نوڈلز‘ نان اور تِکّے

چینی کھانے ویسے تو دنیا بھر میں بے حد مقبول ہیں لیکن یار دوستوں نے چین کے اندر کھانوں کے بارے میںکچھ ایسی بھی خبریں مشہور کی ہوئیں تھیںبلکہ اڑا رکھیں تھیںکہ ابتدا میں تو ہم ان کے کھانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی بہت محتاط رہتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مینڈک پھدک کر جیب میں جا گھسے یا کوئی سانپ پیروں سے لپٹ کر فریاد کرے کے اسے تلنے سے بچایا جائے۔ ابتدائی دو چار ہفتوں میں ہی ہماری یہ غلط فہمی تو کسی حد تک دور ہو گئی کہ یہاں ہر ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں ہی اس قسم کی چیزوں سے پالا پڑے گا البتہ روایتی پاکستانی مصالحے دار کھانے گھر کے علاوہ باہر ملنا بڑا مشکل تھا‘ یوں گھر میں ہی پاکستانی مصالحوں کے پیکٹس کے ذخیرے سے کام چلانا شروع کیا جو ہم یہاں منتقل ہوتے ہوئے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ اب ہر وقت تو گھر کے کھانے دستیاب نہیں تھے اس لئے بڑی احتیاط کے ساتھ ذرا آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا تو چند ایک مقامات پر چھو ٹی سی دکانوں پر حلال کا ا سٹکر نظر آیا اور یوں روایتی چینی کھانوں سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا ۔ 
چینی مسلمانوں کی چھو ٹی سی ہر دکان کو آ پ ایک فیملی کاریسٹورنٹ سمجھ لیں یعنی ان کو چلانے والے عموماً ایک خاندان کے لوگ ہوتے ہیں ۔ خاندان کے مرد ویٹر اور کیشیئر کا فریضہ نبھا رہے ہوتے ہیں تو خواتین اس کے چھوٹے سے کچن میں نہایت پھرتی سے گرما گرم کھانے تیار کر رہی ہوتی ہیں جبکہ ان کے بچے بھی اکثر آس پاس ہی گھو متے پائے جاتے ہیں۔ اگر گاہک زیادہ ہوں تو خو اتین بھی اپنے سروں پر مخصوص انداز کے اسکارف باندھے مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں جبکہ مرد حضرات نہایت مہارت سے تازہ تازہ نوڈلز اسی طرح تیار کرتے ہیں جیسے ہمارے تندور والے روٹیاں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ نو ڈلز کی لڑیاں گرم پانی میں پکائی جاتی ہیں اور روٹیاں پیڑوں کی مدد سے۔ نوڈلز کی تیاری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بنانے والا پتلی تماشا چلانے والوں کی طرح ڈوریاں ہلا رہا ہو۔ تازہ نوڈلز کی بیف (Beef)کے ساتھ ایک ڈش بہت مشہور ہے جو چینی شہر لانچو (Lanzhou) سے شروع ہوئی اور وہاں کی مسلمان آبادی اس کو تیار کرنے کی ماہر ہے‘ اسی لئے یہ ڈش ہی لانچو لمیان (Lanzhou Lamian) کے نام سے معروف ہے۔ سنکیانگ اور لا نچو کے مسلمانوں کے یہ سستے ریسٹورنٹ دن کے وقت بھوک مٹانے کے لئے غنیمت رہے۔ ابتدا میں ابلے ہوئے چاول کسی سبزی اور گوشت کے ساتھ ہی کھانا مناسب جانا کیونکہ نوڈ لز روایتی چینی چوپ اسٹکس کے ساتھ کھانے کی کوشش میں حالت اس چھوٹے سے بچے کی طرح ہو جاتی تھی جس نے ابھی ابھی دودھ چھوڑ کر ٹھوس غذا کھانا شروع کی ہو یعنی جتنا منہ تک پہنچا اتنا ہی اردگرد بھی بکھرگیا۔ بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ جب مشق ہو گئی تو اب چینیوں سے کم وقت میں نہ سہی لیکن چند ایک منٹ بعد ہم بھی کھانا ختم کر ہی لیتے ہیں ۔ 
روز مرہ کے چینی کھانوں میں ڈمپلنگس (Dumplings) بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ سموسوں کے انداز میں سبزیوں یا گوشت کو آٹے اور میدے کی ٹکیہ میں بھر کر ابالے یابھاپ کی مدد سے تیار کئے جاتے ہیں۔ یہ گرما گرم ڈمپلنگس انہی کے پکائے ہوئے پانی کے ساتھ لوگ مزے سے کھا لیتے ہیں۔ ان کی زیادہ مشہور اقسام میں جیائو زی‘ بائو زی اور وون تھون اپنی مختلف شکلوں اور ذائقوں کے ساتھ عام دستیاب ہوتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک ڈش زونگ زی کہلاتی ہے جو بانس کے سخت پتوں کے اندر گیلے اور چپکے ہوئے میٹھے یا ترش چاول ہوتے ہیں‘ سمجھ لیں چاولوں کی پڑیا ہوتی ہے جسے آپ جب چاہیں کھول کر کھا لیں۔ روسٹ کی ہوئی بطخ بھی ایک بہت مقبول ڈش ہے خصوصاٌ پیکنگ کی بطخ (Peking Duck) بیجنگ کے مشہور ترین کھانوں میں سے ایک ہے‘ بالکل ایسے ہی جیسے لاہوری چرغہ‘ گوجرانوالہ کے چڑے یا کوئٹہ کی سجی۔ یہ روایتی ڈش مقامی اور غیر مقامی لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ چین کی یہ بطخیں چونچ سے لے کر سے پنجوں تک مکمل حالت میں بھی دستیاب ہوتی ہیں جو دیکھنے میں ہی ایک منفرد تجربہ ہے کھانے کا تکلف تو چھوڑ ہی دیں۔ 
