19 دسمبر کو شنگھائی کے پاکستانی قونصل خانے میں آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کے لئے تعزیتی کتاب رکھ دی گئی اور شام چار بجے اجتماعی دعا کا اہتمام تھا۔ ہلکی بارش نے موسم کو مزید سرد کر دیا تھا۔ صبح دس بجے ہی سے مختلف ممالک کے سفارتکار تعزیتی کتاب پر اپنے پیغامات درج کرنے کے لئے آنا شروع ہو گئے تھے۔ قونصل خانے کی افسر فرحت عائشہ نے بتایا کہ ترکی کے قونصل جنرل اس کتاب پر تاثرات درج کرنے والے پہلے سفارتکار تھے اور کافی دیر تک اس سانحے پر دکھ کا اظہار کر تے رہے۔ ترکی نے اس موقعے پر قومی پرچم بھی سر نگوں رکھا۔ ایران، مصر،ملائشیا کے سفارتکار بھی 19 دسمبر کی صبح تعزیت کے لئے پہنچ گئے؛ جبکہ پولینڈ اور پرتگال کے نمائندے انتہائی افسردہ تھے اور انہوں نے شنگھائی میں پاکستان کے قونصل جنرل ظفر حسن سے دلی تعزیت کی۔ اس سانحے نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ چینی وزارت خارجہ کے شنگھائی میں موجود اہلکار بھی نہایت صدمے کا شکار تھے اور ایک بڑی تعداد میں تاثرات درج کرنے آئے۔ شام ساڑھے چار بجے کے نزدیک دعائیہ تقریب ہوئی ، جس میں پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ بعض تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات بھی شریک تھے جو چین اورمختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سادہ تقریب میں ہر چہرہ افسردہ تھا قونصل خانے کے عملے نے اردگردشمعیں روشن کی ہوئی تھیں۔ مختصر اورپُر اثر دعاکے بعد بھی لوگ کچھ دیر جمع رہے اور اس المناک واقعے پر درد کا اظہار کرتے رہے ۔پاکستانی قونصل جنرل ظفر حسن نے اس موقع پر تمام لوگوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ پر وقار تقریب اختتام پذیر ہوئی ۔ صدمے سے نڈھال پاکستانی کمیونٹی نے اپنا دکھ درد کچھ دیر کے لئے بانٹ لیا جس نے ایک طویل مدت تک ہمارے دلوں میں رہنا ہے۔
حالیہ اور گزشتہ برس چین میں بھی دہشت گردی کے بعض واقعات نے یہاں کے حکام کو اس عفریت کا احساس دلایا ہے ۔ 28 اکتوبر 2013ء کو تھیان من سکوائر میں کار سوار تین افراد نے وہاں موجود سیاحوں پر اپنی گاڑی چڑھانے کی کوشش کی جس میں فورا آگ لگ گئی اور تینوں کار سواروں سمیت پانچ افراد ہلاک اوردرجن کے قریب زخمی ہو گئے بیجنگ کے مرکز میں اس غیر معمولی واقعے کا بہت سختی سے نوٹس لیا گیا اور میڈیا کی بہت زیادہ تشہیر سے بچتے ہوئے حکام نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں (جو ایک ہی خاندان کے افراد تھے) کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی کاروائی شروع کردی۔ اس برس یکم مارچ کو چینی شہر کھن منگ کے مرکزی ریلوے سٹیشن پر آٹھ دہشت گردوں نے بڑی چھریوں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی سفاکانہ حملے میں انتیس افراد کو ہلاک اور ڈیڑھ سو کے قریب لوگوں کو زخمی کردیا ۔ پولیس کے نشانہ باز دس منٹ کے اندر وہاں موجود تھے جنہوں نے چار دہشت گردوں کو موقعے پر ہلاک اور ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا، بقیہ فرار ہونے والے تین دہشت گرد بھی اگلے روز پکڑے گئے۔ اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں پیش آیا جہاں چار دہشت گردوں سمیت انتالیس لوگ ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی کڑیاں سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں اورایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے جا ملتی ہیں جو چین کے صوبے سنکیانگ سے تعلق رکھتی ہے اور طالبا ن کے انداز کی انتہا پسند مذہبی خیالات کی حامل ہے ؛بلکہ ان کے بعض افراد پر طالبان سے قبائلی علاقوں میں تربیت لینے کا بھی الزام ہے۔ چینی حکام سکیورٹی اور ریاست کی رٹ کے معاملے میں بہت حساس اور فیصلہ کن خیالات کے حامل ہیں ان واقعات کے بعد ان کا رد عمل بہت برق رفتار اور سخت تھا یہ لوگ داخلی سکیورٹی کے معاملات میں باتیں بہت کم اور ایکشن بہت زیادہ لیتے ہیں ۔مختصر عرصے میں کافی لوگ گرفتار بھی ہو چکے ہیں اور تقریبا سب ذمہ دار وں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ ان واقعات کے علاوہ ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے اس ملک میں جرائم تو یقینا ہوتے ہیں، لیکن دہشت گردی کا نام ونشان نہیں ہے۔ امن وامان اور احساس تحفظ ترقی کی پہلی شرط ہے ۔اس مقصد کے لئے یہاں کی حکومت بے تحاشا رقم اور وسائل استعمال کر تی ہے۔ پورے ملک میں ہتھیار عام آدمی کی دسترس سے دور اورصرف متعلقہ اداروں کے پاس ہیں ۔ ملکی سکیورٹی کے معاملے میں یہ لوگ کسی ابہام کا شکار نہیں اور اس کے حصول کے لئے انتہائی سخت گیر رویہ رکھتے ہیں۔
چین کے لوگوں نے موجودہ معاشی اور داخلی استحکام حاصل کرنے کے لئے واقعتاً آگ اور خون کے دریا عبور کئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی افواج قہر بن کر ٹوٹیں اور لاکھوں افراد قتل ہوئے ۔آزادی کے لئے یہاں بد ترین خانہ جنگی نے مزید لاکھوں جانوں کو نگل لیا۔آ زادی کے دس بارہ برسوں بعد ساٹھ کی دہائی کے شروع میں ہی قحط کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین کروڑ چینی باشندے لقمۂ اجل بن گئے۔ چینی تاریخ کے ان موضوعات پر گفتگو کے لئے کئی کالم ناکافی ہیں اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان کو موجودہ ترقی اور استحکام کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا،بلکہ اس کے لئے ان کی جدوجہد اور قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ آج تاریخ کے اس موڑ پر جب اس خطے کی ترقی کا دارومدار چینی منصوبوں اور سر مائے پر ہے دہشت گردی کے عفریت کو ہر صورت میں قابو کرنا ہو گا۔گزشتہ برس پاکستان میں کوہ پیمائوں کے قتل کے اندوہنا ک واقعے میں ایک چینی نژاد کوہ پیما بھی قتل ہوا تھا اس واقعے نے بھی چینی حکام کو تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے اور وہ ان واقعات کو اس پورے خطے کی سکیورٹی کے لئے سخت خطرہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے دہشت گردی کے مراکزبن گئے ہیں ۔یہاں دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اپنے اپنے انداز میں مذہب کے نام پر درندگی کرنے والوں کو استعمال کر رہی ہیں ۔اس گھنائونے چکر کو اب بہت فیصلہ کن انداز میں ختم کرنا ہو گا۔ چین کے علاقائی ترقیاتی منصوبوں کا انحصار یہاں کے استحکام پر ہے ۔یہ لوگ مذہبی انتہا پسندوں کی اپنے علاقوں تک پہنچ کو بھی برداشت نہیں کریں گے ۔اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان کتنی جلد اور موثر انداز میں اس صورت حال کو قابو میں کر سکتا ہے ۔یقین ہے کہ چین اس معاملے میں ہماری ہرطرح مدد کے لئے تیار ہو گا لیکن کام ہم ہی نے کرنا ہے کوئی اور آکر ہمارے لئے یہ کام مکمل نہیں کر سکتا ۔ اب نہ زیادہ وقت ہے اور نہ زیادہ مواقع ۔پشاور سکول دہشت گردی نے فیصلہ کن جنگ کا طبل بجا دیا ہے ۔اب یہ صرف فوج کی نہیں بلکہ قوم کی جنگ ہے اور اگر کسی کو کوئی شبہ رہ گیا ہے تو کسی شہید بچے کے ماں باپ کے ساتھ دو گھڑیاں گزار کر دیکھ لے۔ بچپن میں اپنی نانی سے سنی ایک کہانی ان حالات میں یاد آگئی کہ ایک عورت کا پانی کاگھڑا ٹوٹ گیا تو دوسری عورت جس کا گھڑا محفوظ تھا رونے بیٹھ گئی ۔قریب سے گزرنے والے ایک شخص کو بہت حیرت ہوئی کہ جس عورت کا نقصان ہوا وہ گم سم بیٹھی ہے ذرا بھی روتی نہیں۔ پوچھنے پر اس نے اپنی زندگی کی درد انگیز داستان سنا کر اس شخص سے کہا کہ گھڑا ٹوٹنے کا افسوس تو ہے لیکن جو غم میں دیکھ چکی اس کے بعد اب آنسو نہیں بچے تو میری یہ پڑوسن میرے حصے کے آنسو بہا لیتی ہے۔ پشاور کے شہدا کی مائوں کے پاس بھی شاید آئندہ کی زندگی کے لئے آنسو نہ بچیں اور ان کو صبر وہی دے سکتا ہے جس کے پاس ہم سب نے بالآخر چلے جانا ہے۔ اب تو کام بس یہی ہے کہ باقی کو بچا لیا جائے اور مذہب کے نام پر وحشت کا بازار گرم کرنے والوں کو اتنا گہرا دفن کیا جائے کہ ہماری آئندہ نسلیں ایک محفوظ ماحول میں جی سکیں اور یہ کہہ سکیں کہ پشاور کے شہداء کے خون کے صدقے انہیں امن اور زندگی نصیب ہو گئی۔