چہرے پر مخصوص خوشگوار تاثر لئے، آئے دن مختلف ممالک کے سربراہان کو چین کے دارلحکومت بیجنگ میں خوش آمدید کہنا اور سب کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے طویل میٹنگز اور معا ہدے کرناسب کچھ ایک ترتیب اور توازن کے ساتھ جاری ہے ۔ اسی دوران بیرون ملک کے دورے بھی ہورہے ہیں،جن میں سے ہر ملک چاہے وہ یورپ کی ترقی یافتہ معیشت ہو یا کوئی افریقی مفلوک الحال ملک، سب نے ہی چین سے بڑی توقعات لگائی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اس سارے عمل کے دوران اکسٹھ سالہ چینی صدر محترم شی جن پھنگXi Jinping) ( کو یقینا یہ احساس ہو گاکہ وہ آج دنیا کے سب سے بڑے ملک اور دوسری بڑی معیشت کے سربراہ ہیں اور یہ وقت اپنے ملک کی سربراہی کے ساتھ ساتھ دنیا کی رہنمائی کا بھی ہے۔چینی صدر ایک عالمی سطح کے لیڈر کے طورپر کیا سوچتے ہیں اور اس کے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے یہ کام تو ماہرین اور پی ایچ ڈی کی سطح کے پرو فیسرز پر چھوڑا جا سکتا ہے لیکن چینی صدر چین کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے دسمبر کے اخبارات کے چند شمارے ہی دیکھ لئے جائیں تو بہت کچھ سمجھ آجاتا ہے ۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران چین کی انسدادِ بدعنوانی مہم نے کرپٹ سرکاری اور پارٹی حکام کا جینا دوبھر کر دیاہے اور بدعنوان لوگ بدحواسی کا شکار ہیں۔ اس مہم کے لیے Tigers and flies کی بہت ہی دلچسپ اصطلا ح استعمال ہو رہی ہے۔ اگر معنوی ترجمہ کیا جائے تو اس مہم کا مقصد ہے کہ بڑا مگر مچھ ہویا چھو ٹی مچھلی جو بھی کرپشن میں ملوث ہو اسے دھر لیا جائے۔ اب اس مہم کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے اس کی چند جھلکیاں انگریزی اخبار چائنا ڈیلی (China Daily) کے دسمبر کے محض چندشمارے پڑھنے سے نظر آ جاتی ہیں آئیے پڑھیے اور عبرت پکڑئیے۔
17 دسمبر کے اخبار کے مطابق سابق وزیر ریلوے لیو چی جن، سابق ڈپٹی چیف انجینئر چانگ شو گوانگ اور سابق ڈائر یکٹر ٹرانسپورٹیشن بیورو سوشو ہو، کو اربوں روپے کی بد عنوانی ثابت ہونے پر سزائے موت سنا ئی جا چکی ہے۔18 دسمبر کے شمارے کے مطابق نانجنگ شہر کے سا بق میئر جی جیانیے،پر اپنے دوستوں اور واقف کاروں کے پروجیکٹس رشوت لے کر منظور کرنے پر مقدمہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی دوسرے شہر میں ہو رہی ہے تاکہ کارروائی شفاف اور غیر جانبدارانہ رہے۔ بو شی لائی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین مرکزی عہدیداروں میں سے تھے اور اب جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔23 دسمبر کے اخبار کے مطابق موصوف کا کرپشن کی رقم سے خریدا گیا فرانس میں ایک دلکش اور پر آسا ئش ولا(Villa) فروخت کر کے رقم واپس لائی جا رہی ہے جس کی مالیت80 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اخبار میں اس ولا کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے اور مقام بھی بتایا گیا ہے۔24 دسمبر کی ایک خبر یہ ہے کہ ہو بیئی صوبے کے ایک اہم عہدیدار پر حکومتی زمین رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لئے اٹھائیس لاکھ یوآن رشوت لینے پر مقدمہ شروع ہو گیا ہے۔ یہاں گرفتاری اور مقدمہ شروع ہونے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ حکام کے پاس اتنے ثبوت موجود ہیں کہ ملزم کو سزا ہو جائے۔ یہ گرفتاریاں کسی فرمائشی ایف آئی آر کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ بڑے مگر مچھوں کے ساتھ ساتھ چھو ٹی مچھلیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ۔صوبہ شان شی کے ایک سینئر پولیس آفیسر کو اپنے بیٹے کے نشے کی حالت میں ڈرائیونگ پر گرفتاری کے واقعے کو چھپانے پر برطرف کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گوانگ چو میونسپل ہیلتھ کا افسر اپنی محبوبہ کی کمپنی کے میڈیکل آلات سرکاری ہسپتالوں میں رشوت لے کر فروخت کر واتا تھا اور اب تیرہ برس کی سزا کے ساتھ جیل پہنچ چکا ہے۔ یہ اور اس نوعیت کی کافی خبریں چینی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں کیونکہ حکومت لوگوں کو بتانا چاہتی ہے کہ بدعنوانی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔30 دسمبر کے اخبار کے مطابق چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے بد عنوانی کے خلاف مہم کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ پارٹی کا مرکزی کمیشن برائے نظم وضبط اور معائنہ ( انسداد بدعنوانی کا ادارہ) دن رات اسی کام میں لگا ہوا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اب تک کمیونسٹ پارٹی کے اٹھاون عہدیدار وں کے خلاف تحقیقات چل رہی ہے، جن میں سے دس مر کزی ، اکتالیس صوبائی، تین فوجی اور چار حکومتی کمپنیوں کے عہدیدار شامل ہیں۔
اس مہم کی کامیابی اور تشہیر نے عام لوگوں کو بہت حوصلہ دیا ہے۔ کرپشن کے خلاف کاروائیاں اور سزائیں انٹرنیٹ کامقبول ترین موضوع بن چکا ہے۔ انٹر نیٹ کی دنیا کے شہری، جنہیں سٹیزن (Citizen)کی نسبت سے نیٹیزن (Netizen) کہا جاتا ہے، اس مہم کے فعال حصہ دار بن چکے ہیں۔ایک آ فیشل کو اس ویڈیو کے آن لائن آنے کے بعدپکڑا گیا ہے جس میں وہ اپنی زائد آمدنی سے داد عیش دینے میں مصروف تھا۔ اسی طرح وہ عہدیدار جو اپنی تنخوا ہوں کے مقابلے میں زیادہ امیرانہ طور طریقے اختیار کر تے ہیں، ان پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یوں سماجی سطح پر ایک تندوتیز بحث چل پڑی ہے۔ اسی سلسلے میں ایک تحقیر آمیز اصطلاح(Naked official)ان بے شرم عہدیداروں کے لیے استعمال ہو رہی ہے جو اپنا خاندان اس امید پر پہلے ہی باہر منتقل کر دیتے ہیں کہ ایک دن سارا مال لے کر خود بھی باہر فرار ہو جائیں۔ اب ان لوگوں کے لیے راستے بند ہو رہے ہیں کیونکہ سب کی جائدادوں اور اہل وعیال (جو کہ چین میں مختصر ہی ہوتا ہے) کے ریکارڈ رکھے جا رہے ہیں جہاں انہیں اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم تک کا حساب کتاب دینا پڑتا ہے۔
چینی قیادت کے منصب پر پہنچنا ایک طویل سفر ہے جس میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے مختلف عہدوں پر برسوں خدمات انجام دینی پڑتی ہیں۔ یہ سفر نچلے عہدوں سے شروع ہو کر بتدریج او پر آنے کا ہے جس کے لیے نہایت مضبوط شخصیت، بہترین انتظامی اور قائدانہ صلا حیتیں درکار ہوتی ہیں۔ آج عظیم معاشی ، سیاسی اور فوجی طاقت ہونے کے باوجود چینی قیادت کو یہ احساس ہے کہ ان کی ساری ترقی اور استحکام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے ملک کا نظام کتنا مضبوط اور شفاف رکھتے ہیں ۔ تیز رفتار ترقی اور بڑی سرمایہ کاری والے بے شمار منصوبوں نے اس ملک کو بہت مختصر مدت میں بدل کر رکھ دیا۔ لیکن اس عظیم الشان ترقی کے ساتھ ہی پیسے کی ریل پیل نے چینی حکام کے ایک طبقے میں کرپشن کے رجحان کو بھی فروغ دیا اور اس سے پہلے کہ یہ رجحان وبا کی شکل اختیار کرتا چینی صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں اس پر قابو پانے کے لیے یہ موثر مہم شروع کر دی گئی۔ایک بات جو شاید بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے مزید حیران کن ہو، یہ ہے کہ سزائیں پانے والے زیادہ تر اہلکار وہ ہیں جنہوں نے مالی فوائد سمیٹنے کے با وجود بڑے بڑے منصوبے مکمل بھی کروائے۔ یہاں کرپشن کا مطلب یہ نہیں کہ منصوبہ کا غذ پر ہی رہ گیا بلکہ اس کے بر عکس زیادہ کمانے کے چکر میں بعض منصوبوں کو بہت ہی زبردست طریقے سے مکمل کیا جاتا ہے ۔شنگھائی کے ایک سابق میئر18 سال کی سزا بھگت رہے ہیں جنہوں نے اس شہر میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے اور مال بھی بنایا۔ اگر پاکستان ہو تو شاید کچھ لوگ کہیں کہ دیکھو ساٹھ سالہ آ دمی کو جیل میں ڈال دیا۔ کیا ہوا اگر مال بنایا ،کام بھی تو کتنے کر وائے تھے، اب بے چارا سزا پوری کرتے کرتے اسی برس کا ہو جائے گا۔ پتا نہیں اس دوران زندہ بھی رہ پائے گا۔ بس اسی فرق کو سمجھ لیں ان لوگوں نے کرپشن کو قانونی اور سماجی سطح پر نا قابل قبو ل بنا دیا ہے جبکہ ہم مخمصے کا شکار ہیں۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دنیا بھر کے لیڈروں سے ہاتھ ملاتے، چینی صدر دنیا بھرکے معاملات تو دیکھ ہی رہے ہیں لیکن ملکی سطح پر بھی انہوں نے کرپشن کے گلے میں گھنٹی ڈال دی ہے جہاں اور جب بھی ہو گی بجنے لگے گی۔