سب سے پہلے شنگھا ئی

نوٹ: کالم نگار چین میں مقیم ہیں۔ ماہر ابلاغیات ہونے کے ساتھ چینی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ اپنے کالموں کے ذریعے، چین میں صنعتی و معاشرتی سطح پر ہونے والی حیرت انگیز تبدیلیوں سے قارئین ''دنیا‘‘ کو آگاہ کرتے رہیں گے۔(ادارہ)
کراچی میں عموماً اپنے کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ کے لیے شنگھائی ڈرائی کلینرز نام کی دکان کا ہی رخ کرتا تھا اور اکثر دل میں خیال آتا کہ آخر نیویارک، لند ن اور پیر س جیسے نام ہوتے ہوئے ان لوگو ں کو اس نام کی کیوں سوجھی۔ وہ جواب تو نہ مل سکا لیکن شنگھائی شہر میں رہائش اختیار کرنے کے بعد ایک منظر نے شنگھائی ڈرائی کلینرز کی یاد دلا دی اور وہ یہاں کے فلیٹس کے باہر لہراتے ہوئے رنگ برنگے کپڑے ہیں۔ چینی باشندوں کی لاتعداد دلچسپ عادتوں میں سے ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ کپڑوں کو خشک کرنے کے لیے سورج کی تپش کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں جراثیم ختم کرنے کے لیے کپڑوں کا دھوپ میں سوکھنا ضروری ہے۔یہ لوگ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ لمبے لمبے سٹینڈ ز پر دور تک لٹکتے یہ کپڑے عمارت کی خوبصورتی تو متاثر کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ صاحب خانہ کی پوری وارڈروب بھی ایک ادائے دلبری سے لہرا رہی ہوتی ہے لیکن جب سب کا یہی معاملہ ہو تو پھر کیسی فکر اور کس کی پروا احتراماً میں بھی اس وارڈروب کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہوں گا کہ آخر اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
بات چین کی چل نکلی ہے تو شنگھائی سے بہتر کیا آغاز ہو سکتا ہے یہاں کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ افراد پر مشتمل ہے بلکہ دس پندرہ لاکھ کا اضافہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہاں رہتے ہوئے بڑے اعدادوشمار میں ہی بات کرنی چاہیے آبادی کے اعتبار سے غالباً یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر ٹھہرتا ہے۔ ہر میگا سٹی کی طرح یہاں کے باشندے بھی ماڈرن، مصروف اور مغموم ہیں۔ کون سی سہولت ہے جو اس شہر میں میسر نہیں۔ سڑکوں، پلوں اور ٹرینوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اوور ہیڈ برجزسینکڑوں کلو میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور بلندی اتنی کہ سفر کے دوران آپ اردگرد کی عمارتوں کی دس بارہ منزلوں تک با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں جب ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ٹیکسی کا کرایہ بچا کر ہم کیا کیا کچھ نہیں کر سکتے ہیں،یہاں کے فلائی اوورز سے بہت لطف اندوز ہوئے لیکن دیر آید درست آید، بالآخر پیسے اور وقت دونوں بچانے انڈر گرائونڈ میٹرو کے اسٹیشن جا پہنچے۔ یہاں کی میٹرو سروس میں سفر کے بعد لندن کی میٹرو پرانی فاکس ویگن کی طرح لگتی ہے۔ دس عدد ٹرین لائنیں اپنے مختلف روٹس پر بلا کسی رکا وٹ صبح سے رات تک لاکھوں لوگوں کومنٹوں میں ان کی منزل تک پہنچا تی ہیں؛ البتہ صبح اور شام کے مصروف اوقات یہ میٹرو ٹرینیں بھائی چارے کا ایک منفرد منظر پیش کرتی ہیں جہاں خود سے انچوں کے فاصلے پر موجود لوگ اپنے اپنے ٹچ اسکرین موبائل فونوں کے پیچھے پناہ لیتے نظر آتے ہیں۔ جی ہاں! یہاں اب ماڈ ل اور برانڈ بے شک کوئی بھی ہو فون حساس جلد والا ہی ہوتا ہے ۔
شنگھائی میں سال کے چاروں موسم پوری آب و تاب کے ساتھ آتے ہیں اس لیے شہر میں گھومنے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے حیسے کوئی فیشن ویک سالانہ بنیاد پر چل رہا ہو۔ بھول جائیے وہ دن جب چینی قوم ایک وردی کی طرح لباس پہنتی تھی۔ خدا جب حُسن کی طرح خوش حالی دیتا ہے تو نزاکت بھی آجاتی ہے اوراس کے اظہار کے طریقے بھی، چاہے کریڈٹ کارڈ کی آخری حد ہی پار کیوں نہ ہو جائے۔ شنگھائی کے مقامی باشندے اپنے آپ کو چین کے ماڈرن ترین شہری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کافی وزن رکھتا ہے کیونکہ یہ تجارتی بندرگاہ ہمیشہ سے ایک بین الاقوامی منڈی رہی ہے جس کے باعث یہاں کے لوگ بیرونی دنیا سے زیادہ رابطے میں تھے؛ البتہ اب جب کہ پورا ملک ہی ترقی کی پٹڑی پر رواںدواں ہے تو شنگھائی کو روایتی حر یف بیجنگ کے علاوہ اور بھی کئی شہروں کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اب تک تو یہاں کے لوگ اور کسی شہر کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ دیکھئے یہ ادا اور کب تک چلتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں کم از کم فیشن ڈیزائنرز کے معاملے میں تو کراچی اور لاہور کی کشمکش دیکھی ہے بس سمجھ لیں کہ شنگھائی اور بیجنگ میں بھی کھٹی میٹھی سی چلتی رہتی ہے۔ بیجنگ پر کبھی آئندہ تفصیل سے عرض کریں گے؛ البتہ یہ کہے دیتے ہیں کہ بقول بیجنگ والوں کے جس نے بیجنگ نہ دیکھا سمجھو کچھ نہ دیکھا اور شنگھائی والوں کا جوابی مصرع کہ شنگھائی دیکھو یا نہ دیکھو ہم تو ہم ہیں، نظر میں رہتے ہی ہیں ۔
شنگھائی شہر کی ایک بات پریہاں کم و بیش سبھی کا اتفاق ہے کہ یہاں کی عورتیں بہت دبنگ ہیں۔ شنگھائی کی خوا تین اپنے اعتماد اور تیزی و طراری کے باعث اپنے گھروں پر راج کرتی ہیں اور ان کے لہجے میں ایک خاص طرح کی گھن گرج ہے؛ ہمیں یہ تو علم نہیں کہ اس کے پیچھے کیا داستان ہے لیکن مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ جب بھی کہیں ڈانٹ ڈپٹ کی آواز سنائی دی، سننے والا ہمیشہ اپنی ہی جنس کا نظر آیا۔ اب ایسا بھی نہیں کہ یہاں کے لوگ مردانگی میں کچھ کم ہیںبس بے چارے کبھی کبھی سہمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ پڑھنے والے چند ایک شادی شدہ افراد کی آنکھیں تھوڑی سی نم ہو جائیں۔ ویسے بھی یہاں یعنی چین میں کام کے لیے مرد عورت کی کوئی تخصیص تو ہے نہیں، اس لیے اگر عورت ذرا سخت جان ہونے کے ساتھ سخت زبان بھی ٹھہرے تو سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ زبردستی مسکرا دیا جائے کیونکہ شنگھائی کی روایتی عورت نخرے اٹھوا تو سکتی ہے، نخرے اٹھا نہیں سکتی۔ یہ ساری باتیں اس اعتماد کے ساتھ لکھی جا رہی ہیں کہ شنگھائی کی کوئی مقامی عورت اردو پڑھنا نہیں جانتی اور ہمارے علاوہ کسی اور اردو سے چینی میں ترجمہ کرنے والے سے بھی واقف نہیںجو کہ ہم نہیں کر سکتے۔
بہرکیف چین میں رہنے کا مزا اسی صورت میں آسکتا ہے جب آپ بیک وقت فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ ورلڈ کی اصطلاح سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھیں۔ انفراسٹرکچر ایسا کہ آنکھیں دنگ رہ جائیں، دنیا جہان کی چیزوں کا ایک انبار کہ بندہ کیا خریدے اور کیا چھوڑے۔گا ڑیوں کی وہ اقسام کہ دبئی کی یاد بھلا دے لیکن مقامی دکانداروں کا مزاج بعض اوقات ایسا کہ لاہور کی انار کلی، پنڈی کا راجہ بازار یا کراچی کی زینب مارکیٹ پناہ مانگے۔ صبح ہر مصروف اسٹیشن کے با ہر خوانچے والے سینکڑوں اقسام کی چیزیں تیار کرنے میں مصروف تو موٹر اور ٹرائی سائیکل والے آپ کو پیدل چلنے کی زحمت سے بچاتے ہوئے معمولی رقم کے عوض قریبی منزل تک پہنچانے کے لیے کمر بستہ۔ ایک گہما گہمی اور شور جس میں ہر شحص اپنا کام جلدی شروع اور جلد ہی ختم کرنا چاہتا ہو۔ ابتدا میں تو مجھے صبح اتنی جلدی کام کاآغاز ہونا بالکل نہ بھایا لیکن کیا کیا جائے، جہاں دوپہر کا کھا نابارہ بجے اور رات کا شام سات بجے کھانے کا رواج ہو وہاں انسان آخرکارکب تک مزاحمت کرے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ رات کا کھانا لگنے میں اگر نو بج جائیں تو پریشا نی لا حق ہو جاتی ہے کہ بہت دیر ہو گئی ہے اور بات صرف اس عادت سے شروع ہو تو سمجھ لیں کہ مجھے چین کی کچھ کچھ سمجھ آتی جا رہی ہے!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں