شاپنگ خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اگر بات کپڑوں کی شاپنگ کی ہو تو شاید پسندیدہ ترین جبکہ مردوں کے لئے خواتین کے ساتھ شاپنگ اتنی ہی بڑی آزمائش ہے جتنی خواتین کے لئے اپنے سسرال کی دعوت کا کھانا تیار کرنا۔ ہماری لینگویج کی کلاس میں موجود خواتین ہر وقت اپنے کپڑوں ، جوتوں، ہینڈ بیگز کا ہی موازنہ کرتی رہتیں۔چین میں رہتے ہوئے اگر شاپنگ کی عادت یا لت نہ پڑے یہ ممکن نہیں ۔ میری ایک ہم جماعت نے جسے شاپنگ کے امور کی کلاس مانیٹر سمجھ لیں،مجھے کئی وینڈرز (Vendors)اور دکانوں کے وزیٹنگ کارڈز دئیے کہ اگر تمہیں شاپنگ سے کوئی دلچسپی نہیں تو کم از کم اپنی بیوی تک تو یہ پہنچا دو تاکہ وہ دنیا کے بہترین برانڈز کی نہایت عمدہ نقل مناسب داموں پر لے سکے ،امکان تو یہی ہے کہ شاید وہ مجھے ہر وقت ایک ہی جینز اور جیکٹ میں دیکھ کر اکتا گئی تھی کہ یہ کیسا انسان ہے جو چین میں رہتے ہوئے بھی نئے کپڑے نہیں خریدتا حا لانکہ اصل مسئلہ نئے کپڑے نہیں بلکہ استری کرنے کا تھا کہ ایک دن شیطان کے بہکانے میں آکر میں نے اپنے کپڑے خود استری کرنے کا اعلان کر دیا تھا اور اب نتیجے کے طور پر جینز اور انہی شرٹس پر گزارا تھا جنہیں پہن کر ایک بار ہاتھ سے ذرا کھینچا جائے تو لگتا تھا کہ استری کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ وہ وزیٹنگ کارڈز تو خیر میں نے پھینک دئیے کہ بیوی کو یہ بتانے کاخطرہ کون مول لیتا کہ میری کلاس میں ایک سہیلی بن گئی ہے جس نے تمہارے لئے یہ کارڈز دئیے ہیں۔ ویسے بھی ان کارڈز کی ضرورت اس لئے نہیں رہ گئی کہ ہم نے شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کی طرح کچھ سستی چینی مارکیٹوں کے پتے حاصل کر لئے تھے جہاں آپ مقامی لوگوں کے برابر کے پیسے دے کر خریداری کر سکتے تھے اور یوں ہمارے اس نئے اور مشکل ایڈونچر کا آغاز ہوا۔
ہمارا پہلا ہدف میٹرو ٹرین نمبر دس کے اسٹیشن تھیان تھونگ سے منسلک چھی پھو یعنی ایک سستی مارکیٹ تھی۔ نئے جذبے اور تازہ تازہ سیکھے چینی کے جملوں کے ساتھ ہم اس روایتی مارکیٹ میں داخل ہو گئے۔عام طورپرچینی دکاندار وں کے ساتھ مول تول کسی ڈرامے سے کم نہیں ہوتا جہاں ہر منظریا سین کی اداکاری مختلف ہوتی ہے ۔ سب سے پہلے تو دکان والا آپ کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا اور تولتا ہے کہ بابا تم لوگ اس مارکیٹ میں کیا کرنے آگئے ہو ۔ چینی زبان سن کر یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ سیاح تو نہیں لگتے اور پھر قیمت بتانے کے بجائے کیلکولیٹر پر لکھ کر دکھا دیتا ہے حا لا نکہ اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ ہم قیمت زبانی سن کر بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن پھر بھی ذرا فاصلہ رکھتے ہوئے کہ اگر تھو ڑی بہت چینی بول بھی لیتے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فری ہی ہو جائو دام تو غیر ملکیوں والے ہی چلیں گے۔ اب شروع ہوتا ہے مول تول کا مقابلہ مثلاًمیں نے اپنے لئے تین عدد ٹی شرٹس منتخب کی ہیںجن کی قیمت نو سو یوآن(چینی کرنسی) بتائی گئی بلکہ لکھ کر دکھائی گئی ۔ میرے خیال میں اگر یہ چھ سو یوآن کی مل جائیں تو برا سودا نہیں لیکن میری بیوی کو یقین ہے کہ ان کی قیمت تین سے چار سو یوآن کے درمیان ہونی چاہیے۔ تین سو یو آن کہنے پر د کاندارناراضگی سے ان کو واپس رکھتے ہوئے زور سے سر ہلا دیتا ہے اور دوبارہ
پوچھنے پر آٹھ سو بتاتا ہے دل تو کرتا ہے کہ چھ سو بول کر سودا طے کر لوں لیکن پھر بیگم کے طعنے کے اتنے ہی دینے تھے تو اس مارکیٹ میں آنے کا فائدہ کیا چنانچہ چار سو یوآن کی فراخدلانہ پیشکش کی جاتی ہے ۔ بظاہر مصنوعی ناراضگی کے ساتھ وہ آخری قیمت چھ سو لگا تا ہے اور ہم ڈرامے کے اس اختتام یاکلائمیکس پر ساڑھے چار سو کہہ کر نکلنے کی اداکاری کرتے ہیں جس کا انجام بالاآخر پانچ سو کی خریداری پر ہو ہی جاتا ہے۔یہ تو ایک کامیاب مول تول کی مثال ہے بعض اوقات دکاندار ایک غیر ملکی کو نسبتاً سستی چیز فروخت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے ناراض ہو کر بیچنے سے انکار ہی کر دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ عرصہ گزارنے والے غیر ملکیوں کی طرف سے ہمیں اچھی شاپنگ کے حوالے سے دو قیمتی مشورے ملے پہلا تو یہ کہ کوشش
کر کے چند مارکیٹس کے دکانداروں کے مستقل گاہک بن جائو تو وہ نہ صرف بہت مناسب دام لگانے لگیں گے بلکہ تمہارے توسط سے آنے والوں کو بھی رعایت دیں گے دوسرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے مقامی جاننے والے چینیوں کو ہمیشہ خریدی ہوئی چیز کی قیمت بیس پچیس فیصد کم ہی بتانا کیونکہ جب بھی اصل قیمت بتائی انہوں نے افسوس سے سر ہلانا ہے کہ دیکھو بے چارہ لٹ گیا۔
شنگھائی کی مشہور ترین نانجنگ اسٹریٹ (Nanjing street) میں عموماًعمدہ اور مہنگے برانڈز کی دوکانیں ہیں اس لئے ہم نے یہاں کا مزا صرف مٹر گشت کر کے ہی لیا ہے اور ان شورومز پر قیمتیں دیکھ کر آہیں بھری ہیں ۔اسی طرح ہونگ مے روڈ (Hongmei Road)بھی عمدہ دکانوں۔ غیر ملکی ریسٹو رنٹس اور ایک منفردپرل مارکیٹ کی وجہ سے غیر ملکیوں اور سیاحوں میں کافی مقبول ہے لیکن قیمتیں یہاں بھی جیب کاکڑا امتحان لے لیتی ہیں اور مشہور جاپانی شاپنگ مال،جو دنیا بھر میں تاکا شمایا کے نام سے معروف ہے،کے تو کیا کہنے کہ بہترین مصنوعات سے بھرے ہوئے دلکش اسٹورز لیکن قیمتیں دیکھ کر دل بھر آئے سو یہاں سے بھی دامن بچا کرگزر نے میں ہی عافیت جانی ۔ اب یہ نہ سمجھ لیں کہ جیب بالکل ہی خالی رہتی ہے کبھی کبھی اچھی رعایتی سیل کے موسم میں ان جگہوں سے موزے اور موبائل فون کے اصلی برانڈڈ کور وغیرہ ضرور خریدے ہیں۔ رونق ، قیمت اور ورائٹی کے لحاظ سے میرا پسندیدہ بازار شنگھائی کا معروف ترین سیاحتی مقام ایو آن گارڈن (Yuyuan Garden)ہے ۔ یہ شہر کے مرکز میں واقع ایک تاریخی جگہ ہے جہاں روایتی اور تاریخی چینی عمارات کے ساتھ ایک مکمل بازار بھی موجود ہے یہاں آپ دس سے لے کر ہزاروں یو آن تک کی چیز خرید سکتے ہیں۔ جو لوگ بہت مختصر وقت یا ایک آدھ دن کے لئے شنگھائی آتے ہیں میں ان کو اسی بازار سے خریداری کا مشورہ دیتا ہوں، اسی مقام پر ایک تاریخی مسجدہے جو قریباًسو سے بھی زیادہ سال پرانی ہے۔ فو یو روڈ پر واقع اس مسجد میں عام نمازوں کے علاوہ جمعے اور عیدین کے اجتماعات با قاعدگی سے ہوتے ہیں۔
چین میں غیر ملکیوں خصوصاًگوروں کو کافی امیر تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ باہر سے آنے والے جنہیں چینی زبان میں وائے گوا رن (Wai guo ren) کہا جاتا ہے،سب ہی بہت پیسے والے ہیں ۔ چینی دکانداروں کے نزدیک ان امیر غیر ملکیوں سے مناسب رقم نکلوانا ضروری ہے ۔البتہ یہاں رہنے والے غیر ملکی اور سیاح حضرات کا خیال ذرا مختلف ہے ۔وہ لوگ اچھی لیکن سستی خریداری کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں ایک مارکیٹ بہت مقبول ہے جو مشہور ہی نقلی مارکیٹ (Fake Market) کے نام سے ہے ۔یہاں نامور برانڈز سے ملتی جلتی اشیاء کافی مناسب داموں میں ملتی ہیں اور خریداروں کی اکثریت باہر کے لوگوں اور سیاحوں کی ہوتی ہے ۔ آپ یہاں کچھ وقت گزار کر برانڈڈ اشیاء کی فرسٹ یا سیکنڈ کلاس نقلوں پر اچھی بارگین کر سکتے ہیں اور یہاں کے دکاندار معقول حد تک انگریزی بھی بول لیتے ہیں۔ حیران کن بات تو یہ
ہے کہ جس چین میں لوگ سستی شاپنگ کے خواب لے کر گھومتے ہیں آج اسی کے باشندے لندن اور پیرس کے مہنگے ترین سٹورز کے سب سے بڑے گاہک بنتے جا رہے ہیں۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق یورپ کے معروف ترین برانڈز یورپین باشندوں کی کم ہوتی قوت خریدکے باعث اب اپنے سٹورز میںچینی گاہکوں کا خصوصی انتظار اور انتظام کرتے ہیں۔ خصوصاًکرسمس اور نئے سال کی سیل اور چینی نئے سال( جو عموماًفروری میں آ تا ہے) کی شاپنگ کرنے کے لئے مالدار چینی برادری جوق در جوق یورپ کا رخ کرتی ہے جسے آپ امارت یااسٹیٹس کی دوڑ کہہ سکتے ہیں یعنی ہم یہاں مول تول میں بے حال ہوجائیں اور وہ جائیں لندن اور پیرس کو ۔