انٹر نیٹ کاآٹا اور بیسن کی تلاش

میں نے کم ہی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو افطار کے دوران پکوڑوں کے خواہشمند نہ ہوں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی جن اشیاء کی قیمتیںآسمان پر چاند کو چھونے لگتی ہیں ان میں پکوڑوں کی وجہء تخلیق بیسن بھی شامل ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو اگر رویت ہلال کمیٹی والے اپنی دوربین‘ اشیاء کی قیمتوں پر نصب کر کے دیکھیں تو چاند بڑا واضح اور جلدی نظر آسکتا ہے ۔ رمضان کے آغاز پر مہنگائی کا خبر کے طور پر ذکر کرنا بھی عجیب سا لگتا ہے کیونکہ خبر میں کچھ تو نیا پن ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو وہ خبر ہی کیا۔ اس لحاظ سے تو خبر وہ بنتی ہے جو چین میں رہنے کے دوران ہم پر گزرتی ہے یعنی بیسن کی قیمت تو ایک طرف بیسن کی تلاش میں ایک پاکستانی شہری نے شنگھائی کا چپہ چپہ چھان مارا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر میں ہماری معلومات کے مطابق ایک عدد ننھا منا سا دیسی سامان کا اسٹور موجود ہے۔ گھر سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع اس انڈین اسٹور پر دال چنا ٹائپ کی چند ایک چیزیں تو دستیاب ہیں لیکن ہر وقت ہر چیز کا ملنامشکل ہوتاہے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ لینے ماش کی دال گئے تھے اور لے آئے ہاضمے کا چورن کیونکہ اتنی دور آنے کے بعد اگر دال موجود نہ تھی تو اسے ہی غنیمت سمجھا‘کہ اگلی بار ایسا نہ ہو کہ چورن بھی نہ ملے جس کی رمضان میں اشد ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جب کوئی چیز اتنی کمیاب ہو تو قیمت کا ذکر بے معنی سا ہو جاتا ہے اس لئے بس یہی سمجھیں رمضان میں‘ چین میں بھی بہت مہنگائی ہو جاتی ہے۔
دیسی کھانے پینے کی اشیاء اور مصالحوں کی تلاش کا عمل رمضان میں زیادہ شد و مد سے ہوتا ہے کیونکہ اچھے مسلمان کی طرح ہمارا زور بھی روزے سے زیادہ افطار پر ہوتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن شاپنگ کا جس کی مدد سے ہم نے آٹا منگوانے کا انتظام تو کر لیا ہے اور اب بیسن کی آن لائن تلاش جاری ہے ۔ جب تک ہمیں کوئی ایسا سپلائر نہ ملے جو آٹے کی طرح بیسن بھی کورئیر سروس سے بھجوا دے۔ اپنی قریب ترین مارکیٹ تک‘ جسے ہم ''عام آدمی مارکیٹ‘‘ کہتے ہیں اس تلاش کا دائرۂ کاربڑھا دیا ہے۔ ا س مارکیٹ میںجہاں سبزیوں‘ گوشت سے لے کر بالٹیاں اور گرمیوں کی مناسبت سے نیکروں سمیت سب کچھ ہی مناسب یعنی چینیوں کی قوت خرید کے حساب سے دستیاب ہے‘ دال چاول کی بھی چند دکانیں موجود ہیں۔ کافی تحقیق اور سیکھی ہوئی چینی زبان کے بے رحم استعمال کے بعد مکئی کا آٹا تو دریافت ہو چکا ہے لیکن بیسن کہاں چھپا ہوا ہے اس کا پتا لگانا ابھی باقی ہے۔ مکئی کے آٹے سے اگر پکوڑے بنا کر کھا لئے تو امکان یہی ہے کہ ہاضمے کا کوئی چورن اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل حل نہیں کر پائے گا۔ ویسے عام آدمی مارکیٹ اس لحاظ سے بڑی مفید ثابت ہوئی ہے کہ چینی ڈمپلنگس (Dumplings) کے لئے تیار کی جانے والی میدے کی ٹکیاں مل گئی ہیںجن میں ہم آلو یا قیمہ بھر کر سموسے تل سکتے ہیں ‘ چلیں افطار کا ایک روایتی آئٹم تو تیار ہو گیا۔اسی طرح میٹھے دہی کی سہولت بھی یہاں موجود ہے کہ چنوں کی چاٹ بن سکتی ہے کیونکہ مارکیٹ میں میٹھے یا پھلوں کے ذائقے والے پتلے سے دہی کے پیکٹ دستیاب ہیں۔ چینی باشندے خالص دودھ اور روایتی دہی کا استعمال نہیں کرتے اوردودھ بھی عموماً سویا (Soya) یا ناریل کے آمیزے سے تیار ہوا ملتا ہے۔
اب چین میں افطاری کی تیاری کی بات چل ہی نکلی ہے تو پھلوں کے معاملے میں یہاں آج کل تربوز وں اور خر بوزوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ تر بوز تو شکل و صورت ‘ ذائقے اور سائز میں پاکستانی تربوز کی ہی طرح ہیں البتہ خر بوزے بہت سفیدی مائل ہوتے ہیں اور ذائقہ بھی بس گزارے لائق ہی ہے ۔ لگتا ہے یہاں کے خربوزے نے پاکستانی خر بوزے کا رنگ نہیں پکڑا۔ آم بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں لیکن قیمت میں کافی زیادہ اور چھوٹے ہیں اس لئے یہاں مرزا غالب کی طرح یہ خواہش نہیں کر سکتے کہ بہت سے ہوں اور بہت میٹھے ہوں بس یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ تھوڑے ہوں لیکن بہت میٹھے ہوں۔ اسی طرح لال شربت کی دستیابی بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی پاکستان سے آتے ہوئے ساتھ دو چار بوتلیں اْٹھا لائے۔ سحری کے لئے مخصوص کھجلا اور پھینی کے متبا دل کے طور پر سویاں بنائی جا سکتی ہیں جو اکلوتے دیسی اسٹور سے مل تو جاتی ہیں لیکن قیمت نسبتاً زیادہ ہی ادا کر نی پڑتی ہے۔ حال ہی میں چینی مسلمانوں کے ریسٹورنٹس سے پراٹھا بھی دریافت کر لیاہے ‘ شکل اور ذائقے میں یہ بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جو ہمارے ہاں کباب تکوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے البتہ سائز میں نسبتاً بڑا ہوتا ہے۔ ہم اس پوری نما پراٹھے کو کبھی کبھار خرید لاتے ہیں ‘یہ پراٹھا عام نان کے مقابلے میں کافی زیادہ قیمت کا ہوتا ہے لیکن ایک پراٹھا ایک فرد کا پیٹ بھرنے کے لئے مناسب ہے ۔
یہاں رمضان کا کیلنڈر ملے ہوئے تقریباً دس بارہ روز گزر چکے ہیں ‘کس دن روزہ شروع ہو گا اور کس دن عید ہو گی سب کچھ سامنے موجود ہے۔شنگھائی اسلامک ایسوسی ایشن نے یہ کیلنڈر جاری کر کے رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کا سارا جوش و خروش ٹھنڈا کر دیا ہے۔ یقین مانیں چینی مسلمانوں کے اس حساب کتاب سے سخت کوفت ہوئی ہے۔ ان سے اچھی تو لندن کی کمیونٹی ثابت ہوئی تھی۔ دوران تعلیم وہاں رمضان اور عید کے چاند پر وہ مقابلہ دیکھا کہ پاکستان میں بھی کیا ہوتا ہو گا۔ ریجنٹ پارک کی مرکزی مسجد میں سعودی عرب کے مطابق چاند کا اعلان ہوتا تو دوسرے مکتبۂ فکر کی مسجد اپنا چاند خود سے دیکھنے پر اصرار کرتی۔ اس کشمکش میں وطن سے دوری کا احساس بھی نہ ہوتا بلکہ برطانیہ کے رہائشی مسلمانوں اور پاکستانیوں سے اپنائیت کا رشتہ اور بڑھ جاتا۔ شنگھائی شہرمیں کْل چھ یاسات مساجد ہیں جن میں سے اکثر بڑی تاریخی حیثیت کی حامل ہیں ۔ ان مساجد میں با جماعت نمازیں ‘ جمعے اور عیدین کے اجتماع باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔زیادہ فاصلوں پر ہونے کے باعث لوگوں کی اکثریت جمعے کی نمازوں میں ہی شر یک ہو پاتی ہے۔ عام طور پر قریبی مسجد میں پہنچنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ سے کافی وقت درکار ہوتا ہے‘ سمجھیں آدھ پون گھنٹہ تو کم از کم لگ ہی جاتا ہے۔ اس شہر میں رہائش پذیرپاکستانیوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق چار پانچ سو کے لگ بھگ ہی ہو گی ۔ پاکستانیوں کی زیادہ بڑی تعداد دیگر تجارتی شہروں میں موجود ہے جن میں ای وْ (Yiwu) اور شائوشنگ(Shaoxing) دو نمایاں مقامات ہیں۔ پاکستانیوں کی تعداد کے لحاظ سے وہاں رونق بھی زیادہ ہوتی ہے اور کئی پاکستانی ریسٹورنٹس بھی موجود ہیں۔
رمضان کی آمد او ر اس کے ابتدائی دنوں میں پاکستانی معاشرے کا تو رنگ ہی نرالا ہوتا ہے۔ رش کے اوقات سے بچنے کے لئے میں اکثرشام دیر سے گھر کا رخ کرتا تھا اورکراچی کی شاہراہ فیصل کے چند ایک مقامات پر لوگ شربت اور ہلکی پھلکی افطار کی چیزیں لئے سڑکوں پر پائے جانے والے لوگوں کو روزہ کھلواتے نظر آتے۔ کئی ایک مرتبہ تو بعض جذباتی رضا کار روڈ کے درمیان تک آکر اپنی خدمات پیش کر تے پائے گئے۔ اسی طرح چھ اور دس دن کی تر اویح کے خصوصی انتظامات بھی حالیہ برسوں میں کافی تیزی سے بڑھے ہیں۔ چین میں رہتے ہوئے تو اس قسم کے ماحول کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لئے ہم نے اپنی سارا زور کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں لگا دیا ہے۔ بیسن ‘ کھجور اور لال شربت جیسی چیزوں کی تلاش میں اپنے دل کو بہلاتے ہیں بلکہ اگر جلد ہی ان چیزوں کی آن لائن ڈیلیوری کا انتظام ہو گیا تو بڑی مایوسی ہو گی کہ ایک ایڈونچر کم ہو گیا۔ اب یہی سو چا ہے کہ اگر سب کچھ انٹر نیٹ پر ملنے لگا تو پھر چند ایک نئی چیزوں کی فہرست بنا کر ان کی تلاش شروع کر دی جائے۔ ایسی فہرست جس کی چیزوں کے ملنے کا امکان کم سے کم ہو مثلاً لنگڑا آم ‘ بڑی الا ئچی یا زردے کا رنگ وغیرہ۔ آخر چین میں رہتے ہوئے بھی تو رمضان کی رونق کا حصہ بنا جائے۔ بے شک اس کے لئے ''عام آدمی مارکیٹ‘‘ کے بے مقصد دورے ہی سہی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں