اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے اگر میںصرف اپنے محلے کے گھروں کو ذہن میں لائوں تو شاید ہی کوئی ایسا گھر تھا جہاں بچوں کی تعداد چار یا پانچ سے کم ہو۔ اردگرد کے گھروں اور دوستوں رشتہ داروں سب کو شامل کر لیا جائے تو بھی اوسطاً فی خاندان چار سے کم بچے نہ تھے۔ جن گھرانوں میں دو یا تین اولا دیں ہوتیں‘ وہ خاصا خاموش سا لگتا تھا یا پھر چند ایک وہ جوڑے تھے جو طبی وجوہ کی بنا پر اولاد سے محروم تھے۔ بعض گھرانوں میں تو بچوں کی اتنی رونق اور بہار تھی کہ والد ین کو راشن اور سودا سلف ہول سیل مارکیٹ سے خریدنا سستا پڑتا تھا۔ اتنی تعداد میں بہن بھائیوں کی موجودگی میں ماں باپ بھی ایک اندازہ رکھتے تھے کہ چلو دو پڑھائی میں اچھے یا اچھی ہیں اور دو تین کا ذہن کاروباری ہے یا کسی ہنر میں ٹھیک لگتا ہے‘ یعنی یہ بچے تو کچھ نہ کچھ کر لیں گے باقی رہ جانے والوں کو یہ بھائی بہن سنبھال لیں گے۔ 80ء کی دہائی بھی اچھے زمانے تھے‘ جب اتنی بڑی پلٹن کسی نہ کسی طر ح پل جاتی تھی۔ ایک روز لینگویج کلاس کے دوران چین میں فی جوڑا ایک بچے کی پالیسی کا ذکرہونے پر جب میں نے وطنِ عزیز میں بچوں کی بہار کا اپنی ٹیچر سے ذکر کیا تو اس کی حیرت قابل دید تھی۔ میری یہ ٹیچر چین کی اس اکلوتی نسل سے تعلق رکھتی تھی‘ جس کے نہ خود کوئی بہن بھائی تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے دوستوں یا رشتہ داروں میں سے کسی کے دیکھے۔
چین میں بڑھتی ہوئی آبادی اور مستقبل میں اتنی آبادی کے لئے ناکافی وسائل کو دیکھتے ہوئے فی جوڑا ایک بچے کی پالیسی کا آغاز1978ء میں ہوا۔ ایک بڑی دیہی آبادی‘ مخصوص علاقوں اور کم آبادی والی اقلیتی نسل کے لوگوں کے استثنا کے ساتھ ملک بھر میں خصوصاً شہروں میں اس پالیسی کو قانونی طور پر نافذ کر دیا گیا جس پر عمل نہ کرنا‘ ایک قابل سزا جرم تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین دہائیوں تک اس پر عمل کے نتیجے میں موجودہ چین کی آبادی میںبیس کروڑ افرادتک کے ممکنہ اضافے کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے بہت سے ناقدین بھی رہے‘ جو اس پر عملدرآمد کے دوران ہونے والی سختیوں سے نالاں تھے۔ حکومت کے نزدیک یہ پالیسی ناگزیر تھی کیونکہ ملکی وسائل آنے والی زیادہ آبادی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ تھے۔ چین کی موجودہ آبادی بھی ایک ارب تیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے‘ جو امریکہ کے تقریباًبرابر ہی رقبہ رکھنے کے باوجود وہاںسے ایک ارب کے لگ بھگ زائد ہے۔ اس تعداد کو دیکھتے ہوئے تو فی جوڑا ایک بچے کی پالیسی کافی حقیقت پسندانہ لگتی ہے‘ لیکن اس پالیسی کے چینی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جن کو کافی منفرد اور تجرباتی بھی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 35 برسوں میں یہاں ایک پوری نسل ان لوگوں کی تیار ہوئی جو اکلوتے تھے۔ اب اس اکلوتی نسل کی بھی اگر ایک ہی اولاد ہو تو سمجھیں بعض رشتے جیسے ماموں‘ چچا یا پھوپھی‘ خالہ وغیرہ تو ختم ہوئے ہی ساتھ ساتھ کزنز کا تصور بھی نا پید ہوگیا۔ایک روایتی مشرقی معاشرے کے طور پر چینی خاندان بھی بڑے رہے ہیں‘ اسی لئے اکلوتے بچوں کی نسل ان کے لئے ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔ پچھلی نسلوں کے بر عکس اس نسل کو جہاں والدین کی بھرپور توجہ اور توانائی میسر رہی‘ وہیں اس خدشے کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ لاڈلا پن ان کے بگاڑ کا سبب نہ بن جائے۔
اس پالیسی نے چینی کی معاشرتی زندگی پر بڑے دلچسپ اثرات چھوڑے ہیں‘ جہاں ایک طرف یہ بچے صحت منداور پُراعتماد نظر آتے ہیں‘ وہیں ان کے انفرادیت پسند اور خودپرست ہونے کا بھی ڈر رہتا ہے۔ گھر میں بہن بھائیوں کے بغیر پروان چڑھنے والی یہ منفرد نسل رشتوں اور باہمی تعلقات کو مختلف نظر سے دیکھتی ہے۔ تمام تر خدشات کے باوجود تحقیق نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ اکلوتے بچے دوسروں کے مقابلے میں تنہائی پسند یا موڈی ہی ہوںبلکہ بعض اوقات ان کے اندر نئے دوست بنانے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے چینی اسکولوں میں بچوں کو ڈھائی سال کی عمر سے بھیجنے کا رجحان بہت عام ہے تاکہ وہ ان کنڈر گارٹنز میں دوسرے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت بسر کر سکیں۔ اس کی ایک اور وجہ ماں باپ دونوں کا نوکری کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں بچوں کی دادیوں اور نانیوں کا کردار بھی بہت اہم ہو جاتا ہے۔ جب کبھی بھی اپنے بیٹے کے کنڈر گارٹن اسکول جانا ہوا‘ خصوصاً چھٹی کے وقت‘ وہاں والدین سے زیادہ دادا‘ دادیوں یا نانا‘ نانیوں کو ہی بچوں کا منتظر پایا۔ بعض اوقات تو بچہ ایک اور لینے والے دو ۔ اب ان حالات میں بچوں میں ایک خاص طر ح کا اعتماد اور لاڈ جنم نہ لے تو پھر کب لے گا۔کسی نے بستہ اٹھایا ہوا ہے تو کسی نے تھرماس پکڑرکھا ہے اور ان کے درمیان یہ ننھے شہزادے‘ شہزادیاں رواں دواں ہیں۔ یقینا یہ معاملہ پورے چین میں نہ ہو گا‘ جہاں دور دراز کے دیہی علاقے اب بھی غربت سے لڑ رہے ہیں بلکہ دیہی علاقوں میں فی جوڑا دو بچوں کی اجازت بھی ہمیشہ جاری رہی تاکہ وہ ماں باپ کا ہاتھ بٹا سکیں خصوصاً اس صورت میں جب پہلی اولاد لڑکی ہو۔ روایتی طور پر اب بھی پسماندہ علاقوں میں اولاد میںپہلی تر جیح لڑکے کو دی جاتی ہے اور اس لحاظ سے دیہی چینی معاشرہ ہم سے بہت مختلف نہیں۔
اب جبکہ اکلوتوں کی نسل نہ صرف جوان ہو چکی ہے بلکہ اکثر خود بھی شادی شدہ ہیں‘ ان پر اکلوتا ہونے کے باعث اپنے والدین کی دیکھ بھال کا بھی کافی دبائو ہوتا ہے۔ یہ معاملہ مزید مشکل ہو جاتا ہے جب انہیں کام کے سلسلے میں دوسرے علاقوں‘ شہروں یا ملکوں کا رخ کرنا پڑے‘ جس کا بہت زیادہ رجحان ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس پالیسی کی اصل قیمت ان بچوں کے وہ بوڑھے والدین ادا کر رہے ہیں جو اپنی اولاد کے ساتھ رہنے سے قاصر ہیں۔حال ہی میں چینی حکومت نے فی جوڑا ایک بچے کی پابندی کو نرم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے تقریباً 35 برس قبل یہ پابندی اس لئے لگائی گئی تھی کہ ملکی وسائل اور ترقی اس قابل نہ تھی کہ اتنی آبادی کا بوجھ برداشت کر سکے اور اب اس میں تبدیلی اس لئے کی جائے گی کہ آئندہ بیس پچیس برس میں نوجوان کام کرنے والی آبادی میں کمی کے امکان کو روکا جائے۔ جس رفتار سے چین کی معیشت ترقی کر رہی ہے اسے آئندہ ایک بڑی ورک فورس کی ضرورت ہو گی۔ وہ میاں بیوی جو دونوں ہی اپنے والدین کی اکلوتی اولادیں ہیں‘ انہیں تو پہلے سے دوسری اولاد کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح وہ والدین جن کی پہلی اولاد کسی ایسی بیماری یا معذوری کا شکار ہوتی ہے جو موروثی نہیںوہ بھی دوسری اولاد کی اجازت نامے کے مستحق ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند برسوں میں تمام شادی شدہ جوڑے دوسری اولادکی اجازت حاصل کر پائیں گے۔
شنگھائی اور بیجنگ کے علاوہ دیگر چینی شہروں کے سفر کے دوران ان شہروں میں بہت کم ہی ایسا ہوا‘ جب میں نے کسی جوڑے کے ساتھ ایک سے زائد بچہ دیکھاہو۔ شنگھائی میں تو حال یہ ہے کے ہر تفریحی مقام یا پارک میں جوڑے اپنے اکلوتے بچوں کے ہمراہ ہی نظر آتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چین کے بڑے شہروں کے باشندوں نے تو ایک بچے والا خاندان رکھنے کو پابندی سے زیادہ زندگی گزارنے کا طریقہ ہی سمجھ لیا ہے ۔ کیا یہ والدین دوسرے بچے کی خواہش رکھتے ہیں اس کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گا جب اس پر پابندی مکمل طور پر ختم کر دی جائے۔ 1978ء کی چینی حکومت کی طرح آج کے حکمران بھی آنے والے بیس تیس برسوں کا سوچ رہے ہیں۔ فرق صر ف اتنا ہے کہ پچھلے حکمرانوں نے وسائل کی کمی کے باعث پابندی عائد کی تھی جبکہ موجودہ حکمران ترقی کا پہیہ جاری رکھنے کے لئے درکار آبادی کے باعث یہ پابندی ہٹا سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں شاباش چینی قوم کو دینی چاہیے جو اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کو کامیاب کروا کر ہی دم لیتے ہیں۔