بلٹ ٹرین اور دیوارِ چین

شہزادہ سلیم کی لاڈلی کنیز انار کلی کو دیوار میں کس نے اور کیوں چنوایا یہ تو تحقیق کرنے والے جانیں یا ان رومانوی موضوعات پر فلم اور ڈرامے بنانے والے سمجھیں مجھے تو بس یہ علم ہے کہ جن زمانوں کے یہ افسانے ہیں اس سے صدیوں قبل چینی بادشاہوں نے ایک ایسی دیوار کی تعمیر شروع کر دی تھی جو آج دنیا کی عظیم ترین دیوار تعمیر سمجھی جاتی ہے۔ اسی دیوار چین اور بیجنگ کے محلات دیکھنے کے لئے شنگھائی آمد کے فوراً بعد ہی سوچنا شروع کر دیا تھا۔ بس جیب اور موسم کے بہتر ہونے کا انتظار تھا اور جیسے ہی دونوں پر بہار آئی،فوراً بیجنگ کے لئے مشہور زمانہ بلٹ ٹرین کے ٹکٹ لے کر ہم زچہ وبچہ سمیت شنگھائی کے جدید ترین ہونگ چھیائو اسٹیشن جا پہنچے۔ یہ اسٹیشن کیا ہے بس سمجھیں کہ کراچی اور لاہور کے ائیر پورٹس کو اکٹھا کر کے اگر ان پر اسلام آباد ائیر پورٹ کا تڑکا لگا دیا جائے تو یہ ایک اسٹیشن بنتا ہے۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اسے اسٹیشن کہیں یا ٹرینوں کا ائیر پورٹ بلکہ اسے ایک بہت بڑا شاپنگ مال یا فوڈ کورٹ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یہاں صبح سے رات تک سینکڑوں برق رفتار ٹرینوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو اپنے مقررہ وقت سے ایک منٹ بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوتیں۔ شنگھائی سے بیجنگ کا فاصلہ کراچی اور لاہور کے درمیان فاصلے سے تھوڑا زیادہ ٹھہرتا ہے اور ہم نے یہ سفر پانچ گھنٹے میں مکمل کر لینا تھا یعنی صبح نو بجے والی ٹرین میں سوار ہونا اور دوپہر دو بجے بیجنگ کے اسٹیشن پر پہنچ جانا تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ٹرینوں کے اس جدید نیٹ ورک کے ساتھ یہاں کا روایتی ریل کا نظام بھی رواں دواں ہے جس کے علیحدہ ٹریکس اپنی جگہ موجودہیں۔
پلیٹ فارم پر کیپسول کی شکل والی یہ ٹرین کم اور خلائی شٹل زیادہ لگ رہی تھی۔ مسافروں کے پاس مختصر سائز کے سفری بیگز تھے جو وہ اپنی سیٹ سے متصل کھڑکیوں کے اوپر ریکس پر فٹ کر دیتے۔ مقررہ وقت پر ٹرین نے حرکت کی اور ابتدائی پانچ سات منٹ کے بعد اس کی رفتار تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ کو چھونے لگی جو ہم سامنے موجود اسکرین پر دیکھ سکتے تھے۔ ان ٹرینوں کو اندر سے ایک عمدہ ہوائی جہاز کی طرح ہی سمجھیں جہاں آرام دہ سیٹوں پر مسافر بیٹھتے ہی اپنی اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر اپنے لیپ ٹاپس یا ڈیجیٹل ٹیبلٹس پر فلمیں ڈرامے دیکھنے یا گیمز کھیلنے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ چند زندہ دل لوگ تاش کی بازی لگا لیتے ہیں۔ سیٹوں کے سامنے کھانے پینے کے لئے فولڈنگ ٹرے موجود ہوتی ہے اور ساتھ ہی موبائل فون وغیرہ کی چارجنگ کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ ہر بوگی کے ساتھ صاف ستھرے واش روم اور پینے کے لئے ٹھنڈے گرم پانی کے کولر موجود ہیں جہاں آپ نوڈلز سے لے کر ٹی بیگز کی مدد سے چائے سبھی کچھ تیار کر سکتے ہیں اور اگر مزید خواہش ہو تو ٹرین کے کشادہ کیفے ٹیریا کا رخ کر سکتے ہیں۔ ٹرین کا عملہ اپنے صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس ایک مشینی انداز میں کام میں ہمہ وقت مصروف ہوتا ہے چاہے وہ وقتاً فوقتاً اسنیکس (Snacks) کی فروخت ہو یا صفائی کرنا ۔ ویسے تو اس سفر کے دوران لوگ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں لیکن قسمت کی مہربانی دیکھیں کہ ہمارے آگے کی سیٹوں پر موجود تینوں عمر رسیدہ خواتین نجانے کون سے خاندانی مسائل پر گفتگو کر رہیں تھیں کہ مجال ہے جوکوئی طویل وقفہ آجاتا۔ وہ تو شکر ہے کہ ہمارا بیٹا کچھ دیر اچھل کود کر سو گیا اور ہم میاں بیوی نے فوراً اپنے ہیڈ فونزلگا کر زندگی آسان کی۔ آس پاس کے مناظر تیزی سے گزرتے گئے اور ٹرین مقررہ وقت پر بیجنگ پہنچ گئی۔ سفر کا تجربہ بہت خوشگوار تھا لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں ٹرین کا سفر تمام تر مشکلات کے ساتھ بہت یاد گارر ہا ہے، خصوصاً سردیوں میں ''انڈے گرم انڈے‘‘ پکار کربیچنے والوں کی آوازیں اور صبح کے وقت کھیتوں کے دلکش مناظر۔ اگر محاورے کی زبان میں بات ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ '' جوسکھ چھجو کے چوبارے وہ نہ بلخ نہ بخارے‘‘ (East or west, home is the best)۔ بس اتنی وضاحت کر دیں کہ ایسی ٹرین سروس پاکستان میں ہوتو کیا ہی بات ہے یعنی پھر بلخ اور بخارے کا مزا چھجو کے چوبارے میں بیٹھ کر لیا جا سکے گا۔
بیجنگ یاترا کا پہلا مرحلہ دیوار چین کا دیدار تھا اور اس مقصد کے لئے ہم نے پہلے سے گاڑی اور گائیڈ کا انتظام کر رکھا تھا۔ ہماری گائیڈ ایک تیز طرار چینی لڑکی تھی جو خاصے تحکمانہ انداز میں اپنی پی کیپ مسلسل گھما تے ہوئے رواں انگریزی بول رہی تھی۔ شاید وہ گوروں کے بجائے دیسی ٹورسٹ دیکھ کر ذرا مایوس تھی کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم دیسی کنجوسوں کے مقابلے میں گورا پارٹی کافی کھلے دل سے پیسے خرچ کر تی ہے جبکہ ہم ہر وقت ڈالر کو روپے میں تول کر ہی مول تول کرتے ہیں۔ بیجنگ کے نزدیک دیوار چین کا ایک حصہ(Badaling Section)کہلا تا ہے جو ہماری منزل تھی۔ جلد ہی سر سبز پہاڑوں پر بل کھاتی دیوار چین نمودار ہونا شروع ہو گئی، بالکل ان تصاویر کی طرح جو ہم بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔ ہزاروں کلو میٹر پر پھیلی ہوئی اس دیوار کی تاریخ قبل از مسیح یعنی قریباً ڈھائی ہزار سال پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ اس دیوار کو چینی بادشاہوں نے شمال کے حملہ آور لشکروں سے محفوظ رہنے کے لیے تعمیر کرنا شروع کیا تھا ۔ مضبوط چٹانی پتھروں اور لکڑی کے شہتیروں کی مدد سے اس طویل ترین دیوار کی تعمیر ایک عجوبے سے کم نہیں جو صدیوں تک جاری رہی ۔ اس دیوار کو آپ بنیادی طور پر ایک بیس پچیس فٹ چوڑی راہداری سمجھ لیں جو ایک بل کھاتی ندی کی طرح اونچے نیچے پہاڑوں کے درمیان ایک تسلسل سے گزرتی ہوئی تقریباًآ ٹھ ہزار کلو میٹر کے رقبے پر تعمیر کی گئی۔ اس راہداری پر کھڑے ہو کر آ پ کو تا حد نظر یہی نظر آ تی رہے گی۔ ابتدا میں اس دیوار کے مختلف حصے دفاعی لحاظ سے مختلف ریاستیںعلیحدہ علیحدہ تعمیر کرتی رہیں جنہیں چینی بادشاہ چھن شی ہوا نگ کے دور میں ملا کر اسے عظیم دیوار چین میں تبدیل کر دیا گیا اورہزاروں کلو میٹر کا علاقہ شمال کے شرارتی جنگجوئوں سے محفوظ ہو گیا جو آئے دن حملے کرتے رہتے تھے۔ یہ دیوار ایک انوکھا حفاظتی نظام تھی۔ ہر چارچھ کلو میٹر کے فاصلے پر واچ ٹاورز تعمیر کئے گئے تھے جہاں موجود گارڈز کسی خطرے کی صورت میں قریبی دستوں کو اطلاع کر دیتے۔گشت کرنے والے دستوں کے ٹھہرنے کا انتظام اور ان کے گھوڑوں کے اصطبل سب کچھ ہی قریب تھا۔
اس دیوار پر چلنے کے دوران اتنا اتار چڑھائو تھا کہ مشکل سے ایک کلو میٹر کی چہل قدمی نے خاصا تھکا ڈالا۔ میرے والدنے جو اس موقعے کے لئے خاص طور پر بیجنگ آئے ہوئے تھے، اس مشقت کو دیکھ کر ایک جگہ ہی بیٹھ کر نظارہ کرنے کو غنیمت جانا۔ اگر آپ ایک پر عزم سیاح ہیں تو اس دیوار کے دور درازحصوں کو دیکھنے میں کئی روز صرف کر سکتے ہیں کہ ہائکنگ سے لے کر لفٹ چیئر سمیت ہر طرح کے مواقع موجود ہیںلیکن ہم جیسے جلداز جلد تصاویر اتار کر فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کے خواہش مندوں کے لئے اس عظیم دیوار کی اتنی جھلک بھی کافی تھی۔
دیوار چین دیکھنے کے لئے ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افرادیہاں کا رخ کرتے ہیں۔ رنگ برنگے سیاح خواہ وہ یورپ امریکہ کے ہوں یا جاپان اور آسٹریلیاسے، آپ کو گروپس کی شکل میں اپنے مقامی گائیڈز کے ہمراہ مٹر گشت کرتے نظر آئیں گے۔ گردن پر کیمرے اور کمر پر بستے لادے یہ سب اپنے چینی گائیڈز کی گلابی انگریزی سن کر اسی طرح سر ہلاتے ہیں جیسے میں اسکول کے زمانے میں اپنی کیمسٹری کی ٹیچر کو سنتا تھا یعنی سمجھ آئے نہ آئے بس گردن ہلاتے رہو۔ بیجنگ میں دیوار چین ہی نہیں بلکہ کئی ایسے مقامات ہیں جن کی سیر ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے۔ ان مقامات کاذکر پھر کبھی سہی۔ بس سمجھنے کی بات یہ ہے کہ چین جدید اور قدیم دنیائوں کا ایک عجائب کدہ ہے اور یہ لوگ جب کچھ بنانے پر تل جائیں تو بات ہزاروں کلو میٹر تک جاتی ہے، چاہے وہ آج کی جدید ترین ٹرینیں ہوں یا ہزاروں سال پرانی دیواریں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں