای میل سے یا ویب سائیٹ پر آن لائن وصول کی جائیں گی تو سائلوں کو زیادہ زحمت نہیں ہوگی۔ ضرورت الیکٹرانک درخواستوں پر الیکٹرانک طریقہ سے کارروائی کرنے کی ہے ۔ یہ کس طرح ہوگا؟ ہر وزیر اعلیٰ کے دفتر میں شعبہ شکایات کھولا جائے ، جو شکایات صرف اپنے ای میل پتہ پر وصول کیا کرے ۔ فرض کریں کہ اس بار کوئی پڑھا لکھا دیہاتی اپنے تھانیدار کے خلاف درخواست بھیجتا ہے ۔ شعبہ شکایات خودکار طریقہ سے درخواست پر نمبر لگاتا ہے اور کارروائی رپورٹ پہنچانے کی آخری تاریخ لکھتا ہے ۔ ایک کاپی صوبائی پولیس افسر کو ای میل سے بھیجتا ہے اور دوسری سائل کو۔ صوبائی پولیس افسر کے دفتر میں شکایات نپٹانے والا شعبہ درخواست کو متعلق ضلع پولیس افسر کو بھیجتا ہے اور مقررہ دنوں میں کارروائی کی رپورٹ طلب کرتا ہے ۔ ضلع پولیس افسرون تک تو سب کے پاس کمپیوٹر ہونگے اور ای میل بھی۔ اس سے نیچے ابھی وقت لگے گا۔ چنانچہ ضلع کا شعبہ شکایات ہر شکایت اور اس پر ضلع پولیس افسر کے حکم کا پرنٹ نکال کر متعلق تھانیدار کو بھیجے گا اور مقررہ دنوں میں کارروائی اور اس کی مفصل رپورٹ بھیجنے کے لئے کہے گا۔ ایک نقل ڈی ایس پی کو بھی بھیج جائے گی۔ تھانیدار سائل کو تو چکر دے سکتا ہے لیکن افسران بالا کو نہیں کیونکہ غلط بیانی پر وہ برخواست ہو سکتا ہے ۔ تحریری رپورٹ ضلع افسر کو جائے گی تو وہ ای میل سے صوبائی افسر کو بھیج دے گا، جہاں سے ای میل سے ہی وزیر اعلیٰ کے دفتر جائے گی۔ سارے عمل کا ریکارڈ کمپیوٹر میں ہوگا۔ اس طرح نہ فائل گم ہوگی اور نہ درخواست ضائع ہوگی۔ اگر کارروائی پوری طرح نہ ہوئی یا بروقت مکمل نہ ہوئی تو رپورٹ ہوگی۔ پولیس ہی کی طرح، دوسرے محکموں کے بارے میں شکایات بھی پہلے محکمہ کے سیکرٹری کو اور وہاں سے اس کے ضلعی افسر کے پاس جائے گی۔ وہ نیچے سے رپورٹ لے کر سیکرٹری کو بھیجے گا، جو اسے وزیر اعلیٰ کے دفتر پہنچائے گا۔ ہر محکمہ کا سربراہ ہر شکائت پر بروقت تسلی بخش کارروائی کرانے کا ذمہ دار ہوگا۔ اگر کارروائی مکمل نہ ہو یا غیرضروری تاخیر ہو تو وزیر اعلیٰ کو رپورٹ دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ کی پرسش پر سیکرٹری اپنی سبکی کی سزا ان ماتحتوں کو دے گا، جنہوں نے تسلی بخش کارروائی نہ کی یا غیرضروری تاخیر کی۔ تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ کی طرح وزیر اعظم بھی اپنے دفتر میں شکایات سیل بنائیں اور اسی طرح مرکزی حکومت کے بارے عوام کی شکایات دور کریں۔ وہ مرکزی حکومت کے خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کے بارے میں بھی شکایات دور کرائیں۔ ای میل سے شکائت وہ سارے مسائل ختم کر دے گی، جو کاغذ پر لکھی درخواست پیدا کرتی ہے ۔ کسی رجسٹر کی ضرورت نہ ہوگی، جس پر شکائت کا اندراج کیا جائے ۔ شکائت متعلق اہل کاروں تک پہنچنے میں دنوں کی بجائے منٹ لگیں گے ۔ رپورٹ کے لئے یاددہانی کے خط بار بار نہیں لکھنے پڑیں گے ۔ شکائت یا رپورٹ کے راستے میں گم ہونے کا امکان نہیں رہے گا۔ مجوزہ طریقہ سے ایک بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ چونکہ ہر شکایت براہ راست وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے دفتر جائے گی، ہر وزارت، محکمہ، شعبہ، وغیرہ کے سربراہ سے نیچے تک سب کو دھڑکا لگا رہے گا کہ پتہ نہیں کس کوتاہی یا بدعنوانی پر شکائت ہو جائے ۔ چنانچہ سب افسر اور اہلکار پوری کوشش کریں گے کہ کوئی شکایت پیدا ہی نہ ہو۔