مختلف تقریبات کے پُرتکلف ماحول میں چینی میزبان جب کھانوں کی ڈشز سجاتے ہیں تو سبزیوں پر ہی گزارا بہترہے۔ ویسے بھی ایک دوست کے بقول مسلمان وہ ہے جو بے شک باقی سب کچھ کھا اور پی لے بس ایک مخصوص جانور کا گوشت ہرگز نہیں کھا سکتا اور چین میں یہ گوشت ہر کھانے کی محفل کا حصہ ہوتاہے‘ اس لئے میںسبزی کھانے والا بننے کو ترجیح دیتا ہوں جس پر اکثر چینی مجھے 'اندوآ ‘ (چینی زبان میں انڈین) سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایک ایسی ہی پُرتکلف دعوت میں‘ جو ایک معروف ریسٹورنٹ میں تھی‘ چینی میزبان مختلف ممالک کے لوگوں کو کھانے پیش کرنے کے دوران ان کھانوںکا تعارف بھی کروا رہے تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک مسلمان مہمان اپنے میزبان سے ہر ڈش دیکھ کر یہی سوال کرتے کہ یہ ڈش حلال ہے یا نہیں؟ میزبان خاتون ان کی بات بالکل نہ سمجھ پائی اور بے بسی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی تو مجبوراً میں نے آہستگی سے اپنے ایک اور میزبان کے کان میں سرگوشی کردی کہ یہ سبزی خور (Vegetarian) ہیں۔ یہ سنتے ہی اس نے اپنی ساتھی کو چینی میں یہ بات بتا دی اور الجھن کا شکار میزبان نے پھرتی سے سبزیوں کی ڈشز کی طرف اشارہ کر دیا جیسے کہہ رہی ہو یہ رہیں حلال ڈشز۔ یہاں کی مہنگی ترین ڈشز میں شارک فن(Shark fin) سوپ بھی شامل ہے۔یہ سوپ انتہائی خاص تقریبات اور مواقع پر استعمال ہوتا ہے اور امراء کی ڈش سمجھی جاتی ہے۔ اس سوپ کے نام سے ہی ظاہر ہے کے اس کی تیاری میں شارک مچھلی کے فِن (Fin) یعنی تیرنے میں مدد دینے والے پروںکو استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس سوپ کی لذت میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے‘ ساتھ ساتھ اس کو صحت کے لئے بھی بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔ چین اور دنیا بھر کے مہنگے چینی ریسٹورنٹس میں یہ ایک انتہائی خاص ڈش سمجھی جاتی ہے ۔حالیہ برسوں میں اس کے بڑھتے استعمال کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس شوق نے شارک جیسی قیمتی نسل کی مچھلیوں کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بعض ممالک اس پر مکمل یا محدود پابندیاں بھی لگا رہے ہیں۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اپنے مزاج سے قریب ترین کھانے کی چیزیں دریافت ہوتی چلی گئیں۔ گھر کے نزدیک ایک مارکیٹ میں چھوٹے سائز کے تل والے نان اور مخصوص چینی انداز کے پراٹھے مل جاتے ہیں جو گزارے کے لئے کافی ہیں۔ اسی طرح شنگھائی کی چھانگ دو روڈ پر موجود مسجد کے باہر ہر جمعے کو ایک عارضی فوڈ اسٹریٹ لگتی ہے جہاں چینی مسلمان فٹ پاتھ پر کھانے پینے کے اسٹالز لگاتے ہیں۔ ان اسٹالز پر آپ گرما گرم تکے اور نان وہیں سٹولوں پر بیٹھ کر نوش فرما سکتے ہیں۔ اس جگہ کافی رش ہوتا ہے۔ نمازیوں کے علاوہ مقامی چینی باشندے بھی یہ تکے اور پلائو گرم قہوے کے ساتھ بڑے شوق سے کھاتے پیتے ہیں‘ بلکہ اکثر جگہ کی تنگی کے باعث کھڑے ہو کر تنکے جیسی لکڑی کی سیخوں سے بوٹیاں براہ راست نوش کرنے میں بھی کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ ان کھانوں میں افغانی اور وسط ایشیائی اندازکی جھلک نظر آ تی ہے اور گوشت میں چربی کی مقدار کافی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے سردیوں میں تو ان کا بہت لطف ہے لیکن گرمیوں میں ان کو اچھی طرح ہضم کرنے کے لئے قہوے کی کئی پیالیاں پی لینے میں کوئی حر ج نہیں‘ ورنہ عین ممکن ہے کہ گھر پہنچنے تک پیٹ میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو جائیں۔ ویسے بھی ہلکے پھلکے اور زود ہضم نوڈلز کی عادت اگر پڑ جائے تو احتیاط لازم ہے۔ سفر یا بیرون ملک قیام کے دوران اگر اپنی مرضی کے کھانے نہ ملیں تو مقامی ڈشز سے دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کچھ عرصے میں نہ صرف عادت بن جاتی ہے بلکہ یہ کھانے مقامی کلچر کو سمجھنے میں بھی بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ چین میں رہتے ہوئے یہاں کے مقامی کھانوں کے ساتھ ساتھ ہمیں نان اور تکے بونس میں مل گئے یعنی پانچوں انگلیاں چینی سوپ میں اور سر دیسی کڑھائی میں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں